سائیکس پیکو معاہدہ یا سازش
آج کے عرب حکمران خاندان اسی سائیکس، پیکو معاہدے کے ’’فیوض و برکات‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں ۔۔۔
مئی کا مہینہ اپنی گرمی کی وجہ سے محروم ہے جیسا کہ مولانا اسماعیل میرٹھی کا مشہور شعر ہے
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ
لیکن مئی کا جو مہینہ سال 1948 میں آیا تھا ، اس کی وجہ سے امت اسلامی کے پسینے آج تک بہہ رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مئی1948 میں جو شجرہ خبیثہ ارض مقدس فلسطین میں نمودار ہوا اس کے بیج مئی 1916میں ڈالے گئے تھے۔ یاد رہے کہ برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اعلامیے کو صہیونی دہشتگردوں نے فلسطین میں ریاست قائم کرنے کے لیے ایک قانونی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ یہ اعلامیہ نومبر 1917 میں جاری کیا گیا۔ لیکن جس بیج کا تذکرہ ہے وہ در حقیقت سائیکس اورپیکو نے بوئے تھے۔ یہ الگ بات کہ صہیونیوں نے انیسویں صدی میں ہی مشرق وسطیٰ سے ہزاروں کلومیٹر دور ہی اس بیج پر کام شروع کر دیا تھا۔
فلسطین کی مقدس سرزمین پر اس بیج کا اثر بہت بعد میں ظاہر ہوا تھا۔ اس تمہید کے بعد یہ بیان کرنا مناسب ہوگا کہ صہیونی یعنی نسل پرست یہودی منظم سازش کے تحت برطانوی سامراج کی فوج میں شامل ہوئے۔ 1913 تا 1919 پہلی جنگ عظیم کی صف بندی میں دنیا کے بڑے ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج، روس، بیلجیم، اٹلی، جاپان، یونان، مونٹے نیگرو اور سربیا پر مشتمل Allies یعنی اتحادیوں کا مقابلہ سینٹرل پاورز یعنی مرکزی طاقتوں کے ساتھ تھا جن میں مسلمانوں کی مرکزی خلافت ترکی، جرمنی اور آسٹریا، ہنگری شامل تھے۔ اس دور میں پس پردہ جو سازشی معاہدے و خط وکتابت ہوئیں، عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے عرب پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں برطانوی ہائی کمشنر (یعنی سفیر) سر ہنری میک میہن نے ترک خلافت کے عرب گورنر برائے حجاز حسین بن علی جنھیں شریف مکہ بھی کہا جاتا تھا کے ساتھ خفیہ خط وکتابت میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اتحادی ممالک جنگ جیت گئے تو ترک خلافت کے زیر حکومت عرب علاقے آزاد ہو جائیں گے۔ ایک جانب یہ عہد و پیمان کیے جا رہے تھے تو دوسری جانب مئی 1916 میں برطانوی سامراج کے اعلیٰ سفارتکار سر مارک سائیکس اور بیروت میں فرانسیسی قونصلر فرینسواژارژپیکونے یہ طے کر لیا تھا کہ جنگ عظیم اول میں کامیابی کے بعد سلطنت عثمانیہ (یعنی ترک خلافت) کے مفتوحہ علاقوں کو برطانیہ، فرانس اور روس آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اس نوعیت کا تیسرا رائونڈ تھا ۔23 نومبر 1915 کو لندن میں پہلا رائونڈ ہوا جہاں برطانوی ٹیم کی قیادت سر آرتھر نکولسن نے کی تھی۔
21 دسمبر 1915 کو وسرے رائونڈ میں برطانوی وفد کی قیادت مارک سائیکس نے کی۔ 9 مئی 1916 کو لند ن میں تعینات فرانسیسی سفیر پال کیمبون نے برطانوی وزیر خارجہ سر ایڈورڈ گرے کو لکھے گئے خط میں اس مجوزہ تقسیم بندی کی تفصیلات بیان کیں۔16 مئی 1916 کو ایڈورڈ گرے نے جوابی خط میں اس کی توثیق کر دی۔ یہی وہ سائیکس پیکو معاہدہ ہے جسے بین الاقوامی تعلقات میں مشرق وسطیٰ سے متعلق مضمون میں طلبا و طالبات کو پڑھنا پڑتا ہے۔ روس نے موجودہ استنبول (اس وقت کے Constantinople)، خلیج باسفورس کے دونوں طرف کی پٹی اور روس کی سرحد پر واقع 4 ترک صوبوں میں سے بڑا حصہ طلب کیا۔ عرب علاقوں میں روس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ برطانوی سامراج کو میسوپوٹیمیا کے صوبوں بغداد اور بصرہ پر کنٹرول درکار تھا۔
فرانسیسی سامراج کو شام، ترکی کے آرمینیا ئی علاقے پر تسلط چاہیے تھا۔ فلسطین کو انٹرنیشنل کنٹرول میں رکھنے کی بات کی گئی۔ اس خفیہ معاہدے کے مجوزہ نقشے میں بلیو زون اور اے زون پر فرانسیی کنٹرول، ریڈ زون پر برطانوی تسلط اور بی زون کو بھی برطانیہ کے زیر اثر قرار دیا گیا۔ ریڈ زون اور بی زون میں موجودہ عراق، کویت اور خلیج فارس کی وہ پٹی تھی جہاں آج کل بعض خلیجی ممالک قائم ہیں۔ اے زون اور بلیو زون موجودہ شام اور لبنان نامی ملک تھے۔ باقی عرب ممالک کو آزادی دی جانی تھی لیکن مجوزہ منصوبے کے مطابق ایک عرب ریاست یا وفاق نامی جو بھی مملکت بنتی اسے بھی فرانس اور برطا نیہ نے باہمی مشاورت کے ذریعے اپنے زیر اثر لانا تھا۔
اکتوبر 1917 میں بالشویک انقلاب کے بعد روس کے مشہور انقلابی اخبار ''ازویسٹیا'' نے دسمبر 1917 میں سائیکس ۔پیکو معاہدے کا راز فاش کر دیا ورنہ یہ راز ہی رہتا۔ ترکی میں یہودی نسل پرستوں نے ترک قومیت کا نعرہ بلند کیا اور دنیائے عرب میں عیسائی قوم پرستوں نے عرب قومیت کا جدید تصور پیش کیا۔ہدف سلطنت عثمانیہ یا ترک خلافت کا خاتمہ تھا جو کامیابی سے حاصل کر لیا گیا۔ اس پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد قدم بہ قدم صہیونیوں نے برطانوی سامراج اور دیگر ممالک کے کاندھے استعمال کر کے فلسطین پر ناجائز تسلط کو ممکن بنانے کی کامیاب سازش پر عمل کیا۔ 1922 میں برطانوی سامراج نے اس وقت کی اقوام متحدہ یعنی لیگ آف نیشنزسے فلسطین مینڈیٹ کے نام پر اپنا ناجائز سامراجی تسلط قائم کیالیکن مینڈیٹ کی تجویز بھی صہیونی دہشتگردوں کے رہنمائوں کی جانب سے ہی آئی تھی۔
ترکی چونکہ فلسطین پر بھی کنٹرول رکھتا تھا اس لیے صہیون میول کور بنا کرصہیونی دہشتگرد برطانوی افواج کے ساتھ ملکر اس کے خلاف لڑے، بعد میں صہیونیوں نے برطانوی افواج میں جیوش لیجیئنز کے نام سے 5 بٹالین کی شکل میں فوجی خدمات انجام دیں۔ صہیونیوں کی ان اعلانیہ اور اس سے قبل خفیہ '' خدمات'' کے صلے میں بالفور اعلامیہ سے قبل اور بعد میں انھیں یہ سہولت دی گئی کہ وہ دنیا بھر سے صہیونیوں کی غیر قانونی نقل مکانی اور فلسطین میں قیام اور بعد ازاں اسے غصب کر لیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین میں غیر قانونی ناجائز نسل پرست یہودی یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام میں پہلی جنگ عظیم کے دوران طے پانیوالے سائیکس پیکو معاہدے نے بنیادی عامل کا کردار ادا کیا۔ بالفور اعلامیے کو بھی سائیکس، پیکو معاہدے کی توسیع اور تسلسل سمجھنا چاہیے۔
