کیا چین امریکی معیشت کو سہارا دے گا
امریکی ’ہاکس‘ بدترین معاشی بحران اور تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کے باوجود ایسے کسی حل پر راضی نہیں
امریکا کو اپنی معیشت اور اُس کے طفیل عالمی امور اور سیاست پر حاصل برتری چھن جانے کے سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے۔
یہ تاثر اب تیزی سے پوری دنیا میں عام ہو رہا ہے۔ اب یہ محض تاثر نہیں بلکہ اس کی تصدیق بہت سے واقعات اور سفارتی و معاشی سرگرمیوں سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اسی برس سفارت کاری کی عالمی تاریخ کا جانا مانا نام ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا ہے۔
کسنجر مدت ہوئی اپنی سرکاری سرگرمیوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں لیکن ان کی چینی امور میں مہارت نہ صرف یہ کہ بے مثال سمجھی جاتی ہے بلکہ چین میں انھیں ایک دوست کی حیثیت حاصل ہے۔ چینی انھیں چین امریکی تعلقات کا معمار سمجھتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ اسی برس کسنجر نے اپنی سوویں سالگرہ منائی ہے اور یہ ان کا چین کا سوواں دورہ بھی تھا۔
عالمی امور پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ عمر کے اس حصے میں محض سیر سپاٹے اور گپ شپ لگانے کے لیے اتنے طویل ہوائی سفر کا کوئی تُک نہیں بنتا، ضرور اس دورے کے پیچھے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کی کوئی غرض پوشیدہ ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو چینی صدر 'شی جن پنگ' اُن سے باقاعدہ ملاقات نہ کرتے۔ آج سے 52 برس پہلے ہنری کسنجر نے چین کا پہلا دورہ کیا تھا جب وہ صدر نکسن کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔
ان کا یہ دورہ خفیہ تھا اور اس دورے کو ممکن بنانے کی سہولت کاری پاکستان نے کی تھی۔ 1971 میں ہونے والے اس خفیہ دورے کے لیے طیارہ بھی پاکستانی استعمال ہوا تھا۔ اس دورے میں کسنجر اور اُس وقت کے چینی وزیر اعظم 'چو این لائی' کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں ہنری کسنجر کے اس دورہ چین کو تاریخ عالم کا اہم سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن تب کے برعکس اس وقت چین امریکا تعلقات بدترین حالت میں ہیں۔
ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ تب چین اپنے نظریاتی مربی روس سے تصادم کی حالت میں تھا لیکن اب روس اور چین اتنے قریب آ چکے ہیں کہ ان پر اتحادی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ دو بڑی طاقتیں نہ صرف یہ کہ قریب آ چکی ہیں بلکہ ان کی مشترکہ عالمی پالیسیاں امریکی تسلط کے خاتمے پر مرکوز ہیں۔
چینی صدر جب کسنجر سے ملے تو اُن کا کہنا تھا، ''کسنجر کا یہ 100 واں دورہ چین غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چین اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کو کبھی نہیں بھولتا۔ ہم اپنے پرانے دوستوں کو نہیں بھولے نہ ہی ہم چین امریکا تعلقات کے فروغ میں آپ کے تاریخی کردار کو بھولے ہیں۔'' صدر شی نے کہا کہ چین اور امریکا آج ایک مرتبہ پھر دوراہے پر کھڑے ہیں (اشارہ 1971 کے دورے کی طرف ہے) اور آج پھر یہ مرحلہ درپیش ہے کہ ہمیں کس راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔
گوکہ چینی ذرایع تو ہنری کسنجر کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں لیکن درحقیقت اس دورے کی اصل وجوہات کچھ اور نظر آتی ہیں۔ اس حوالے سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اگر معاملہ باہمی تعلقات کی بہتری ہی ہے تو اس مقصد کے لیے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن پہلے ہی چین کا سرکاری دورہ کرچکے ہیں۔
صورتحال ڈرامائی ہے کیونکہ ایک طرف امریکا چین کو گھیرے میں لینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے گو کہ اس کی اپنی معیشت کا عالمی دبدبہ روبہ زوال ہے۔
بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ آسٹریلیا، بھارت، جاپان، فلپائن وغیرہ کے ساتھ مل کر برطانیہ کی مدد اور حمایت سے بالٓاخر چین کے حصے بخرے کرنا امریکی خواب ہے۔ لیکن کسی فوری تصادم کا خطرہ اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت کا بڑا حصہ پہلے ہی یوکرین میں محاذ پر ہے اور امریکا کا موثر ترین عالمی ہتھیار 'نیٹو' اس وقت روس کے ساتھ جنگ میں اُلجھا ہوا ہے۔
جوبائیڈن کے لیے یہ ممکن نہیں کہ 'کواڈ' تنظیم کے رُکن ممالک آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے بغیر چین کے ساتھ کسی تصادم میں اُلجھ پڑیں جب کہ 'کواڈ' کے یہ رُکن ممالک ایسے کسی بھی تصادم کا سارا بوجھ امریکا پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
اگر معاملہ امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ چین کی چھوٹی موٹی جھڑپوں اور ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی حد تک رہتا ہے تو یہ امریکا کے فائدے میں ہے لیکن چین کے ساتھ مکمل جنگ میں جانا تباہ کُن ہو گا۔
مثال کے طور پر بھارت یا کسی اور اتحادی کے ساتھ چین کی جھڑپیں ہوتی ہیں تو امریکا اپنی سیاسی سفارتی حمایت کے ساتھ مادی اور جنگی وسائل بھی اس ملک کو فراہم کردے گا لیکن خود تصادم میں نہیں جانا چاہے گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہنری کسنجر خطے میں جنگ کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے تصادم کو روکنے کی کوئی سبیل کرنے چین پہنچے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین سال 2008 کے مقابلے میں اس وقت معاشی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ روس، وینزویلا، کیوبا، ایران سمیت ایشیائ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ مل کر عالمی معیشت پر ڈالر کی اجارہ داری کا خاتمہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے تاکہ تمام ممالک کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنایا جاسکے۔
اگر امریکا بدستور چین کے ساتھ سینگ پھنسائے رکھتا ہے تو کثیر قطبی دنیا کا چینی تصور آسانی سے حقیقت کا روپ نہیں دھار پائے گا۔
جس طرح 2007 سے 2010 کے درمیان شدید ترین عالمی کساد بازاری کے باعث امریکا میں آنے والے معاشی بحران کے دوران 2008 میں چین نے امریکا کو بحران سے نکالنے میں مدد کی تھی، اب چین امریکی معیشت کے ڈوبتے ہوئے جہاز کو بچانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ اب ڈالر کی برتری ختم کرنے کی مہم میں مزید تیزی لائے گا۔
امریکا اس وقت دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی جنگ لڑرہا ہے۔ دوسری طرف امریکی معیشت کسی بھی وقت مکمل تباہی کا شکار ہوسکتی ہے۔ اگر امریکا اور چین کے درمیان مثالی امن و امان کی فضاء قائم ہوجاتی ہے اور چین اپنا رویہ تبدیل کرلیتا ہے تو 2008 کی طرح اس بار بھی امریکا کی کشتی کو منجدھار سے بچا کر کنارے پر لاسکتا ہے۔
امریکا غالباً کسنجر کو ایک ایسے 'سیفٹی والو' کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے امریکا کی معیشت کے صاف نظر آتے انہدام کو ٹالا جا سکے۔
چین کے صدر 'شی' نے کسنجر سے ملاقات سے پہلے تین شرائط رکھی تھیں جن میں باہمی احترام، پُرامن بقائے باہمی اور ایسے باہمی تعاون کا فروغ شامل ہے، جس میں دونوں فریقوں کو مساوی فائدہ حاصل ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکا ان شرائط پر راضی ہو تو دونوں ملک مل کر دنیا کا بَھلا کرسکتے ہیں۔
امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ہمیشہ عالمی سفارتی کاری کے 'ہاکس' کا غلبہ رہا ہے۔( 'ہاک' یعنی باز اور 'ڈاو' یعنی فاختہ کی اصطلاحیں بزور مقاصد حاصل کرنے والوں اور امن سے مسائل حل کرنے پر یقین رکھنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔)
امریکی 'ہاکس' بدترین معاشی بحران اور تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کے باوجود ایسے کسی حل پر راضی نہیں جس کے لیے امریکا کو ایشیاء اور انڈو پیسفک میں چین کے خلاف اپنے عسکری انتظامات اور جنگی تیاریوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے۔
امریکا اس وقت علانیہ روس کو تباہ و برباد کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس نے یوکرین کو اپنا کٹھ پتلی بنا کر روس کے ساتھ بالواسطہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ چین اور روس کی قربت امریکا اپنے عالمی مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
کسنجر کا حالیہ دورہ چین دراصل چین، روس اتحاد میں کوئی دراڑ تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ کیونکہ کسنجر بھی ایک 'ہاک' کی شہرت رکھتے ہیں۔
کسنجر چاہتے تھے کہ یوکرین کے معاملے پر چین سے کوئی ایسا وعدہ حاصل کریں جو توازن کو بہتر بنانے کے کام آسکے لیکن اس بات کا امکان اس لیے نظر نہیں آتا کہ آخر چین محض زبانی جمع خرچ کے عوض اپنی آزاد پالیسی کا سودا کیوں کرے گا۔
یہ تاثر اب تیزی سے پوری دنیا میں عام ہو رہا ہے۔ اب یہ محض تاثر نہیں بلکہ اس کی تصدیق بہت سے واقعات اور سفارتی و معاشی سرگرمیوں سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اسی برس سفارت کاری کی عالمی تاریخ کا جانا مانا نام ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا ہے۔
کسنجر مدت ہوئی اپنی سرکاری سرگرمیوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں لیکن ان کی چینی امور میں مہارت نہ صرف یہ کہ بے مثال سمجھی جاتی ہے بلکہ چین میں انھیں ایک دوست کی حیثیت حاصل ہے۔ چینی انھیں چین امریکی تعلقات کا معمار سمجھتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ اسی برس کسنجر نے اپنی سوویں سالگرہ منائی ہے اور یہ ان کا چین کا سوواں دورہ بھی تھا۔
عالمی امور پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ عمر کے اس حصے میں محض سیر سپاٹے اور گپ شپ لگانے کے لیے اتنے طویل ہوائی سفر کا کوئی تُک نہیں بنتا، ضرور اس دورے کے پیچھے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کی کوئی غرض پوشیدہ ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو چینی صدر 'شی جن پنگ' اُن سے باقاعدہ ملاقات نہ کرتے۔ آج سے 52 برس پہلے ہنری کسنجر نے چین کا پہلا دورہ کیا تھا جب وہ صدر نکسن کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔
ان کا یہ دورہ خفیہ تھا اور اس دورے کو ممکن بنانے کی سہولت کاری پاکستان نے کی تھی۔ 1971 میں ہونے والے اس خفیہ دورے کے لیے طیارہ بھی پاکستانی استعمال ہوا تھا۔ اس دورے میں کسنجر اور اُس وقت کے چینی وزیر اعظم 'چو این لائی' کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں ہنری کسنجر کے اس دورہ چین کو تاریخ عالم کا اہم سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن تب کے برعکس اس وقت چین امریکا تعلقات بدترین حالت میں ہیں۔
ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ تب چین اپنے نظریاتی مربی روس سے تصادم کی حالت میں تھا لیکن اب روس اور چین اتنے قریب آ چکے ہیں کہ ان پر اتحادی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ دو بڑی طاقتیں نہ صرف یہ کہ قریب آ چکی ہیں بلکہ ان کی مشترکہ عالمی پالیسیاں امریکی تسلط کے خاتمے پر مرکوز ہیں۔
چینی صدر جب کسنجر سے ملے تو اُن کا کہنا تھا، ''کسنجر کا یہ 100 واں دورہ چین غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چین اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کو کبھی نہیں بھولتا۔ ہم اپنے پرانے دوستوں کو نہیں بھولے نہ ہی ہم چین امریکا تعلقات کے فروغ میں آپ کے تاریخی کردار کو بھولے ہیں۔'' صدر شی نے کہا کہ چین اور امریکا آج ایک مرتبہ پھر دوراہے پر کھڑے ہیں (اشارہ 1971 کے دورے کی طرف ہے) اور آج پھر یہ مرحلہ درپیش ہے کہ ہمیں کس راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔
گوکہ چینی ذرایع تو ہنری کسنجر کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں لیکن درحقیقت اس دورے کی اصل وجوہات کچھ اور نظر آتی ہیں۔ اس حوالے سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اگر معاملہ باہمی تعلقات کی بہتری ہی ہے تو اس مقصد کے لیے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن پہلے ہی چین کا سرکاری دورہ کرچکے ہیں۔
صورتحال ڈرامائی ہے کیونکہ ایک طرف امریکا چین کو گھیرے میں لینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے گو کہ اس کی اپنی معیشت کا عالمی دبدبہ روبہ زوال ہے۔
بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ آسٹریلیا، بھارت، جاپان، فلپائن وغیرہ کے ساتھ مل کر برطانیہ کی مدد اور حمایت سے بالٓاخر چین کے حصے بخرے کرنا امریکی خواب ہے۔ لیکن کسی فوری تصادم کا خطرہ اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت کا بڑا حصہ پہلے ہی یوکرین میں محاذ پر ہے اور امریکا کا موثر ترین عالمی ہتھیار 'نیٹو' اس وقت روس کے ساتھ جنگ میں اُلجھا ہوا ہے۔
جوبائیڈن کے لیے یہ ممکن نہیں کہ 'کواڈ' تنظیم کے رُکن ممالک آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے بغیر چین کے ساتھ کسی تصادم میں اُلجھ پڑیں جب کہ 'کواڈ' کے یہ رُکن ممالک ایسے کسی بھی تصادم کا سارا بوجھ امریکا پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
اگر معاملہ امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ چین کی چھوٹی موٹی جھڑپوں اور ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی حد تک رہتا ہے تو یہ امریکا کے فائدے میں ہے لیکن چین کے ساتھ مکمل جنگ میں جانا تباہ کُن ہو گا۔
مثال کے طور پر بھارت یا کسی اور اتحادی کے ساتھ چین کی جھڑپیں ہوتی ہیں تو امریکا اپنی سیاسی سفارتی حمایت کے ساتھ مادی اور جنگی وسائل بھی اس ملک کو فراہم کردے گا لیکن خود تصادم میں نہیں جانا چاہے گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہنری کسنجر خطے میں جنگ کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے تصادم کو روکنے کی کوئی سبیل کرنے چین پہنچے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین سال 2008 کے مقابلے میں اس وقت معاشی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ روس، وینزویلا، کیوبا، ایران سمیت ایشیائ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ مل کر عالمی معیشت پر ڈالر کی اجارہ داری کا خاتمہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے تاکہ تمام ممالک کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنایا جاسکے۔
اگر امریکا بدستور چین کے ساتھ سینگ پھنسائے رکھتا ہے تو کثیر قطبی دنیا کا چینی تصور آسانی سے حقیقت کا روپ نہیں دھار پائے گا۔
جس طرح 2007 سے 2010 کے درمیان شدید ترین عالمی کساد بازاری کے باعث امریکا میں آنے والے معاشی بحران کے دوران 2008 میں چین نے امریکا کو بحران سے نکالنے میں مدد کی تھی، اب چین امریکی معیشت کے ڈوبتے ہوئے جہاز کو بچانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ اب ڈالر کی برتری ختم کرنے کی مہم میں مزید تیزی لائے گا۔
امریکا اس وقت دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی جنگ لڑرہا ہے۔ دوسری طرف امریکی معیشت کسی بھی وقت مکمل تباہی کا شکار ہوسکتی ہے۔ اگر امریکا اور چین کے درمیان مثالی امن و امان کی فضاء قائم ہوجاتی ہے اور چین اپنا رویہ تبدیل کرلیتا ہے تو 2008 کی طرح اس بار بھی امریکا کی کشتی کو منجدھار سے بچا کر کنارے پر لاسکتا ہے۔
امریکا غالباً کسنجر کو ایک ایسے 'سیفٹی والو' کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے امریکا کی معیشت کے صاف نظر آتے انہدام کو ٹالا جا سکے۔
چین کے صدر 'شی' نے کسنجر سے ملاقات سے پہلے تین شرائط رکھی تھیں جن میں باہمی احترام، پُرامن بقائے باہمی اور ایسے باہمی تعاون کا فروغ شامل ہے، جس میں دونوں فریقوں کو مساوی فائدہ حاصل ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکا ان شرائط پر راضی ہو تو دونوں ملک مل کر دنیا کا بَھلا کرسکتے ہیں۔
امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ہمیشہ عالمی سفارتی کاری کے 'ہاکس' کا غلبہ رہا ہے۔( 'ہاک' یعنی باز اور 'ڈاو' یعنی فاختہ کی اصطلاحیں بزور مقاصد حاصل کرنے والوں اور امن سے مسائل حل کرنے پر یقین رکھنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔)
امریکی 'ہاکس' بدترین معاشی بحران اور تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کے باوجود ایسے کسی حل پر راضی نہیں جس کے لیے امریکا کو ایشیاء اور انڈو پیسفک میں چین کے خلاف اپنے عسکری انتظامات اور جنگی تیاریوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے۔
امریکا اس وقت علانیہ روس کو تباہ و برباد کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس نے یوکرین کو اپنا کٹھ پتلی بنا کر روس کے ساتھ بالواسطہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ چین اور روس کی قربت امریکا اپنے عالمی مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
کسنجر کا حالیہ دورہ چین دراصل چین، روس اتحاد میں کوئی دراڑ تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ کیونکہ کسنجر بھی ایک 'ہاک' کی شہرت رکھتے ہیں۔
کسنجر چاہتے تھے کہ یوکرین کے معاملے پر چین سے کوئی ایسا وعدہ حاصل کریں جو توازن کو بہتر بنانے کے کام آسکے لیکن اس بات کا امکان اس لیے نظر نہیں آتا کہ آخر چین محض زبانی جمع خرچ کے عوض اپنی آزاد پالیسی کا سودا کیوں کرے گا۔