ہیروکوئی اور بھی ہوسکتا ہے
قومی اسمبلی نے چار دنوں میں 53 اہم بل منظور کیے ہیں
اسلام آباد میں قوانین کے نفاذ کے لیے ایک کارخانہ قائم ہوا ہے۔ قومی اسمبلی نے چار دنوں میں 53 اہم بل منظور کیے ہیں۔
قومی اسمبلی میں گزشتہ روز ایجنسیوں کو ملزمان کی بغیر وارنٹ گرفتاری کے اختیار کا قانون بھی منظور کرلیا مگر سینیٹرز کی مزاحمت کی بناء پر یہ قانون سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا۔ گزشتہ اتوارکو ہفتہ وار تعطیل کے باوجود سینیٹ کا اجلاس طلب کیا گیا۔
حکومت نے تشدد اور انتہا پسندی کے انسداد کے قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا تو سینیٹروں کو پتہ چلا کہ یہ قانون پہلے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بجائے براہِ راست سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
تشدد اور انسدادِ دہشت گردی کے مجوزہ بل میں بنیادی انسانی حقوق پرکئی قدغنیں لگائی گئی تھیں۔ حکمراں اتحاد کی نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا کہ '' یہ بل جمہوریت پر براہِ راست حملہ ہے۔'' طاہر بزنجو نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ'' اگر یہ بل قانون بن گیا تو یہ مجوزہ قانون سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوگا '' انھوں نے شکوہ کیا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اتحادیوں کو نظرانداز کر کے قانون سازی کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ مجوزہ قانون تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال ہوگا۔ جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدرکامران مرتضیٰ کا مدعا تھا کہ اس بل میں جو شقیں شامل ہیں وہ کسی کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے ایک اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے نکتہ اٹھایا کہ یہ قانونی شکنجہ ثابت ہوگا۔
مولانا حیدری نے مزید کہا کہ اس بل کے دائرہ میں بہت سے معاملات آئیں گے اورکوئی زور سے نعرہ لگائے گا تو پولیس گرفتار کرسکے گی۔ پولیس کا مؤقف ہوگا کہ یہ نعرہ لگانے والا فرد لوگوں کو تشدد پر اکسا رہا ہے۔ اس بل سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونگے۔
حکومت آج قانون سازی کر رہی ہے، کل اس بل کا پھندا یہ قانون بنانے اور منظورکرانے والوں کے گلے میں آئے گا۔
اس بل کی مخالفت میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور حکومت کے غیر سرکاری مشیر عرفان صدیقی بھی شامل تھے۔ صدیقی صاحب نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ مستقبل میں کوئی بھی اس قانون کا شکار ہوسکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا خیال تھا کہ اس قانون کے نفاذ سے انتہا پسندی بڑھے گی اور یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتاہے۔ عرفان صدیقی نے اس بل کے مندرجات کا تجزیہ کرتے ہوئے سینیٹروں کو آگاہ کیا کہ یہ بل 33 شقوں اور 100ذیلی شقوں پر مشتمل ہے۔
یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہی نہیں ہوا تو اس بل کے مسودہ میں تحریرکیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تشدد یا انتہا پسندی میں ملوث پایا گیا، وہ کسی جماعت کا عہدیدارہو، جماعت کا کارکن ہو یا اس تنظیم کا ملازم ہو سزا کا حقدار ہوگا۔
اسی طرح تشدد اور انتہا پسندی کو تقویت دینے کے لیے مالیاتی امداد دینے والے فرد یا اس جرم میں ملوث کسی شخص کو پناہ دینے یا مدد کرنے والا فرد اس قانون کے تحت سزا کا مستحق ہوگا۔ حکومت اس جرم میں ملوث جماعتوں کے خلاف کارروائی کا حق رکھتی ہے۔
اس جرم میں ملوث افراد کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر کوریج یا پابندی عائد کی جاسکتی ہے، اگر یہ بل قانون بن گیا تو حکومت اس جرم میں ملوث افراد کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کرسکتی ہے۔
اس قانون کے تحت اس جرم میں ملوث پائے گئے شخص کو 90 دن سے لے کر 120 دن تک قید کیا جاسکتا ہے، مگر متعلقہ شخص حکومت کی نظر بندی کے فیصلہ کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ سے اپیل کرسکتا ہے، جب حکمراں اتحاد کے سینیٹر اس بل پر سخت تنقید کر رہے تھے تو ماحولیات کی وزیر شیری رحمن نے کہا کہ اس قانون میں ترمیم کی جائے گی۔
سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس قانون کو مسترد کر دیا۔ وزیر قانون نذیر تارڑ نے وضاحت کی ہے کہ یہ قانون گزشتہ حکومت کے دور میں تیار ہوا تھا۔ وزارتِ قانون نے التواء شدہ قوانین کو منظور کرانے کے لیے اس قانون کا مسودہ سینیٹ کو بھجوادیا تھا مگر حکمراں اتحاد میں شامل باشعور سینیٹرز نے اس قانون کو مسترد کرکے بصیرت کا ثبوت دیا۔
گزشتہ ہفتہ قومی اسمبلی میں پندرہ اراکین نے 29 نجی یونیورسٹیوں کے قوانین پیش کیے جنھیں منظور کر لیا گیا۔ وزیر تعلم رانا تنویرکا مسلسل یہ مؤقف ہے کہ یہ یونیورسٹیوں کے قوانین ایچ ای سی کی طے شدہ پالیسیوں کے مطابق نہیں ہیں۔ اب قومی اسمبلی اور سینیٹ نے پیمرا ترمیمی بل بھی منظور کر لیا ہے۔
اس بل کی بعض شقیں آئین کے آرٹیکل 19-A سے متصادم ہیں۔ گزشتہ دنوں حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف پلیٹ فارمز پر قدغن لگانے کے لیے کئی قوانین کے مسودے تیارکیے۔ ان قوانین میں پرسنل ڈیٹا بل Personal Databill اور ای سیفٹی بل E-Safety Bill بھی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے ماہرین نے ان بلوںکو آئین کی شق 19اور ذیلی شق 19-A کے خلاف قرار دیا۔ ان بلوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کے مختلف بین الاقوامی قوانین کے منافی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر نے لکھا ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی ڈیجیٹل ٹریڈ کی برآمدات میں فرق آئے گا، یوں ڈیجیٹل ٹریڈ میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہوجائے گی۔
اس قانون کی شق 20-A کے تحت فیک انفارمیشن کی ترویج پر 5 سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ یہ فیصلہ وفاق کا تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کرے گا کہ کون سی انفارمیشن فیک انفارمیشن کے ضمن میں آتی ہے۔ ایف آئی اے کے اہلکار فیک انفارمیشن پھیلانے کے الزام میں کسی بھی فرد کو گرفتار کرسکیں گے۔
اس شق کا شکار زیادہ تر صحافی، سیاسی کارکن اور سوشل ایکٹوسٹ ہونگے۔ پیکا ترمیم آرڈیننس میں ایک شق 37 بھی شامل ہے۔ اس شق کی بناء پر پی ٹی اے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ کسی بھی ویب سائٹ کو بند کرسکتا ہے۔
سابقہ دورِ حکومت میں جب اس شق کو قانون میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اکابرین نے اس کی سخت مخالفت کی تھی، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان شقوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس قانون کے تحت اگر سوشل میڈیا کمپنیاں متنازعہ مواد کو نہیں روکیں گی تو پی ٹی اے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بند کردے، یوں عملی طور پر پی ٹی اے کو سنسر لگانے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ اس مجوزہ قانون میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو ملک میں دفتر قائم کرنے کا پابند کیا گیا ہے تاکہ کمپنی کے ملازمین پی ٹی اے کی ہدایات پر فوری عملدرآمد کریں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کو آزادئ اظہار پر پابندی لگانے والے قوانین کی پابندی پر مجبورکیا جاسکے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف پلیٹ فارمز پر نمایندگی کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں میں سے ایک Asia Internet Coalition نے پرسنل ڈیٹابیس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' یہ بل عالمی معیار سے بہت کم ہے اور اس قانون کے نفاذ سے پاکستان کا برآمدی شعبہ متاثر ہوگا۔''
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہرکہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت آخری دور میں جو قانون سازی کر رہی ہے، ایسے قانون بھارت میں مودی حکومت نے نافذ کیے ہیں۔ مودی حکومت تو ایک مذہبی انتہا پسند حکومت ہے مگر پی ڈی ایم کی حکومت تو جمہوریت کا نعرہ لگا رہی ہے۔
سیاسی نظام پر تحقیق کرنے والے ماہرین اورکئی عشروں سے سیاسی امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی اس بات پر متفق ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنے آخری دور میں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنانے کا کارخانہ قائم نہیں کیا ہے بلکہ یہ قوانین مخصوص قوتوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جا رہے ہیں تاکہ وہ قوتیں انتخابات میں پی ڈی ایم حکومت کے لیے کامیابی کے لیے رکاوٹیں دور کرسکیں مگر پی ڈی ایم کے اکابرین نے اقتدار میں آتے ہی ملک کی تاریخ کو بھلا دیا ہے۔
ان قوتوں نے برسر اقتدار حکومتوں کو ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے، جب برسراقتدار حکومتیں اپنے ایسے عوام دشمن اقدامات کی بناء پر غیر مقبول ہوجاتی ہیں تو ان قوتوں کا ہیروکوئی اور ہوتا ہے۔کیا اب بھی ایسا ہی ہونے والا ہے؟