افغانستان حالات کی سنگینی کا ادراک کرے

افغانستان میں چھپے ہوئے یہ دہشت گرد کون ہیں، اس کے لیے ہمیں تھوڑا ماضی میں جھانکنا ہو گا


Editorial August 04, 2023
افغانستان میں چھپے ہوئے یہ دہشت گرد کون ہیں، اس کے لیے ہمیں تھوڑا ماضی میں جھانکنا ہو گا (فوٹو : فائل)

میڈیا کی خبروں کے مطابق ژوب کینٹ میں دہشت گردی میں ملوث افغان دہشت گردوں کی تصدیق ہوگئی ہے، افغانستان کے شہریوں کی پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں مسلسل شمولیت اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال پر پاکستانی دفتر خارجہ نے شدید اظہار تشویش اور مذمت کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے افغانستان کی صلاحیت بڑھانے کے لیے تیار ہے، افغان سرزمین پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے لانچنگ پیڈ نہ بنے۔ پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ملک میں قیام امن افغانستان میں سیاسی استحکام اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔

اسی کے پیش نظر پاکستان اب تک افغان حکومت کی جانب سے اس توقع پر انحصارکرتا آیا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سر زمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا اپنا وعدہ نبھائے گی۔

حالیہ واقعات،ان میں افغان باشندوں کی باقاعدہ شمولیت اور افغان عبوری حکومت کے رویے نے پاکستان کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اپنے تحفظات کا اعلیٰ ترین سطح پر کھل کر اظہارکرے۔

حالیہ دنوں میں افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں نے پاکستانی سیکیورٹی چیک پوسٹوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن پاک فوج کی جوابی کارروائیوں اور بروقت رد عمل نے انھیں کوئی بڑا نقصان پہنچانے سے روک دیا۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار نے واضح انداز میں اعلان کیا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کی سرزمین پر سے ہونے والی دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں قابل قبول نہیں، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ایسے حملوں کا موثر جواب دیں گی۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توقع رکھتے ہیں افغان حکومت دہشت گردوں کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دے گی، افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنائے۔

افغانستان میں چھپے ہوئے یہ دہشت گرد کون ہیں، اس کے لیے ہمیں تھوڑا ماضی میں جھانکنا ہو گا، چونکہ ٹی ٹی پی اور اس سے جڑے دوسرے گروپ افغانستان میں مقیم ہیں، افغان حکومت اور ان کے درمیان ابھی تک ایک محبت کا رشتہ موجود ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ان کے ٹھکانے افغانستان سے ختم نہیں ہو سکے بلکہ افغان طالبان کے حکومت میں آ جانے کے بعد یہ مزید مضبوط ہوئے ہیں۔

پاکستان نے افغانوں کا مقدمہ ہر فورم پر لڑا ہے، لاکھوں افغان باشندے اب تک پاکستان میں مقیم ہیں لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے پاکستان کی مخالفت کی ہے اور اب افغانستان سے ہی دہشت گرد پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔

تیس سال سے لاکھوں افغانی پاکستانی وسائل پر بوجھ ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اُف تک نہیں کی، ہر پاکستانی کا لہو قیمتی ہے، اگر کوئی پیار و محبت کو کمزوری سمجھ رہا ہو تو پھر اس کی غلط فہمی دور ضرور کردینی چاہیے، اب یہ بہت ضروری ہوچکا ہے۔

ماضی گواہ ہے کہ پاکستان نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے افغان بھائیوں کا ہر دکھ اور تکلیف میں ساتھ دیا ہے۔ حتیٰ کہ جب پوری دنیا نے افغانستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر ان سے منہ پھیر لیا تھا، پاکستان نے اس وقت بھی افغانوں کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ 1979 میں روسی فوج کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر طالبان کے دور تک لگ بھگ تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان میں پناہ لی۔

پاکستان کی اپنی معیشت بھی کوئی آئیڈیل نہیں تھی اور روزگار کے مسائل خود پاکستان کے لیے گردن گردن اونچے تھے لیکن پاکستان نے افغان بھائیوں کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے۔ ان گنت افغانوں نے شناختی کارڈ تک بنوا لیے، کتنے اب بھی مزے سے پاکستان میں سکونت اختیار کر چکے ہیں، ہزاروں پاکستانی پاسپورٹ لے کر یورپ اور امریکا میں رہ رہے ہیں لیکن پاکستان نے کبھی ان سے غیروں والا سلوک نہیں کیا۔

14 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں میں سے آٹھ لاکھ اسی ہزار کو افغان شہریت کارڈ دیا گیا۔پاکستان نے نہ صرف ہجرت کرکے آنے والے افغانوں کا خیال رکھا بلکہ افغانستان کے اندر بھی صحت، تعلیم اور دیگر کئی شعبوں میں اپنا تعاون ہمیشہ جاری رکھا۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستان کی مالی معاونت سے بنائے گئے دو سو بستروں پر مشتمل جدید اسپتال قائم کیا گیا جس کا نام بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے نام پر جناح اسپتال رکھا گیا۔

دہشت گردی کے حالیہ واقعات پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ چونکہ اس وقت افغانستان میں کوئی منتخب یا با ضابطہ حکومت نہ ہونے اور طالبان کے طاقت کے زور پر حکومت پر قبضے کی وجہ سے وہاں حالات حکومت کے قابو میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان کے علاقوں کو پاکستان پر دہشت گردی کرنے والوں کے لیے محفوظ ٹھکانوں کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

جس پر افغانستان کی حکومت اور قیادت چشم پوشی سے کام لے رہی ہے۔ جس کی صاف صاف وجہ طالبان حکومت کا ایک طاقتور دھڑا ٹی ٹی پی کی حمایت کررہا ہے۔افغانستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔

افغان عوام کی امداد کے لیے پاکستان نے ہزاروں میٹرک ٹن گندم افغانستان بھجوائی، افغانستان کی ابتر معاشی صورت حال کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری فراہمی ضروری تھی، اور اس حوالے سے پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کسی بڑے سانحہ سے بچا جاسکے۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی، پاک فوج کی چوکیوں پر حملے، افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی، داعش اور القاعدہ کی موجودگی بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے، پاکستان اب تک صبر و برداشت سے ڈیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف2 دہائیوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے جنگ کے دوران شدیدمتاثر ہونے کے باوجود امن، مصالحت، تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان نے دوحہ مذاکرات سے لے کر طالبان حکومت کے قیام' اسے تسلیم کرانے' سلامتی کونسل میں اس کے حق میں راہ ہموار کرنے میں گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ امریکا میں اس کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے لیے بھی بھر پورکوششیں کی ہیں۔

اس کے باوجود افغان حکومت پر کالعدم ٹی ٹی پی کی سوچ غالب آ چکی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آخر افغان سرحد پاکستان کے لیے محفوظ کیوں نہیں؟ کیا افغان طالبان اپنی خدمات ہر اس ریاست یا گروہ کے لیے پیش کریں گے جو انھیں مالی معاونت فراہم کریں گے۔ بظاہر افغان عبوری حکومت کی جانب سے اپنائے گئے طرز عمل سے اس مفروضے کو خاصی تقویت مل رہی ہے۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ معاشی بحران سے دو چار قومیں ہی سلامتی کے بحران کا سامنا کرتی ہیں۔ سوویت روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ معاشی عدم استحکام اور سوویت فوج کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت کے ٹوٹنے کا باعث بنی۔ پاکستان آج سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔

ہماری اندرونی کمزوریوں نے ہمارے روایتی حریف کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پاکستان کی مغربی سرحد سے بھی پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ کر سکے۔

اس حکمت عملی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست پاکستان اپنے اندرونی سیاسی خلفشار پر اب قابو پائے، ایک نئی حکومت کا قیام عوامی طاقت کے ذریعے عمل میں لایا جائے اور خارجہ محاذ پر دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جائے کہ پاکستان ایک حد سے زیادہ کسی کو بھی اپنے عوام اور افواج پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دے گا اور اس سلسلے میں اگر افغان حکومت بے بس ہے تو پھر پاکستان اپنی سلامتی و بقاء کے لیے تمام ضروری آپشنز پر غور کرنے میں حق بجانب ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں