سرکار پر لوگ لاپتہ کرنے کا الزام لگنا خطرناک ہے سپریم کورٹ
ہم اصل حقائق سامنے لانا چاہتے ہیں لیکن کوئی عدالت کواصل حقیقت بتانے کے لئے تیارنہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ
سپریم کورٹ نے لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ اگر سرکار پرلوگ لاپتہ کرنے کاالزام لگتا ہے تو یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے جوملک میں افراتفری پھیلنے کا سبب بن سکتاہے۔
جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے لاپتہ سلطان حسین سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوالطیف یوسفزئی نے رپورٹ پیش کی۔انھوں نے عدالت کوبتایا کہ یہ معاملہ انکوائری کمیشن میں زیرسماعت ہے۔عدالت نے انکوائری رپورٹ درخواست گزارکوفراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت10دن کے لئے ملتوی کر دی۔لاپتہ عثمان غنی اورعبدالرحمان سے متعلق عدالت کو بتایا گیا کہ یہ افرادفیصل آبادجیل میں ہیں،ان افرادکیخلاف4سے 5ایف آئی آردرج ہیں لیکن اس وقت وہ نقص امن کے تحت نظر بندہیں،نظر بندی 25مئی کو ختم ہوگی۔عدالت نے اس بارے میں معلومات لے کرمکمل رپور ٹ 8مئی تک پیش کرنے کی ہدایت کی۔لاپتہ عبدالمنان کیس میں عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ شخص 8ستمبر 2013سے لاپتہ ہے۔
اس نے ایک اور لاپتہ فرد مجاہداعظم طارق سے23ستمبرکوموبائل فون پر رابطہ کیا،موبائل ڈیٹا کے مطابق وہ لکی مروت کے علاقے میں تھاجبکہ عبدالمنان نے اس دوران پی ٹی سی ایل نمبر بھی استعمال کیا ، تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔عدالت نے جمعرات تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخوا کوہدایت کی کہ وہ اس ضمن میں پنجاب پولیس کومدد فراہم کریں۔این این آئی کے مطابق جسٹس جوادنے ریمارکس دیے کہ تحقیقات میں اداروں کے باہمی تعاون کا فقدان نظر آ رہا ہے، اگرکوئی شخص ریاست کیخلاف کام کرے تو کارروائی ہونی چاہیے۔ آن لائن کے مطابق فاضل بینچ نے ملک سے جرائم کے خاتمے کے لئے جاویداقبال کی درخواست پرسماعت 3ہفتوں کے لئے ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزارکو ہدایت کی ہے کہ اگلی سماعت پر تیاری کرکے دلائل پیش کریں بصورت دیگر درخواست خارج کردی جائے گی۔جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ موثر حکمت عملی اپنائے بغیر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہیں،اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سب نے رنجیت سنگھ کا قصہ سن رکھاہے کہ اس کے پاس 5ہزاریا5لاکھ درخواستیں آگئی تھیںاوروہ تلوار مارتاتھا جوعرضیاں میزپربچھ جاتی تھیں ان کی سماعت کرتاتھا باقی چھوڑ دیتا.
جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے لاپتہ سلطان حسین سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوالطیف یوسفزئی نے رپورٹ پیش کی۔انھوں نے عدالت کوبتایا کہ یہ معاملہ انکوائری کمیشن میں زیرسماعت ہے۔عدالت نے انکوائری رپورٹ درخواست گزارکوفراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت10دن کے لئے ملتوی کر دی۔لاپتہ عثمان غنی اورعبدالرحمان سے متعلق عدالت کو بتایا گیا کہ یہ افرادفیصل آبادجیل میں ہیں،ان افرادکیخلاف4سے 5ایف آئی آردرج ہیں لیکن اس وقت وہ نقص امن کے تحت نظر بندہیں،نظر بندی 25مئی کو ختم ہوگی۔عدالت نے اس بارے میں معلومات لے کرمکمل رپور ٹ 8مئی تک پیش کرنے کی ہدایت کی۔لاپتہ عبدالمنان کیس میں عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ شخص 8ستمبر 2013سے لاپتہ ہے۔
اس نے ایک اور لاپتہ فرد مجاہداعظم طارق سے23ستمبرکوموبائل فون پر رابطہ کیا،موبائل ڈیٹا کے مطابق وہ لکی مروت کے علاقے میں تھاجبکہ عبدالمنان نے اس دوران پی ٹی سی ایل نمبر بھی استعمال کیا ، تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔عدالت نے جمعرات تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخوا کوہدایت کی کہ وہ اس ضمن میں پنجاب پولیس کومدد فراہم کریں۔این این آئی کے مطابق جسٹس جوادنے ریمارکس دیے کہ تحقیقات میں اداروں کے باہمی تعاون کا فقدان نظر آ رہا ہے، اگرکوئی شخص ریاست کیخلاف کام کرے تو کارروائی ہونی چاہیے۔ آن لائن کے مطابق فاضل بینچ نے ملک سے جرائم کے خاتمے کے لئے جاویداقبال کی درخواست پرسماعت 3ہفتوں کے لئے ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزارکو ہدایت کی ہے کہ اگلی سماعت پر تیاری کرکے دلائل پیش کریں بصورت دیگر درخواست خارج کردی جائے گی۔جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ موثر حکمت عملی اپنائے بغیر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہیں،اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سب نے رنجیت سنگھ کا قصہ سن رکھاہے کہ اس کے پاس 5ہزاریا5لاکھ درخواستیں آگئی تھیںاوروہ تلوار مارتاتھا جوعرضیاں میزپربچھ جاتی تھیں ان کی سماعت کرتاتھا باقی چھوڑ دیتا.