آج کے عرب حکمران خاندان اسی سائیکس، پیکو معاہدے کے ''فیوض و برکات'' سے مستفید ہو رہے ہیں۔ رہا فلسطین کا مسئلہ تو اس نے اسی بدنام زمانہ سازشی معاہدے کے بطن سے ہی جنم لیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ترک خلافت کے سقوط کے بعد آج رجب طیب اردگان کا ترکی بھی اسرائیل کو ایک جائز مملکت سمجھتا ہے اور عرب حکمرانوں کو اعتراض صرف اس کے نام یعنی یہودی ریاست اسرائیل پر ہے ورنہ لفظ یہودی نکل جانے پر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سب آمادہ ہیں۔ خدا فلسطینیوں کی حفاظت کرے اور مسلمانوں کو آج کے دور کے سائیکس پیکو معاہدے سے اور سازشی اتحاد کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے۔آج کے سائیکس پیکو معاہدے کو سمجھنے کے لیے صرف تین خبریں اورایک ریسرچ پیپر پڑھ لیں، خود بخود سمجھ جائیں گے کہ آج کی خفیہ سازش کیا ہے؟
تین خبروں میں سب سے پہلے ماہ اگست 2012 میں صہیونی سیکیورٹی تنظیم شین بیتھ کے سابق سربراہ ایمی ایالون نے مشہور اینکر پرسن چارلی روزکو انٹرویو میں کہا کہ وہ حماس، حزب اللہ، شام اور ایران کے اتحاد کے خلاف امریکا، اسرائیل، ترکی، سعودی و دیگر عرب ممالک پر مشتمل سنی اتحاد قائم کریں گے۔ نیویارک ٹائمز کے صہیونی یہودی کالم نگار تھامس فرائیڈ مین کے پچھلے سال Let's Make a Deal کے عنوان سے لکھے گئے کالم میںایمی ایالون کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ فرائیڈمین نے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظہبی میں گلف سیکیورٹی کانفرنس میں عرب، مسلم ممالک کے حکومتی عہدیداران اور ماہرین جمع تھے۔ اس کانفرنس میں غاصب صہیونی اسرائیل کے صدر شمعون پیریز نے سیٹلائٹ خطاب کیا، ان کے عقب میں ناجائز صہیونی مملکت کا جھنڈا تھا۔
تیسری خبر واشنگٹن پوسٹ کے مشہورکالم نگار ڈیوڈ اگناشس کا وہ کالم ہے جو 18 فروری 2014 کو اس اخبار کی ویب سائٹ پر آ گیا تھا۔ اردن میں پیدا ہونے والے نیبراسکا یونیورسٹی کے پروفیسر حسن براری نے جو کالم لکھا اس میں ڈیوڈاگناشس کے کالم کا تذکرہ کیا اور سعودی دارالحکومت ریاض سے شایع ہونے والے روزنامہ عرب نیوز میں 23 فروری کو پروفیسر کا کالم شایع ہوا۔
خبر یہ تھی کہ واشنگٹن میں سعودی، اردن، قطر، ترکی، بعض دیگر عرب ممالک، امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کا اجلاس ہواتھا۔ اس میں شام کے خلاف نئی سازشوں پر غور و خوض کیا گیا۔ جس ریسرچ پیپر کی بات ہم نے کی وہ اسی صہیونی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اپنے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں خود امریکی صہیونیوں سے تیار کروایا تھا۔ کلین بریک کے عنوان سے اس دستاویز میں شام کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اس نے حزب اللہ، حماس اور ایران کے ساتھ اتحاد ختم نہ کیا گیا تو صہیونی اسرائیلی حکومت اس کے خلاف پراکسی وار یعنی نیابتی جنگ لڑے گی۔
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ
لیکن مئی کا جو مہینہ سال 1948 میں آیا تھا ، اس کی وجہ سے امت اسلامی کے پسینے آج تک بہہ رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مئی1948 میں جو شجرہ خبیثہ ارض مقدس فلسطین میں نمودار ہوا اس کے بیج مئی 1916میں ڈالے گئے تھے۔ یاد رہے کہ برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اعلامیے کو صہیونی دہشتگردوں نے فلسطین میں ریاست قائم کرنے کے لیے ایک قانونی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ یہ اعلامیہ نومبر 1917 میں جاری کیا گیا۔ لیکن جس بیج کا تذکرہ ہے وہ در حقیقت سائیکس اورپیکو نے بوئے تھے۔ یہ الگ بات کہ صہیونیوں نے انیسویں صدی میں ہی مشرق وسطیٰ سے ہزاروں کلومیٹر دور ہی اس بیج پر کام شروع کر دیا تھا۔
فلسطین کی مقدس سرزمین پر اس بیج کا اثر بہت بعد میں ظاہر ہوا تھا۔ اس تمہید کے بعد یہ بیان کرنا مناسب ہوگا کہ صہیونی یعنی نسل پرست یہودی منظم سازش کے تحت برطانوی سامراج کی فوج میں شامل ہوئے۔ 1913 تا 1919 پہلی جنگ عظیم کی صف بندی میں دنیا کے بڑے ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج، روس، بیلجیم، اٹلی، جاپان، یونان، مونٹے نیگرو اور سربیا پر مشتمل Allies یعنی اتحادیوں کا مقابلہ سینٹرل پاورز یعنی مرکزی طاقتوں کے ساتھ تھا جن میں مسلمانوں کی مرکزی خلافت ترکی، جرمنی اور آسٹریا، ہنگری شامل تھے۔ اس دور میں پس پردہ جو سازشی معاہدے و خط وکتابت ہوئیں، عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے عرب پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں برطانوی ہائی کمشنر (یعنی سفیر) سر ہنری میک میہن نے ترک خلافت کے عرب گورنر برائے حجاز حسین بن علی جنھیں شریف مکہ بھی کہا جاتا تھا کے ساتھ خفیہ خط وکتابت میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اتحادی ممالک جنگ جیت گئے تو ترک خلافت کے زیر حکومت عرب علاقے آزاد ہو جائیں گے۔ ایک جانب یہ عہد و پیمان کیے جا رہے تھے تو دوسری جانب مئی 1916 میں برطانوی سامراج کے اعلیٰ سفارتکار سر مارک سائیکس اور بیروت میں فرانسیسی قونصلر فرینسواژارژپیکونے یہ طے کر لیا تھا کہ جنگ عظیم اول میں کامیابی کے بعد سلطنت عثمانیہ (یعنی ترک خلافت) کے مفتوحہ علاقوں کو برطانیہ، فرانس اور روس آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اس نوعیت کا تیسرا رائونڈ تھا ۔23 نومبر 1915 کو لندن میں پہلا رائونڈ ہوا جہاں برطانوی ٹیم کی قیادت سر آرتھر نکولسن نے کی تھی۔
21 دسمبر 1915 کو وسرے رائونڈ میں برطانوی وفد کی قیادت مارک سائیکس نے کی۔ 9 مئی 1916 کو لند ن میں تعینات فرانسیسی سفیر پال کیمبون نے برطانوی وزیر خارجہ سر ایڈورڈ گرے کو لکھے گئے خط میں اس مجوزہ تقسیم بندی کی تفصیلات بیان کیں۔16 مئی 1916 کو ایڈورڈ گرے نے جوابی خط میں اس کی توثیق کر دی۔ یہی وہ سائیکس پیکو معاہدہ ہے جسے بین الاقوامی تعلقات میں مشرق وسطیٰ سے متعلق مضمون میں طلبا و طالبات کو پڑھنا پڑتا ہے۔ روس نے موجودہ استنبول (اس وقت کے Constantinople)، خلیج باسفورس کے دونوں طرف کی پٹی اور روس کی سرحد پر واقع 4 ترک صوبوں میں سے بڑا حصہ طلب کیا۔ عرب علاقوں میں روس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ برطانوی سامراج کو میسوپوٹیمیا کے صوبوں بغداد اور بصرہ پر کنٹرول درکار تھا۔
فرانسیسی سامراج کو شام، ترکی کے آرمینیا ئی علاقے پر تسلط چاہیے تھا۔ فلسطین کو انٹرنیشنل کنٹرول میں رکھنے کی بات کی گئی۔ اس خفیہ معاہدے کے مجوزہ نقشے میں بلیو زون اور اے زون پر فرانسیی کنٹرول، ریڈ زون پر برطانوی تسلط اور بی زون کو بھی برطانیہ کے زیر اثر قرار دیا گیا۔ ریڈ زون اور بی زون میں موجودہ عراق، کویت اور خلیج فارس کی وہ پٹی تھی جہاں آج کل بعض خلیجی ممالک قائم ہیں۔ اے زون اور بلیو زون موجودہ شام اور لبنان نامی ملک تھے۔ باقی عرب ممالک کو آزادی دی جانی تھی لیکن مجوزہ منصوبے کے مطابق ایک عرب ریاست یا وفاق نامی جو بھی مملکت بنتی اسے بھی فرانس اور برطا نیہ نے باہمی مشاورت کے ذریعے اپنے زیر اثر لانا تھا۔
اکتوبر 1917 میں بالشویک انقلاب کے بعد روس کے مشہور انقلابی اخبار ''ازویسٹیا'' نے دسمبر 1917 میں سائیکس ۔پیکو معاہدے کا راز فاش کر دیا ورنہ یہ راز ہی رہتا۔ ترکی میں یہودی نسل پرستوں نے ترک قومیت کا نعرہ بلند کیا اور دنیائے عرب میں عیسائی قوم پرستوں نے عرب قومیت کا جدید تصور پیش کیا۔ہدف سلطنت عثمانیہ یا ترک خلافت کا خاتمہ تھا جو کامیابی سے حاصل کر لیا گیا۔ اس پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد قدم بہ قدم صہیونیوں نے برطانوی سامراج اور دیگر ممالک کے کاندھے استعمال کر کے فلسطین پر ناجائز تسلط کو ممکن بنانے کی کامیاب سازش پر عمل کیا۔ 1922 میں برطانوی سامراج نے اس وقت کی اقوام متحدہ یعنی لیگ آف نیشنزسے فلسطین مینڈیٹ کے نام پر اپنا ناجائز سامراجی تسلط قائم کیالیکن مینڈیٹ کی تجویز بھی صہیونی دہشتگردوں کے رہنمائوں کی جانب سے ہی آئی تھی۔
ترکی چونکہ فلسطین پر بھی کنٹرول رکھتا تھا اس لیے صہیون میول کور بنا کرصہیونی دہشتگرد برطانوی افواج کے ساتھ ملکر اس کے خلاف لڑے، بعد میں صہیونیوں نے برطانوی افواج میں جیوش لیجیئنز کے نام سے 5 بٹالین کی شکل میں فوجی خدمات انجام دیں۔ صہیونیوں کی ان اعلانیہ اور اس سے قبل خفیہ '' خدمات'' کے صلے میں بالفور اعلامیہ سے قبل اور بعد میں انھیں یہ سہولت دی گئی کہ وہ دنیا بھر سے صہیونیوں کی غیر قانونی نقل مکانی اور فلسطین میں قیام اور بعد ازاں اسے غصب کر لیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین میں غیر قانونی ناجائز نسل پرست یہودی یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام میں پہلی جنگ عظیم کے دوران طے پانیوالے سائیکس پیکو معاہدے نے بنیادی عامل کا کردار ادا کیا۔ بالفور اعلامیے کو بھی سائیکس، پیکو معاہدے کی توسیع اور تسلسل سمجھنا چاہیے۔
آج کے عرب حکمران خاندان اسی سائیکس، پیکو معاہدے کے ''فیوض و برکات'' سے مستفید ہو رہے ہیں۔ رہا فلسطین کا مسئلہ تو اس نے اسی بدنام زمانہ سازشی معاہدے کے بطن سے ہی جنم لیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ترک خلافت کے سقوط کے بعد آج رجب طیب اردگان کا ترکی بھی اسرائیل کو ایک جائز مملکت سمجھتا ہے اور عرب حکمرانوں کو اعتراض صرف اس کے نام یعنی یہودی ریاست اسرائیل پر ہے ورنہ لفظ یہودی نکل جانے پر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سب آمادہ ہیں۔ خدا فلسطینیوں کی حفاظت کرے اور مسلمانوں کو آج کے دور کے سائیکس پیکو معاہدے سے اور سازشی اتحاد کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے۔آج کے سائیکس پیکو معاہدے کو سمجھنے کے لیے صرف تین خبریں اورایک ریسرچ پیپر پڑھ لیں، خود بخود سمجھ جائیں گے کہ آج کی خفیہ سازش کیا ہے؟
تین خبروں میں سب سے پہلے ماہ اگست 2012 میں صہیونی سیکیورٹی تنظیم شین بیتھ کے سابق سربراہ ایمی ایالون نے مشہور اینکر پرسن چارلی روزکو انٹرویو میں کہا کہ وہ حماس، حزب اللہ، شام اور ایران کے اتحاد کے خلاف امریکا، اسرائیل، ترکی، سعودی و دیگر عرب ممالک پر مشتمل سنی اتحاد قائم کریں گے۔ نیویارک ٹائمز کے صہیونی یہودی کالم نگار تھامس فرائیڈ مین کے پچھلے سال Let's Make a Deal کے عنوان سے لکھے گئے کالم میںایمی ایالون کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ فرائیڈمین نے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظہبی میں گلف سیکیورٹی کانفرنس میں عرب، مسلم ممالک کے حکومتی عہدیداران اور ماہرین جمع تھے۔ اس کانفرنس میں غاصب صہیونی اسرائیل کے صدر شمعون پیریز نے سیٹلائٹ خطاب کیا، ان کے عقب میں ناجائز صہیونی مملکت کا جھنڈا تھا۔
تیسری خبر واشنگٹن پوسٹ کے مشہورکالم نگار ڈیوڈ اگناشس کا وہ کالم ہے جو 18 فروری 2014 کو اس اخبار کی ویب سائٹ پر آ گیا تھا۔ اردن میں پیدا ہونے والے نیبراسکا یونیورسٹی کے پروفیسر حسن براری نے جو کالم لکھا اس میں ڈیوڈاگناشس کے کالم کا تذکرہ کیا اور سعودی دارالحکومت ریاض سے شایع ہونے والے روزنامہ عرب نیوز میں 23 فروری کو پروفیسر کا کالم شایع ہوا۔
خبر یہ تھی کہ واشنگٹن میں سعودی، اردن، قطر، ترکی، بعض دیگر عرب ممالک، امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کا اجلاس ہواتھا۔ اس میں شام کے خلاف نئی سازشوں پر غور و خوض کیا گیا۔ جس ریسرچ پیپر کی بات ہم نے کی وہ اسی صہیونی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اپنے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں خود امریکی صہیونیوں سے تیار کروایا تھا۔ کلین بریک کے عنوان سے اس دستاویز میں شام کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اس نے حزب اللہ، حماس اور ایران کے ساتھ اتحاد ختم نہ کیا گیا تو صہیونی اسرائیلی حکومت اس کے خلاف پراکسی وار یعنی نیابتی جنگ لڑے گی۔