ملک نہیں صرف اقتدار و مفادات
سابق وزیر اعظم نے ثابت کردیا کہ انھیں ہر حالت میں دوبارہ اقتدار چاہیے تاکہ نئے ساتھیوں کو بھی نواز سکیں
جمہوری بساط لپیٹ کر آٹھ سال اقتدار میں رہنے والے ایک آمر صدر نے کہا تھا کہ '' سب سے پہلے پاکستان'' مگر زندگی میں متعدد دعوے کر کے اقتدار حاصل کرنے والے ایک مبینہ صادق و امین سیاستدان نے ثابت کر دیا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان نہیں بلکہ ہر حال میں اقتدار خواہ ملک دیوالیہ ہو جائے یا ملکی سالمیت داؤ پر لگ جائے مگر اقتدارکے دوبارہ حصول کے لیے وہ سب کیا جائے جو ماضی میں کسی سیاستدان نے توکیا کسی آمر نے بھی نہیں کیا جو ایک ایسے سیاستدان نے کر دکھایا جو خود کو بااصول، ایماندار، عوام کے لیے یکساں انصاف کی فراہمی کا دعویدار ظاہر کرتا تھا حالانکہ وہ اپنی پارٹی بنانے کے کئی سال تک ناکام رہا تھا مگر اس کی باتوں سے متاثر ہو کر اچھی شہرت کے حامل ملک کے نامور سیاستدان اس کی پارٹی میں بڑی اچھی امیدوں کے ساتھ خوش فہمی میں شامل ہوئے تھے مگر وہ جلد ہی اس کی اصلیت جان گئے تھے اور اس سے الگ ہوگئے تھے۔
اقتدارکے حصول کے لیے جمہوریت کے اس دعویدار نے نواز شریف کی مخالفت میں جنرل پرویزکا ساتھ دیا اور ان کے صدارتی ریفرنڈم کی مہم اس امید پر چلائی کہ جنرل پرویز مشرف 2002 کے الیکشن میں اسے وزیر اعظم بنا دے گا مگر جنرل پرویز مشرف نے ایسی غلطی نہیں کی جس پر اس نے جنرل پرویز مشرف کی مخالفت شروع کردی اور جنرل پرویز مشرف کے وزیر اعظم کے امیدوار ظفر اللہ جمالی کے بجائے اس مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا جن پر بعد میں تنقید شروع کر دی اور وہ اب تک مولانا پر شدید الزام تراشی کرتے رہے۔
1996 میں پی ٹی آئی بنانے والے اس کے چیئرمین کے متعلق اس وقت ہی ممتاز عالم دین ڈاکٹر اسرار اور حکیم محمد سعید نے قوم کو خبردار کردیا تھا کہ وہ اس کی باتوں میں نہ آئے جو ملک و قوم سے مخلص نہیں بلکہ کسی اورکے ایجنڈے پر سیاست میں آیا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ کبھی یوسی چیئرمین تک نہ بنے تھے مگر کرکٹ میں وہ من مانی کرنے والے کپتان اور پلے بوائے کے طور پر دنیا میں مشہور تھے۔
پاکستانی قوم باری باری اقتدار میں آنے والی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اقتدار بھگت کر الیکشن سے ہی مایوس ہو چکی تھی اور نواز شریف اور بے نظیر بھٹوکی دو دو حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف ہوئی تھیں اور دونوں کے اقتدار کی برطرفی بالاتروں کے باعث ممکن ہوئی تھی جو اقتدار کا اصل سرچشمہ تھے۔
اس لیے پی ٹی آئی چیئرمین نے بالاتروں کو اپنی باتوں سے رام کر لیا جنھوں نے 15 سال سے ناکام پی ٹی آئی کا بڑا جلسہ کرا کر اس کے سر پر دست شفقت رکھا اور سمجھ لیا کہ یہی ملک میں تبدیلی لا سکتا ہے اور نواز شریف اور آصف زرداری کا متبادل ہو سکتا ہے۔ اس وقت یہ قوتیں چیئرمین پی ٹی آئی کو پہچان نہ سکی۔ 2018 میں اقتدار کا ہما کثرت نہ ہونے کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کے سر پر بٹھا دیا گیا ۔
برطرف وزیر اعظم نے اپنا انتقامی حملہعسکری اداروں پر کرایا جس کا کسی اور نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ یہ شرمناک حرکت تھی کہ جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
سابق ہونے سے قبل وزیر اعظم نے آرمی سربراہ پر زور دیا کہ وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنائیں مگراداروں میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ انھوں نے غیر جانب دار رہنا ہے جس نے آئین کے تحت کام کرنا ہے اور مداخلت نہیں کرنی اور انھوں نے اپنے فیصلے پر عمل بھی کر دکھایا۔
آئینی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے سابق وزیر اعظم کو انتہائی مشتعل کیا۔ انھوں نے برطرفی سے قبل امریکی سائفر کو ڈرامہ بنایا اور امریکا مخالف قوم کے جذبات ابھارے کہ انھیں امریکا ہٹانا چاہتا ہے اور ان کی برطرفی اور سائفر ڈرامے کے بعد قوم نے سابق وزیر اعظم کے نئے بیانیے پر یقین کر لیا اور قوم ان کی حکومتی کارکردگی بھول کر نئی اتحادی آئینی حکومت کو امپورٹڈ سمجھ بیٹھی جو قوم کی غلط فہمی تھی جو سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے بیان حلفی سے دور ہونی چاہیے کیونکہ سائفر ڈرامے سے سابق وزیر اعظم اور ان کے ساتھی خوب کھل کر کھیلے اور حکومت کو لاہور ہائی کورٹ نے سائفر کی تحقیقات سے روک دیا تھا جس کا فائدہ سابق وزیر اعظم اور ان کے موقف کو ہوا تھا۔
سائفر پر امریکی تردید اور حقائق سے پردہ اٹھا تو سابق وزیراعظم اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے الزامات لگانے لگے ۔ اس سے قبل حکومت اور بالاتروں کو دباؤ میں لانے کے لیے قوم کو گمراہ کرنے کے لیے اربوں روپے غیر ضروری 55 جلسوں پر اڑا دیے گئے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں رکاوٹ ڈلوائی اور وہ سب کچھ کر دکھایا جو ملکی سلامتی کے خلاف تھا۔
کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ملک ہے تو یہاں سیاست کر کے اقتدار دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور نئے پرانے حامیوں کو مفادات فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے نئے نئے حامی بھی ان کے دوبارہ اقتدار سے فائدے اٹھا سکتے ہیں جس کے لیے سابق وزیر اعظم نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بھارت کو مدت سے ضرورت تھی۔
سابق وزیر اعظم نے ثابت کردیا کہ انھیں ہر حالت میں دوبارہ اقتدار چاہیے تاکہ نئے ساتھیوں کو بھی نواز سکیں۔ انھیں ملک نہیں اقتدار عزیز ہے جس کے لیے انھوں نے ہر ڈیڈ لائن پار کر لی ہے مگر یہ نہیں سوچا کہ ملک نہ رہا تو وہ خود بھی کہاں ہوں گے۔