باجوڑ خونریزی نیا پٹرول بم اور وزیروں کی عیاشیاں
اسحاق ڈار نے یہ کہہ کرجان چھڑالی ہے :’’ آئی ایم ایف کے تحت ، ملکی مفاد میں یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے ۔‘‘
چین کے نائب وزیر اعظم ، ہی لی فینگ، پاکستان کے تین روزہ دَورے پر تشریف لائے اور چلے گئے ۔ سی پیک کے تحت مبینہ ترقی کے دس سال مکمل ہونے پر ، ہی لی فینگ کے اعزاز میں،کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
مقصد یہ تھا کہ چینیوں کو باور کروایا اور یقین دلایا جا سکے کہ آپ کی قرض میں دی گئی رقمیں مناسب اور موعودہ جگہوں پر صَرف ہو رہی ہیں۔چینی نائب وزیر اعظم کی موجودگی میں کئی نئے ایم او یوز پر دونوں ممالک کے درمیان دستخط بھی عمل میں آئے ۔
اِس خدشے و خطرے کے تحت کہ چینی معزز مہمان کی موجودگی میں کوئی بد مزگی نہ ہو جائے ، اسلام آباد میں سرکاری سطح پر چھُٹی کا سماں تھا۔
دفاتر میں حاضری کم اور ٹریفک بھی مدہم تھی ۔ تین دن تک (30جولائی تایکم اگست) راولپنڈی اوراسلام آباد میں اورنج لائن ، میٹرو بس اور گرین لائن کے تحت چلنے والی بسیں مکمل طور پر بند رکھی گئیں ۔ اِس کے لیے غریب عوام کو جس عذاب سے گزرنا پڑا ہے، ہمہ قسم کا حکمران طبقہ اِس کا اندازہ لگانے سے بالکل قاصر ہے ۔
یہ سب اہتمام و انصرام اس لیے کیا گیا کہ چینی معزز مہمان کا دَورہ امن چین سے گزر جائے ۔ دشمنانِ پاکستان مگر ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
معزز نائب چینی وزیر اعظم ابھی پاکستان ہی میں تھے کہ خیبر پختونخوا کے مالا کنڈ ڈویژن کے ضلع ''باجوڑ'' کی تحصیل ''خار'' میں ایک امن دشمن اور دہشت گرد نے خود کش دھماکہ کرکے درجنوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو شہید کر ڈالا۔ یہ خود کش دھماکہ جے یو آئی ایف کے ایک جلسے میں کیا گیا ۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد55ہو چکی ہے ۔ جو درجنوں زخمی ہیں، وہ مختلف اسپتالوں میں کراہ رہے ہیں ۔ اِس خود کش دھماکے کی باز گشت چین تک بھی پہنچی ہو گی اور پاکستان کے دَورے پر آئے معزز چینی مہمان نے بھی سُنی ہوگی ۔
دھماکہ کرنے اور کروانے والوں کا مقصد بھی یہی لگتا ہے۔ 11محرم کو باجوڑ میں جو خونریزی کی گئی ہے ، اِس پر جے یو آئی ایف کے سربراہ، حضرت مولانا فضل الرحمن ، نے سخت لہجے میں شکوہ کرتے ہُوئے کہا ہے :'' ملک میں بروئے کار26سے زائد انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں ہیں؟۔''قبلہ مولانا فضل الرحمن نے مگر ساتھ ہی عزمِ صمیم کا اظہار کرتے ہُوئے یہ بھی کہاہے : ''دہشت گردی کے اِن واقعات کے باوجود ہم اپنا نظریہ نہیں چھوڑیں گے ۔'' باجوڑ میں جنم لینے والی خونریزی کے باوصف مولانا موصوف نے جس متحمل لہجے میں یہ بات کہی ہے اور جس طرح اپنے جانثاروں کو صبر کی تلقین کی ہے، اِس کی تحسین کی جانی چاہیے ۔
مگر خون میں نہائے اور لتھڑے بے گناہ اور معصوم عوام کب تک ایسے خونریز سانحات پر صبر اور اعراض کرتے رہیں گے ؟ پاکستان کے 23کروڑ مجبور، غریب اور نہتے عوام بیک زبان سوال کررہے ہیں: ہمیں کب تک ''جہادِ افغانستان'' کی سزا ملتی رہے گی؟ جنہوں نے اپنی اغراض اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طُول دینے کے لیے ، امریکی حکم اور اشارے پر، نام نہاد جہادِ افغانستان شروع کیا اور اِس میں برسوں پاکستانی عوام اور وسائل کو اندھا دھند جھونک دیا، وہ تو اپنا ''محنتانہ'' اور مفادات سمیٹنے کے بعد منظر سے غائب ہو چکے ہیں ۔
افغان جنگ کا عذاب مگر ، 40سال گزرنے کے باوجود، پاکستان کے بے بس عوام بھگت رہے ہیں۔ ہمیں کب تک یہ پٹّی پڑھائی جاتی رہے گی کہ ''دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ؟۔'' پاکستان کے خلاف مسلسل خونریزی کروانے والے افغان طالبان حکمرانوں کو کب تک ''برادر اسلامی حکومت'' قرار دے کر پاکستانی عوام کو دھوکہ دیا جاتا رہے گا؟ کب تک افغان طالبان کی چھتری تلے پناہ گیر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو برداشت کیا جاتا رہے گا؟
اب تو 2اگست2023ء کو وزیر اعظم شہباز شریف بھی اعتراف کرتے ہُوئے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ '' دھماکوں میں افغان شہری ملوث ہیں۔''پھر اِس کا انسداد کیوں نہیں کیا جارہا ؟ کیوں وزیر خارجہ ، بلاول بھٹو، زیر لب کہنے پر مجبور ہیں: '' پاکستان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف افغانستان کارروائی کرے، ورنہ ہم کریں گے ۔'' اگر یہ محض کھوکھلی دھمکی نہیں تو عوام کو عمل کرکے دکھائیں ۔
افغان طالبان حکمرانوں کی زیر نگرانی پنپنے والے دہشت گردوں کی پیدا کردہ کتنی خونریزیوں پر ہم ہر روز ماتم کرتے رہیں گے ؟ یہ سچ نہایت تلخ ہے کہ بھارت اور بھارتی افواج نے اتنے پاکستانی آج تک جنگوں میں شہید نہیں کیے ہیں جتنے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نے پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتار ڈالا ہے ۔
پھر بھی یہ طالبان اور ٹی ٹی پی والے ہمارے ''برادر'' ہیں؟ یہ بھی سچ ہے کہ طالبان اور ٹی ٹی پی ہی ہمارے لیے مصائب جنم نہیں دے رہے ہیں بلکہ ہمارے ہمہ قسم کے حکمران بھی غریب عوام کے لیے ہرروز قیامتیں برپا کر رہے ہیں ۔ شہباز شریف کی پندرہ ماہانہ حکومت اور نواز شریف کے سمدھی وزیر خزانہ، اسحاق ڈار، نے تو ہرروز عوام کے لیے مہنگائی کی نئی قیامت پیدا کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ۔جو قیامت توڑنے میں زرا سی کسر باقی رہ گئی تھی ، وہ شہباز شریف اور ان کے وزیر خزانہ نے جاتے جاتے، یکم اگست کو، پٹرول کی قیمت میں 20روپے فی لٹر اضافہ کرکے پوری کر دی ہے ۔
یہ دراصل شہباز حکومت کی جانب سے غریب عوام کو آزادی کے مہینے میں ''تحفہ '' دیا گیا ہے ۔ اسحاق ڈار نے یہ کہہ کرجان چھڑالی ہے :'' آئی ایم ایف کے تحت ، ملکی مفاد میں یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے ۔'' وزیر اطلاعات ، مریم اورنگزیب کہہ رہی ہیں:''پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ سے آئی ایم ایف معاہدہ نبھایا ہے ۔'' مگر یہ دونوں وفاقی وزرا یہ بتانے سے قطعی قاصر ہیں کہ ''غریبوں کی کمر توڑ کر کونسے ملکی مفاد کا تحفظ ہوتا ہے ؟'' اور یہ کہ ''آپ لوگوں نے عالمی ساہوکاروں سے کیا گیا وعدہ تو نبھا دیا مگر اُس وعدے سے مُکر گئے جو شہباز شریف نے اقتدار میں آتے ہی عوام سے کیا تھا: اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو مہنگائی سے نجات دُوں گا۔''مگر اشرافیہ اور حکمران طبقے کو عوام پر مظالم ڈھانے بارے کون پوچھ سکتا ہے؟ اس بے بسی اور بیکسی سے سبھی حکمران واقف ہیں۔اس لیے اُن کی سرکشی اور ظلم بے محابہ ہے ۔
پٹرول کا نیا بم گرانے پر ملک سے ''مفرور'' سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما، چوہدری مونس الٰہی ، نے بہرحال ایک بنیادی سوال ضرور پوچھاہے :''کدھر گئے رُوسی تیل کی آمد پر پٹرول سستا کرنے کے شو بازی دعوے ؟۔'' اس سوال پر وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک دانستہ خاموش ہیں ۔ وہ جواب دیں بھی تو کس منہ سے؟ نیا پٹرول بم گرانے سے عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ تو ہُوا ہے مگر وفاقی وزیروں کی عیاشیوں اور موج میلہ میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
جس روز شہباز حکومت نے غریب عوام پر نیا پٹرول بم گرایا، اُسی روز ایک وفاقی وزیر اپنے کئی دوستوں کے ساتھ بیرونِ ملک چلے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی وزیر اور اُن کے کئی دوستوں کے بھاری اخراجات کون پورے کرے گا؟ابھی چند دن پہلے ہی حکمران اتحاد کے25لوگ امریکا میں بِلا وجہ کروڑوں روپے خرچ کرکے واپس آئے ہیں۔ حکمرانوں کی اِنہی عیاشیوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر آئے روز پٹرول بم گرائے جاتے ہیں ۔
مقصد یہ تھا کہ چینیوں کو باور کروایا اور یقین دلایا جا سکے کہ آپ کی قرض میں دی گئی رقمیں مناسب اور موعودہ جگہوں پر صَرف ہو رہی ہیں۔چینی نائب وزیر اعظم کی موجودگی میں کئی نئے ایم او یوز پر دونوں ممالک کے درمیان دستخط بھی عمل میں آئے ۔
اِس خدشے و خطرے کے تحت کہ چینی معزز مہمان کی موجودگی میں کوئی بد مزگی نہ ہو جائے ، اسلام آباد میں سرکاری سطح پر چھُٹی کا سماں تھا۔
دفاتر میں حاضری کم اور ٹریفک بھی مدہم تھی ۔ تین دن تک (30جولائی تایکم اگست) راولپنڈی اوراسلام آباد میں اورنج لائن ، میٹرو بس اور گرین لائن کے تحت چلنے والی بسیں مکمل طور پر بند رکھی گئیں ۔ اِس کے لیے غریب عوام کو جس عذاب سے گزرنا پڑا ہے، ہمہ قسم کا حکمران طبقہ اِس کا اندازہ لگانے سے بالکل قاصر ہے ۔
یہ سب اہتمام و انصرام اس لیے کیا گیا کہ چینی معزز مہمان کا دَورہ امن چین سے گزر جائے ۔ دشمنانِ پاکستان مگر ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
