یوم استحصال کشمیر کب تک صرف دن منائے جائیں گے

کشمیر کے مسلمان بھارتی مظالم سے کب نجات حاصل کرپائیں گے؟


نورجہاں شیخ August 05, 2023
کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ (فوٹو: فائل)

آج پانچ اگست کو پوری قوم ایک بار پھر ''یوم استحصال کشمیر'' منا رہی ہے۔ یہ وہی دن ہے جب چار سال قبل بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا اور مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اس کے گرد عسکری محاصرہ سخت کردیا تھا۔


بلاشبہ یہ دن اقوام عالم کےلیے یاد دہانی ہے کہ آج بھی کشمیر کو آزادی میسر نہیں۔ کشمیر کے لالہ زار اپنی قدرتی سرخیاں کھو رہے اور شہداء کے خون سے لال ہورہے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ برسوں سے جاری بھارت کے ظلم و بربریت کے خلاف کئی دن منانے کے باوجود کیا مثبت نتائج سامنے آئے؟ کیا کشمیری مسلمانوں کو ایک دن بھی چین کا نصیب ہوسکا؟


بھارت کا مسلمانوں اور خاص طور پر کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مظلوم کشمیری ظالم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مودی کی قیادت میں بھارت نے انتہاپسندی کا ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے، بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں، دیگر مذاہب کے پیروکار، یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندو بھی ناروا سلوک کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دنیا بھارت میں جاری مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ناواقف ہو، لیکن عالمی سیاست اور مفاد پرستی کی عینک عالمی طاقتوں کو چشم پوشی پر مجبور کررہی ہے۔


بھارتی وزیراعظم مودی کی انتہاپسند ہندوتوا سوچ سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس سوچ کے تدارک کےلیے بھارت کو بے نقاب کرنا اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کیونکہ یہ سوچ صرف بھارتی یا کشمیری مسلمانوں کےلیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و سلامتی کےلیے خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت میں انسانیت سسک رہی ہے لیکن اقوام متحدہ اور نام نہاد سپر پاورز بھارتی مظالم سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہیں۔


اقوام متحدہ کے فورم پر موجود مسئلہ کشمیر تاحال حل طلب ہے۔ گو کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ 5 اگست 2019 کوکشمیریوں پر ظلم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ آج اس سانحے کو بھی چار سال بیت چکے ہیں۔ بھارت آرٹیکل 370 اور شق 35 A کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں مسلمانوں کی شناخت ختم کرکے اس کو ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ بھارت نے اپنے مظالم ڈھانے کےلیے کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کرتے ہوئے کشمیری بچوں، بزرگوں، خواتین اور نوجوانوں کا استحصال کیا۔


کشمیری اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت جبراً کشمیر پر تسلط چاہتا ہے لیکن کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارت کے قبضہ سے اپنی وادی کی رہائی چاہتے ہیں، جس کی پاداش میں وہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔


کشمیریوں کے اس لاک ڈاؤن سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان نے بھی اس کے خلاف بہت آواز بلند کی۔ عالمی برادری کو پکارا، کشمیریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی۔ میڈیا اور دیگر ذرایع سے بھی عالمی برادری تک کشمیریوں کے خلاف انسانیت سوز بھارتی رویے کی خبریں پہنچتی رہیں، یہاں تک کہ خود بھارت کے اندر سے اس لاک ڈاؤن کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن دنیا کے تمام طاقت ور ممالک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں وغیرہ سبھی اس جانب سے نظریں چرائے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی رسمی سا بیان دے دیتے ہیں، جس سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔


جہاں بھارتی سامراج کے ظلم نے آگ بھڑکائے رکھی، وہیں کشمیری عوام کا جذبہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ہمت اور بہادری کے نشان، آج کشمیر کا ہر گھر محاذ جنگ کی کیفیت میں، ہر گلی میدان جنگ ہے۔ کشمیر کا ہر گھر شہیدوں کے خون سے روشن ہورہا ہے۔ کشمیری عوام بغیر کسی بیرونی مدد کے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے ارادے عظیم ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنے ہی خون میں ڈوب رہے ہیں اور کشمیر کی آزادی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ اگرچہ بھارتی قاتل طاقتیں کشمیر پر اپنے خونی پنجے گاڑ رہی ہیں، لیکن آزادی کشمیر کے ہر سانس سے ''کشمیر بنے گا پاکستان'' کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔


کشمیری عوام کےلیے صدیوں سے ہر لمحہ بھاری ہے۔ ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔ یہ عمل کیا ہے؟ نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، حوا زادیوں کی معصومیت کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے، کشمیروں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر آتش فشاں کی بارش کی جاتی ہے۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے مظالم کو شرما رہے ہیں، جانداروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے ہاتھ ہتھوڑوں سے توڑے جاتے ہیں، ناخن نکالے جاتے ہیں، اور ان کے سر اور داڑھی کے بال نوچ لیے جاتے ہیں۔


آج پاکستان کے ہر میڈیا پر ''یوم استحصال کشمیر'' کا چرچا ہوگا۔ روایتی بیانات بھی جاری کیے جائیں گے۔ لیکن آخر کب تک؟ کب تک صرف بیان بازی سے کام لیا جائے گا، کب تک روایتی مذمت کا سلسلہ جاری رہے گا؟ آخر کشمیر کے مسلمان بھارتی مظالم سے کب نجات حاصل کرپائیں گے؟ مسئلہ کشمیر کے حل کےلیے ہمیں پوری طرح متحرک اور فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانے کے بجائے اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں