احتجاج کے شرعی و قانونی تقاضے

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابُوایوب! میں تمہیں ایسی نیکی کے بارے میں بتلاتا ہوں جو اﷲ اور اس کے رسولؐ 


کو محبوب ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب لوگ لڑ جھگڑ پڑیں یا فساد میں مبتلا ہو جائیں، تو ان کے درمیان صلح کرانا۔‘‘ فوٹو: نیٹ

دنیا بھر کی آزاد جمہوری ریاستوں میں ہر قوم کو اپنے حقوق کے حصول کا آئینی حق ہوتا ہے اور وہ اگر کہیں پامال ہو رہے ہوں تو احتجاج کرنا ان کا آئینی اور شرعی حق ہے۔

ہمارے ملک میں بھی احتجاج ہوتا ہے۔ لوگ اپنے سیاسی، مذہبی اور سماجی حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرتے ہیں اس حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

احتجاج کرنا صاحبِ حق کا حق ہے:

قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ''اﷲ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی کو کھلم کھلا بیان کیا جائے سوائے اس شخص کے جس پر ظلم کیا گیا ہو وہ کھلم کھلا ظالم کی برائی بیان کرسکتا ہے اﷲ سب کچھ اچھی طرح سنتا ہے اور ہر بات کو بہ خوبی جانتا ہے۔'' (سورۃ النسائ) قرآن کریم کی اس آیت سے ایک اصول نکلتا ہے کہ ہر صاحب حق اپنے حق کے لیے مہذب اور مناسب احتجاج کرسکتا ہے۔

مہذب احتجاج کا دینی طریقہ:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اپنے پڑوسی کے نامناسب رویے کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ صبر سے کام لو۔ وہ شخص چلا گیا پھر اس کے بعد دوسری یا تیسری مرتبہ حاضر ہوا۔ تو آپ ﷺ نے مہذب احتجاج کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اپنے گھر کا سامان نکال کر راستے میں ایک طرف رکھ دو۔

چناں چہ وہ گئے اور انہوں نے اپنے گھر کا سامان نکال کر راستے میں ایک طرف رکھ دیا۔ لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے کہ سامان کو گھر میں رکھنے کے بہ جائے گھر سے باہر کیوں رکھا ہُوا ہے؟ اور وہ اپنے پڑوسی کے نامناسب رویے کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا۔

اس کی بات سن کر لوگ پڑوسی کو سخت سست کہنے لگے اور بددعائیں دینے لگے کہ اﷲ اس کے ساتھ بھی ایسا کرے جیسا وہ آپ کے ساتھ رویہ رکھتا ہے اس احتجاج نے اپنا کام کر دکھایا اور وہ شخص آیا اور کہنے لگا: اب آپ گھر میں واپس تشریف لے آئیں آئندہ آپ کو میری طرف سے ایسی کوئی بات نہیں دیکھیں گے جو آپ کو ناگوار لگے۔ یعنی میری طرف سے شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ (سنن ابی داؤد)

احتجاج کرنے والے تہذیب کو ملحوظ رکھیں:

قرآن کریم میں ہے: ''برائی کو بہترین طریقے سے دور کریں۔'' (سورۃ المؤمنون)

احتجاج کرنے والے لعن طعن اور گالم گلوچ سے بچیں:

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''زیادہ طعنے دینے والا، زیادہ لعنتیں کرنے والا، گندی باتیں کرنے والا اور بدزبان گالیاں دینے والا شخص کامل مومن نہیں ہوتا۔'' (المعجم الکبیر للطبرانی)

احتجاج کرنے والے ٹریفک جام کردینے سے بچیں:

حضرت معاذ بن انس جُھَنِیؓ سے مروی ہے کہ ہم نے اﷲ کے نبی ﷺ کی قیادت میں ایک غزوہ میں شرکت کی۔ لشکر والوں نے جب پڑاؤ ڈالا تو عام لوگوں کے گزرنے والے راستوں کو تنگ کر دیا اور تقریباً راستے بند کر دیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے عام لوگوں کی گزرگاہوں کو بہت تنگ کر دیا یا راستے بالکل ہی بند کردیے تو اس کا صحیح معنوں میں جہاد نہیں ہُوا۔'' (شرح معانی الآثار)

احتجاج کرنے والے عوام الناس کو اذیت دینے سے بچیں:

قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ''بے شک! وہ جنہوں نے ایمان والے مردوں اور خواتین کو اذیت دی پھر اپنے اس عمل سے توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنّم کا عذاب تیار ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب تیار ہے۔'' (سورۃ البروج)

حضرت ہشام بن حکیمؓ سے مروی ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ''جو لوگوں کو دنیا میں اذیت دیتے ہیں اﷲ انہیں آخرت میں عذاب دیں گے۔''

احتجاج کرنے والے ظلم سے بچیں:

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔'' (صحیح البخاری)

احتجاج کرنے والے بدامنی پھیلانے سے بچیں:

اﷲ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے وسیع مقدار میں پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اﷲ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اﷲ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا۔ (سورۃ النحل)

احتجاج کرنے والے باہمی ناچاقی اور فساد سے بچیں:

حضرت ابو الدردائؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو درجہ میں (نفلی) روزے ( نفلی) نماز اور (نفلی) صدقے سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ ضرور بتائیے! آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگوں کے درمیان ''صلح صفائی'' کرانا ہے۔ اس لیے کہ باہمی ناچاقی اور پھوٹ دین کو ختم کرنے والی چیز ہے۔'' (جامع الترمذی)

حضرت ابُوایوبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اے ابُوایوب! میں تمہیں ایسی نیکی کے بارے میں بتلاتا ہوں جو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کو محبوب ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب لوگ لڑ جھگڑ پڑیں یا فساد میں مبتلا ہو جائیں، تو ان کے درمیان صلح کرانا۔'' (المعجم الکبیر للطبرانی)

احتجاج کرنے والے جان، مال، عزت اور املاک کو نقصان بچانے سے بچیں:

حضرت عمرو بن احوصؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مفہوم: ''تمہاری جان، تمہارے مال تمہاری عزت و آبرو کو قابل احترام بناتا ہوں یعنی ان کے پامال کرنے کو حرام قرار دیتا ہوں جس طرح تمہیں اس دن، شہر مکہ اور مہینے کا احترام ہے۔ اسی طرح تمہیں ایک دوسرے کے مال، آبرو اور خون کا احترام کرنا چاہیے۔

تمہیں اچھی طرح یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بھائی ہے اس لیے کسی مسلمان کے لیے اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی ملکیت والی چیز استعمال کرنا حلال نہیں بلکہ حرام ہے ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس کے استعمال کی اجازت دے دے تو پھر حرام نہیں بل کہ اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔'' (جامع الترمذی)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ کعبۃ اﷲ کا طواف فرما رہے تھے اسی دوران آپ نے کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا، مفہوم: ''اے کعبہ! تُو کتنا اچھا ہے! تجھ سے مہکنے والی خوش بُو کتنی ہی اچھی اور عمدہ ہے! تیری عظمت و مرتبت کس قدر بلند ہے! تیری عزت و حرمت کس قدر زیادہ ہے! (لیکن تیری ان تمام تر عظمتوں کے باوجود) اس ذاتِ برحق کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے اﷲ تعالیٰ کے ہاں مومن کی جان و مال کی حرمت تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔'' (سنن ابن ماجہ) ہمیں مومن کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔

احتجاج کرنے والے اسلحہ سے اشارہ کرنے سے بچیں:

حضرت ہَمَّامؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابُوہریرہؓ سے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان سنا، مفہوم: ''تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرے اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے، وہ ناحق قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا پڑے۔'' (صحیح البخاری)

معروف تابعی حضرت امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان سنا، مفہوم: جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے اس پر فرشتے اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کرنے کو چھوڑ نہیں دیتا اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔'' (صحیح مسلم)

احتجاج کرنے والے قتل و غارت سے بچیں:

حضرت عبادہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ''جس شخص نے کسی مومن کو (ناحق) قتل کیا پھر اس قتل پر خوش بھی ہوا تو اﷲ تعالیٰ اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائیں گے۔'' (سنن ابی داؤد)

حضرت عبد اﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''کسی مسلمان کے (ناحق) قتل ہونے سے پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اﷲ تعالیٰ کے ہاں معمولی حیثیت رکھتا ہے۔'' (جامع الترمذی)

حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے ناحق قتل ہونے سے پوری کائنات کا ختم ہو جانا معمولی حیثیت رکھتا ہے۔''

(شعب الایمان للبیہقی)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن لوگوں کے مابین سب سے پہلے خون خرابے

(قتل و قتال) کا فیصلہ سنایا جائے گا۔'' (البخاری)

احتجاج کرنے والے قاتلوں کے سہولت کار بننے سے بچیں:

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل میں سہولت کار بنا اگرچہ وہ معاونت بالکل معمولی درجے کی ایک بات کی حد تک بھی ہو تو وہ شخص قیامت والے دن اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا کہ یہ شخص اﷲ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔'' (سنن ابن ماجہ)

حضرت ابو الحکم البَجلیؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابُو سعید خدریؓ اور حضرت ابُوہریرہؓ سے سنا، دونوں رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اگر (بالفرض) تمام آسمان اور زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو یقینی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈالیں گے۔ (جامع الترمذی)

سیاسی کش مکش کے اس نقصان دہ ماحول میں سب سے بڑی ذمے داری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین پر عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی مثبت ذہن سازی کریں۔ اپنے ہر کارکن کو اچھے اخلاق کا حامل مہذب شہری بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

اس کے بعد سیاسی شعور رکھنے والے کارکنان پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ خوب سمجھ داری سے کام لیں، حقائق کو دیکھیں۔ اپنے راہ نما کی پالیسیوں کو اچھی طرح جانچیں، پرکھیں اگر وہ واقعی اسلام اور پاکستان کے حق میں مفید ہیں تو دیانت داری کے ساتھ اس کا ساتھ دیں اور اگر حقائق اس کے برعکس ہوں تو جُرم کا ساتھ دینے کے بہ جائے حق کا ساتھ دیں۔ اﷲ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں