بخیل کی مذمت

اﷲ کسی اترانے والے شیخی باز سے محبّت نہیں کرتا، جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں


اﷲ کسی اترانے والے شیخی باز سے محبّت نہیں کرتا، جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں۔ فوٹو: نیٹ

بخل کے معنی کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینے، اس کا حریص بننے اور دوسروں سے روک رکھنے کے ہیں، بخل نہایت بُری خصلت ہے۔

یہ کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل، اﷲ کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی پر اثر نہیں ڈالتی بل کہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔

بخل انسان کو اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔ بخل معنی کے لحاظ سے کرم کی ضد ہے۔ کرم کے معنی میں عطیہ، سخاوت اور خرچ کرنا شامل ہے جب کہ بخل میں ناصرف رکنا بل کہ خرچ کرنے کی جگہ پر روک لینا مراد ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''اور اس نے مال جمع کیا پھر اسے تقسیم سے روکے رکھا۔'' (سورۃ المعارج)

بخل کرنے والے کے لیے قر آن وحدیث میں مذمت آئی ہے اور سخت وعیدیں ہیں، جس کو متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے، بخل کے معنی کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً اور عادتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ بخل درحقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت قلب کو دنیا کی طرف متوجہ کردیتی ہے جس سے اﷲ کی محبت ضعیف و کم زور ہو جاتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ''اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اﷲ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بل کہ وہ ان کے لیے بُرا ہے۔ عن قریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اﷲ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اﷲ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔'' (آل عمران)

بخیل کو اﷲ کی مخلوق اور اﷲ کی راہ میں کیے جانے والے کاموں سے بالکل رغبت نہیں ہوتی۔ اُس کی محبت کا محور تو صرف اُس کی اپنی دولت ہوتی ہے وہ اسی کو زندگی کو مقصود نظر جانتا اور مانتا ہے، اﷲ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے، مفہوم: ''اﷲ کسی اترانے والے شیخی باز سے محبت نہیں کرتا، جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں۔ سنو! جو بھی منہ پھیرے، اﷲ بے نیاز اور سزاوارِ حمد و ثناء ہے۔'' (الحدید)

بخل کے بارے میں ایک اور مقام پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ کہ اس نے پہلی اُمتوں کو ہلاک کردیا ہے۔ پس مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ وہ بخل کریں اور جہنم میں جائیں۔ بخل کے معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے۔

اسی لیے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں۔ ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایمان دار میں جمع نہیں ہوتیں۔

اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے، بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اﷲ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔

حضرت سیدنا عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''لالچ سے بچتے رہو کیوں کہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ سے باز رہنے کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑگئے۔''

بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔ بخل کے پانچ اسباب ہیں اور ان کا علاج بھی اس طرح ہے۔ بخل کا پہلا سبب تنگ دستی کا خوف ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بل کہ اِضافہ ہوتا ہے۔

بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گا بل کہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے۔ بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا متواتر مطالعہ کرے۔ بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اﷲ جل شانہُ پر بھروسا رکھنے میں اپنے اعتقاد و یقین کو مزید پختہ کرے کہ جس رب نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی رب میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔ بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ مرنے کے بعد جو مال و دولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کیا وہ مجھے نفع دے سکتا ہے، لہٰذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔

حضرت ابُوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اﷲ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما۔ اور دوسرا کہتا ہے: اے اﷲ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر۔'' (صحیح بخاری)

حضرت جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''ظلم کرنے سے بچو کیوں کہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہے اور بخل سے بچو کیوں کہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور بخل ہی کی وجہ سے اپنوں نے لوگوں کے خون بہائے اور حرام کو حلال کیا۔'' (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں، مفہوم: ''بدترین عادتیں جو کسی انسان میں ہوں وہ دو ہیں: ایک وہ بخل جو بے صبر کردینے والا ہے، دوسرے وہ بزدلی ہے جو جان نکال دینے والی ہو۔'' (ابوداؤد)

حضرت عبداﷲ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھالے اور پاس ہی اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔'' (شعب الایمان، مشکوٰۃ)

حضر ت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: سخاوت، جنت میں ایک درخت ہے، پس جو شخص سخی ہوگا، وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑلے گا، جس کے ذریعے سے وہ جنّت میں داخل ہوجائے گا، اور بخل جہنم کا ایک درخت ہے جو شخص بخیل ہوگا وہ اس کی ایک شاخ پکڑلے گا، یہاں تک کہ وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کر کے ہی رہے گا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام ''سخا'' ہے۔ سخاوت اسی سے پیدا ہوتی ہے اور دوزخ میں ایک درخت ہے جس کا نام ''شح'' ہے، شح (بخل) اسی سے پیدا ہوا ہے، اس لیے شحیح (بخیل) جنت میں نہیں جائے گا۔

(شعب الایمان، مشکوٰۃ)

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے راستے میں خرچ کر نے کی توفیق نصیب فرمائے اور بخل سے بچائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں