ادھوری بشارتوں اور پوری تشہیر کے سلسلے
حکمرانوں کی عوام پروری کہ وہ گورننس بہتر کرنے اورترقی کا کٹھن راستہ اختیارکرنے کے بجائے بشارتوں کی پٹاری کھول لیتے ہیں
گزشتہ دو تین ہفتے بہت مصروف گذرے، عوام کے بھی اور حکومت کے بھی۔ عوام پٹرول اور آٹے دال کے بھاؤ جاننے کے بعد اپنے آپ کو سنبھالنے میں مصروف رہے، گاہے تین حرف آئی ایم ایف پر بھیجنے کو، گاہے اپنی قسمت اور گاہے سیاسی رزم آرائی کو۔ حکومت کے یہ دو تین ہفتے عوام سے بھی زیادہ مصروف گذرے اور بہت بہتر بھی۔
کہاں تو یہ عالم تھا کہ پانچ ہفتے قبل حکومت کا خون اس خوف سے خشک ہو رہا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہ ہوا تو ملک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنے پڑے گا، حکمرانوں کی آنیاں جانیاں دید کے قابل تھیں، آئی ایم ایف کی سربراہ کو کبھی فون پر اور کبھی ون ٹو ون میٹنگز میں قائل کرنے کے مشن پر ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔
امریکا بہادر کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، بقول عبدل ان ساری ملاقاتوں کا ایک ہی مطلب تھا کہ اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے!
ڈیڈ لین ختم ہونے سے عین ایک آدھ دن قبل حکومت نے اعلان کیا کہ ہن ستّے خیراں نیں یعنی اب کوئی فکر نہیں، آئی ایم ایف مان گیا۔ اگلے نو ماہ کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیاہے۔ اس کے بعد کہیں جا کر حکومت اطمینان کی نیند سوئی۔
کئی ماہ کے سیاسی جگراتوں کے بعد کی میٹھی نیند سے حکومت جاگی تو اس نے خوابوں میں دیکھی بشارتوں کو عوام سے شیئر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بشارتیں انقلاب آفرین اور اس قدر اعلیٰ تھیں کہ حکومت کو ان بشارتوں کے ابلاغ کے لیے سیمینارز کی سیریز شروع کرنی پڑی۔
بشارتوں کے سلسلے کے پہلے سیمینار کا حاصل کلام یہ تھا کہ ہم ذرا خواب غفلت میں کیا گئے دنیا نے آئی ٹی کے میدان میں ہاتھ صاف کر دیا۔
جس جگہ دیکھو دوسرے ملکوں نے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ بھارت، چین، تائیوان، کوریا... پاکستان کے لیے جھنڈا گاڑنے کی جگہ ہی نہیں چھوڑی۔ جو ہوا سو ہوا، مگر اب نہیں، پاکستان آئی ٹی کے میدان میں اب اپنا مقام ڈھونڈ کر رہے گا۔ یہ مقام ڈھونڈنے میں ہماری ضعف بصارت اور ضعف ِ ہنر آڑے آ رہے ہیں اس لیے ہم نے گلوبل سرمایہ کاروں کو دعوت دی ہے کہ وہ ہمارے حصے کا کام اور اپنے حصے کا منافع حاصل کریں۔
عوام کو آٹے دال اور چینی کے لیے ہلکان پا کر حکومت کو ایک اور بشارت سوجھی؛ گرین انقلاب۔ ایک زرعی ملک جو اب دھڑا دھڑ رئیل اسٹیٹ کی کمرشل فارمنگ کا ہو کر رہ گیا ہے، اس کے بائیس کروڑ عوام کو البتہ اشیائے خور و نوش کی تنگی نے آن لیا ، آٹا چینی سبزیاں دالیں دودھ۔ ہر شئے مہنگی اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔
ان سالوں میں جب رئیل اسٹیٹ کی کمرشل فارمنگ عروج پر تھی ، کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ بھی عروج پر جا پہنچی۔ حکمران اور تاجر حال مست تھے مگر خزانے میں ڈالرز کے کال نے مزہ کرکرا کر دیا ۔ اس پر مستزاد کہ آئی ایم ایف نے بھی ہماری فکر کرنا چھوڑ دی۔
ایسے میں کسی نے حکومت کو پندرہ ماہ بعد یہ بشارت سُجھائی کہ بھلے لوگو گرین انقلاب برپا کرو۔ کیونکہ حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے لیکن انقلاب کا آنا تو موخر نہیں ہوسکتا، اس لیے حکومت نے دو تین دوست ممالک کے سرمایہ کاروں اور نو زائیدہ سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذمے لگایا کہ وہ انقلاب کے جملہ لوازمات پورے کریں۔
تاہم جب تک سبز انقلاب کی فصل نہیں اترتی ، عوام کوآٓزادی ہے کہ جہاں سے اور جس بھاؤ پر اشیائے خور و نوش ملیں زہر مار کرلیں لیکن یاد رکھیں کہ سبز انقلاب ایک سیمینار کی دوری پر موجود ہے۔
لاہور کی روایتی بود و باش میں میلے ٹھیلے بہت ہوتے تھے ، اس قدر کہ رنگین مزاج لوگوں نے ایک محاورہ مشہور کر رکھا تھا ؛ دن ست تے اٹھ میلے۔ گھر جاواں کہیڑے ویلے ( دن سات ہیں اور میلے آٹھ، گھر جائیں تو کس دن!)۔حکومت کا بھی اب کچھ ایسا ہی مخمصہ ہے کہ بشارتیں زیادہ ہیں اور اس کے دن تھوڑے ہیں۔
بہرحال پھر بھی حکومت نے لگے ہاتھوں اگلی بشارت کی بھی سیمینار افزائی کر ڈالی۔ مالیت کے اعتبار سے یہ بشارت سب پر بھاری تھی۔
وزیر توانائی کے مطابق ملک میں چھ ٹریلین ڈالرز کی معدنیات موجود ہیں مگر ہم نے انھیں ڈھنگ سے کھودا ہی نہیں۔ ضروری تو نہیں ہر بار پہاڑ کھودنے پر چوہا ہی نکلے ، سونا، تانبا، لیتھیم اور کوئلہ بھی نکل سکتے ہیں۔ ماضی میں ہم مٹی بیچتے رہے لیکن اب معدنی انقلاب برپا ہو گا، مٹی سے سونا اور تانبا بنا کر خوشحالی لائیں گے۔
سعودی عرب اور عرب امارات کو اس بشارت کی سمجھ آچکی ہے اسی لیے وہ چھبیس ارب ڈالرز جھولی میں ڈالے بضد ہیں کہ بھائی بندی کے ناطے ان کا اس مائیننگ سرمایہ کاری پر پہلا حق ہے ۔
حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا دماغ بھی کمال کام کرتا ہے ، ہر آنے والی اور اب جانے والی حکومت بشارتیں ڈھونڈ لاتی ہیںکہ ؛ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا۔ ن لیگ کی حکومت نے 2014 میں چنیوٹ میں لوہے کے بڑے ذخائر دریافت کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل مل لگانے کی بھی بشارت دی ۔
گزشتہ حکومت آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم نے کراچی کے قریب جزیرے میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی بشارت دیتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ دعا کریں گیس لیک نہ ہو گئی ہو ۔ اگر گیس سلامت ہوئی تو اتنی خوشحالی ہو جائے گی کہ لوگ باہر سے نوکریوں کی تلاش میں یہاں ڈیرے ڈال دیں گے ۔ دعاؤں میں اثر نہ تھا یا شاید مانگنے کا سلیقہ نہ آیا ، گیس بہت پہلے بشارت پا کر اڑ چکی تھی، سوچا ہوا سب ٹھاٹھ یونہی پڑا رہ گیا ۔
خدا جانے ہمارے اس خطے کی رومان پروری کا کیا دھرا ہے یا ہمارے حکمرانوں کی عوام پروری کہ وہ گورننس بہتر کرنے اور ترقی کا کٹھن راستہ اختیار کرنے کے بجائے بشارتوں کی پٹاری کھول لیتے ہیں۔ ادھوری بشارتوں کا یہ سلسلہ نہ کل رکا نہ آج لیکن ان ادھوری بشارتوں کے سہارے حکومتیں اپنی تشہیر پوری کر لیتی ہے جو سیاسی بیانیے کے لیے بہ وقت ضرورت کام آتی ہے۔
کہاں تو یہ عالم تھا کہ پانچ ہفتے قبل حکومت کا خون اس خوف سے خشک ہو رہا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہ ہوا تو ملک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنے پڑے گا، حکمرانوں کی آنیاں جانیاں دید کے قابل تھیں، آئی ایم ایف کی سربراہ کو کبھی فون پر اور کبھی ون ٹو ون میٹنگز میں قائل کرنے کے مشن پر ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔
امریکا بہادر کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، بقول عبدل ان ساری ملاقاتوں کا ایک ہی مطلب تھا کہ اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے!
ڈیڈ لین ختم ہونے سے عین ایک آدھ دن قبل حکومت نے اعلان کیا کہ ہن ستّے خیراں نیں یعنی اب کوئی فکر نہیں، آئی ایم ایف مان گیا۔ اگلے نو ماہ کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیاہے۔ اس کے بعد کہیں جا کر حکومت اطمینان کی نیند سوئی۔
کئی ماہ کے سیاسی جگراتوں کے بعد کی میٹھی نیند سے حکومت جاگی تو اس نے خوابوں میں دیکھی بشارتوں کو عوام سے شیئر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بشارتیں انقلاب آفرین اور اس قدر اعلیٰ تھیں کہ حکومت کو ان بشارتوں کے ابلاغ کے لیے سیمینارز کی سیریز شروع کرنی پڑی۔
بشارتوں کے سلسلے کے پہلے سیمینار کا حاصل کلام یہ تھا کہ ہم ذرا خواب غفلت میں کیا گئے دنیا نے آئی ٹی کے میدان میں ہاتھ صاف کر دیا۔
جس جگہ دیکھو دوسرے ملکوں نے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ بھارت، چین، تائیوان، کوریا... پاکستان کے لیے جھنڈا گاڑنے کی جگہ ہی نہیں چھوڑی۔ جو ہوا سو ہوا، مگر اب نہیں، پاکستان آئی ٹی کے میدان میں اب اپنا مقام ڈھونڈ کر رہے گا۔ یہ مقام ڈھونڈنے میں ہماری ضعف بصارت اور ضعف ِ ہنر آڑے آ رہے ہیں اس لیے ہم نے گلوبل سرمایہ کاروں کو دعوت دی ہے کہ وہ ہمارے حصے کا کام اور اپنے حصے کا منافع حاصل کریں۔
عوام کو آٹے دال اور چینی کے لیے ہلکان پا کر حکومت کو ایک اور بشارت سوجھی؛ گرین انقلاب۔ ایک زرعی ملک جو اب دھڑا دھڑ رئیل اسٹیٹ کی کمرشل فارمنگ کا ہو کر رہ گیا ہے، اس کے بائیس کروڑ عوام کو البتہ اشیائے خور و نوش کی تنگی نے آن لیا ، آٹا چینی سبزیاں دالیں دودھ۔ ہر شئے مہنگی اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔
ان سالوں میں جب رئیل اسٹیٹ کی کمرشل فارمنگ عروج پر تھی ، کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ بھی عروج پر جا پہنچی۔ حکمران اور تاجر حال مست تھے مگر خزانے میں ڈالرز کے کال نے مزہ کرکرا کر دیا ۔ اس پر مستزاد کہ آئی ایم ایف نے بھی ہماری فکر کرنا چھوڑ دی۔
ایسے میں کسی نے حکومت کو پندرہ ماہ بعد یہ بشارت سُجھائی کہ بھلے لوگو گرین انقلاب برپا کرو۔ کیونکہ حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے لیکن انقلاب کا آنا تو موخر نہیں ہوسکتا، اس لیے حکومت نے دو تین دوست ممالک کے سرمایہ کاروں اور نو زائیدہ سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذمے لگایا کہ وہ انقلاب کے جملہ لوازمات پورے کریں۔
تاہم جب تک سبز انقلاب کی فصل نہیں اترتی ، عوام کوآٓزادی ہے کہ جہاں سے اور جس بھاؤ پر اشیائے خور و نوش ملیں زہر مار کرلیں لیکن یاد رکھیں کہ سبز انقلاب ایک سیمینار کی دوری پر موجود ہے۔
لاہور کی روایتی بود و باش میں میلے ٹھیلے بہت ہوتے تھے ، اس قدر کہ رنگین مزاج لوگوں نے ایک محاورہ مشہور کر رکھا تھا ؛ دن ست تے اٹھ میلے۔ گھر جاواں کہیڑے ویلے ( دن سات ہیں اور میلے آٹھ، گھر جائیں تو کس دن!)۔حکومت کا بھی اب کچھ ایسا ہی مخمصہ ہے کہ بشارتیں زیادہ ہیں اور اس کے دن تھوڑے ہیں۔
بہرحال پھر بھی حکومت نے لگے ہاتھوں اگلی بشارت کی بھی سیمینار افزائی کر ڈالی۔ مالیت کے اعتبار سے یہ بشارت سب پر بھاری تھی۔
وزیر توانائی کے مطابق ملک میں چھ ٹریلین ڈالرز کی معدنیات موجود ہیں مگر ہم نے انھیں ڈھنگ سے کھودا ہی نہیں۔ ضروری تو نہیں ہر بار پہاڑ کھودنے پر چوہا ہی نکلے ، سونا، تانبا، لیتھیم اور کوئلہ بھی نکل سکتے ہیں۔ ماضی میں ہم مٹی بیچتے رہے لیکن اب معدنی انقلاب برپا ہو گا، مٹی سے سونا اور تانبا بنا کر خوشحالی لائیں گے۔
سعودی عرب اور عرب امارات کو اس بشارت کی سمجھ آچکی ہے اسی لیے وہ چھبیس ارب ڈالرز جھولی میں ڈالے بضد ہیں کہ بھائی بندی کے ناطے ان کا اس مائیننگ سرمایہ کاری پر پہلا حق ہے ۔
حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا دماغ بھی کمال کام کرتا ہے ، ہر آنے والی اور اب جانے والی حکومت بشارتیں ڈھونڈ لاتی ہیںکہ ؛ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا۔ ن لیگ کی حکومت نے 2014 میں چنیوٹ میں لوہے کے بڑے ذخائر دریافت کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل مل لگانے کی بھی بشارت دی ۔
گزشتہ حکومت آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم نے کراچی کے قریب جزیرے میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی بشارت دیتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ دعا کریں گیس لیک نہ ہو گئی ہو ۔ اگر گیس سلامت ہوئی تو اتنی خوشحالی ہو جائے گی کہ لوگ باہر سے نوکریوں کی تلاش میں یہاں ڈیرے ڈال دیں گے ۔ دعاؤں میں اثر نہ تھا یا شاید مانگنے کا سلیقہ نہ آیا ، گیس بہت پہلے بشارت پا کر اڑ چکی تھی، سوچا ہوا سب ٹھاٹھ یونہی پڑا رہ گیا ۔
خدا جانے ہمارے اس خطے کی رومان پروری کا کیا دھرا ہے یا ہمارے حکمرانوں کی عوام پروری کہ وہ گورننس بہتر کرنے اور ترقی کا کٹھن راستہ اختیار کرنے کے بجائے بشارتوں کی پٹاری کھول لیتے ہیں۔ ادھوری بشارتوں کا یہ سلسلہ نہ کل رکا نہ آج لیکن ان ادھوری بشارتوں کے سہارے حکومتیں اپنی تشہیر پوری کر لیتی ہے جو سیاسی بیانیے کے لیے بہ وقت ضرورت کام آتی ہے۔