معزز نائب چینی وزیر اعظم ابھی پاکستان ہی میں تھے کہ خیبر پختونخوا کے مالا کنڈ ڈویژن کے ضلع ''باجوڑ'' کی تحصیل ''خار'' میں ایک امن دشمن اور دہشت گرد نے خود کش دھماکہ کرکے درجنوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو شہید کر ڈالا۔ یہ خود کش دھماکہ جے یو آئی ایف کے ایک جلسے میں کیا گیا ۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد55ہو چکی ہے ۔ جو درجنوں زخمی ہیں، وہ مختلف اسپتالوں میں کراہ رہے ہیں ۔ اِس خود کش دھماکے کی باز گشت چین تک بھی پہنچی ہو گی اور پاکستان کے دَورے پر آئے معزز چینی مہمان نے بھی سُنی ہوگی ۔
دھماکہ کرنے اور کروانے والوں کا مقصد بھی یہی لگتا ہے۔ 11محرم کو باجوڑ میں جو خونریزی کی گئی ہے ، اِس پر جے یو آئی ایف کے سربراہ، حضرت مولانا فضل الرحمن ، نے سخت لہجے میں شکوہ کرتے ہُوئے کہا ہے :'' ملک میں بروئے کار26سے زائد انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں ہیں؟۔''قبلہ مولانا فضل الرحمن نے مگر ساتھ ہی عزمِ صمیم کا اظہار کرتے ہُوئے یہ بھی کہاہے : ''دہشت گردی کے اِن واقعات کے باوجود ہم اپنا نظریہ نہیں چھوڑیں گے ۔'' باجوڑ میں جنم لینے والی خونریزی کے باوصف مولانا موصوف نے جس متحمل لہجے میں یہ بات کہی ہے اور جس طرح اپنے جانثاروں کو صبر کی تلقین کی ہے، اِس کی تحسین کی جانی چاہیے ۔
مگر خون میں نہائے اور لتھڑے بے گناہ اور معصوم عوام کب تک ایسے خونریز سانحات پر صبر اور اعراض کرتے رہیں گے ؟ پاکستان کے 23کروڑ مجبور، غریب اور نہتے عوام بیک زبان سوال کررہے ہیں: ہمیں کب تک ''جہادِ افغانستان'' کی سزا ملتی رہے گی؟ جنہوں نے اپنی اغراض اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طُول دینے کے لیے ، امریکی حکم اور اشارے پر، نام نہاد جہادِ افغانستان شروع کیا اور اِس میں برسوں پاکستانی عوام اور وسائل کو اندھا دھند جھونک دیا، وہ تو اپنا ''محنتانہ'' اور مفادات سمیٹنے کے بعد منظر سے غائب ہو چکے ہیں ۔
افغان جنگ کا عذاب مگر ، 40سال گزرنے کے باوجود، پاکستان کے بے بس عوام بھگت رہے ہیں۔ ہمیں کب تک یہ پٹّی پڑھائی جاتی رہے گی کہ ''دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ؟۔'' پاکستان کے خلاف مسلسل خونریزی کروانے والے افغان طالبان حکمرانوں کو کب تک ''برادر اسلامی حکومت'' قرار دے کر پاکستانی عوام کو دھوکہ دیا جاتا رہے گا؟ کب تک افغان طالبان کی چھتری تلے پناہ گیر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو برداشت کیا جاتا رہے گا؟
اب تو 2اگست2023ء کو وزیر اعظم شہباز شریف بھی اعتراف کرتے ہُوئے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ '' دھماکوں میں افغان شہری ملوث ہیں۔''پھر اِس کا انسداد کیوں نہیں کیا جارہا ؟ کیوں وزیر خارجہ ، بلاول بھٹو، زیر لب کہنے پر مجبور ہیں: '' پاکستان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف افغانستان کارروائی کرے، ورنہ ہم کریں گے ۔'' اگر یہ محض کھوکھلی دھمکی نہیں تو عوام کو عمل کرکے دکھائیں ۔
افغان طالبان حکمرانوں کی زیر نگرانی پنپنے والے دہشت گردوں کی پیدا کردہ کتنی خونریزیوں پر ہم ہر روز ماتم کرتے رہیں گے ؟ یہ سچ نہایت تلخ ہے کہ بھارت اور بھارتی افواج نے اتنے پاکستانی آج تک جنگوں میں شہید نہیں کیے ہیں جتنے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نے پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتار ڈالا ہے ۔
پھر بھی یہ طالبان اور ٹی ٹی پی والے ہمارے ''برادر'' ہیں؟ یہ بھی سچ ہے کہ طالبان اور ٹی ٹی پی ہی ہمارے لیے مصائب جنم نہیں دے رہے ہیں بلکہ ہمارے ہمہ قسم کے حکمران بھی غریب عوام کے لیے ہرروز قیامتیں برپا کر رہے ہیں ۔ شہباز شریف کی پندرہ ماہانہ حکومت اور نواز شریف کے سمدھی وزیر خزانہ، اسحاق ڈار، نے تو ہرروز عوام کے لیے مہنگائی کی نئی قیامت پیدا کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ۔جو قیامت توڑنے میں زرا سی کسر باقی رہ گئی تھی ، وہ شہباز شریف اور ان کے وزیر خزانہ نے جاتے جاتے، یکم اگست کو، پٹرول کی قیمت میں 20روپے فی لٹر اضافہ کرکے پوری کر دی ہے ۔
یہ دراصل شہباز حکومت کی جانب سے غریب عوام کو آزادی کے مہینے میں ''تحفہ '' دیا گیا ہے ۔ اسحاق ڈار نے یہ کہہ کرجان چھڑالی ہے :'' آئی ایم ایف کے تحت ، ملکی مفاد میں یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے ۔'' وزیر اطلاعات ، مریم اورنگزیب کہہ رہی ہیں:''پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ سے آئی ایم ایف معاہدہ نبھایا ہے ۔'' مگر یہ دونوں وفاقی وزرا یہ بتانے سے قطعی قاصر ہیں کہ ''غریبوں کی کمر توڑ کر کونسے ملکی مفاد کا تحفظ ہوتا ہے ؟'' اور یہ کہ ''آپ لوگوں نے عالمی ساہوکاروں سے کیا گیا وعدہ تو نبھا دیا مگر اُس وعدے سے مُکر گئے جو شہباز شریف نے اقتدار میں آتے ہی عوام سے کیا تھا: اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو مہنگائی سے نجات دُوں گا۔''مگر اشرافیہ اور حکمران طبقے کو عوام پر مظالم ڈھانے بارے کون پوچھ سکتا ہے؟ اس بے بسی اور بیکسی سے سبھی حکمران واقف ہیں۔اس لیے اُن کی سرکشی اور ظلم بے محابہ ہے ۔
پٹرول کا نیا بم گرانے پر ملک سے ''مفرور'' سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما، چوہدری مونس الٰہی ، نے بہرحال ایک بنیادی سوال ضرور پوچھاہے :''کدھر گئے رُوسی تیل کی آمد پر پٹرول سستا کرنے کے شو بازی دعوے ؟۔'' اس سوال پر وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک دانستہ خاموش ہیں ۔ وہ جواب دیں بھی تو کس منہ سے؟ نیا پٹرول بم گرانے سے عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ تو ہُوا ہے مگر وفاقی وزیروں کی عیاشیوں اور موج میلہ میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
جس روز شہباز حکومت نے غریب عوام پر نیا پٹرول بم گرایا، اُسی روز ایک وفاقی وزیر اپنے کئی دوستوں کے ساتھ بیرونِ ملک چلے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی وزیر اور اُن کے کئی دوستوں کے بھاری اخراجات کون پورے کرے گا؟ابھی چند دن پہلے ہی حکمران اتحاد کے25لوگ امریکا میں بِلا وجہ کروڑوں روپے خرچ کرکے واپس آئے ہیں۔ حکمرانوں کی اِنہی عیاشیوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر آئے روز پٹرول بم گرائے جاتے ہیں ۔