یومِ استحصالِ کشمیر
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کشمیریوں کی حمایت پر کھڑا ہے
مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں غاصبانہ انضمام کو 4 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ 5 اگست کو بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ کشمیریوں نے اس دن کو یوم استحصال قرار دیا اور ہر سال اس دن پر بھارت کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔
اس بار بھی مقبوضہ کشمیر کے شہروں اور قصبوں میں یوم استحصال کے موقع پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں مظاہرین نے مودی سرکار سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں بھی کشمیریوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 کو منسوخ کردیے تھے۔ بھارت کے اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں شدید مظاہرے شروع ہو گئے، کشمیریوں کی تحریک آزادی تو پہلے سے جاری تھی لیکن اس اقدام کے بعد اس تحریک میں مزید شدت آ گئی اور مقبوضہ کشمیر کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں تک میں کشمیریوں نے مظاہرے کیے، ہڑتالیں کیں، گھیراؤ جلاؤ کیا، ادھر تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کے لیے مودی سرکار نے انتہائی سخت گیر پالیسی اختیار کی، ہزاروں کشمیریوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔
کشمیری بھارتی سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے، بھارتی حکومت نے ڈیڑھ سال تک مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریسورسز کو معطل کیے رکھا۔ کشمیریوں کے استحصال اور سیکیورٹی فورسز کے مظالم پر بھارت میں بھی غیرجانبدار سیاست دانوں اور دانشوروں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ ان کاکہنا تھا کہ مودی سرکار نے کشمیریوں کو دھوکا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کا خاتمہ کرنا، سیکولر ازم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تاریخ وزیراعظم نریندر مودی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے۔ اس تنظیم کا خمیر اکھنڈ بھارت سے اٹھا ہے۔ اکھنڈ کا مطلب اکٹھا ہونا یا ایک ہونا ہے۔ جب سے بھارت میں بی جے پی کو سیاسی عروج ملنا شروع ہوا اس وقت سے ہی اس پارٹی کے رہنماؤں کی یہ دلی خواہش اور پارٹی پالیسی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ میں بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مربوط کوششیں شروع کیں اور 5 اگست کو اسے عملی شکل دے دی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو سبوتاژ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر رَقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔ 58 فیصد رقبہ لداخ، 26 فیصد جموں اور 16 فیصد وادی کشمیر کا ہے جب کہ 55 فیصد آبادی مقبوضہ وادی کشمیر، 43 فیصد جموں اور لداخ میں 2 فیصد آبادی رہتی ہے۔
بھارتی حکومت کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کر نا ہے ۔ اسی لیے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021سے2026تک ملتوی کر رکھی ہے ۔ اسی عرصہ میں آبادی کے تناسب کی تیز تر کوششیں کی جائیں گی ۔ کشمیر کے مْسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکلز 370 اور 35-A غیر آئینی طریقے سے ختم کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے حالانکہ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4 کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے ۔
اس منصوبے پر بھارت کو اندرونی اور بیرونی مذمت کا سامنا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا تھا۔ نئے ڈومیسائل لاء کے تحت 4.2 ملین سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا ۔ لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جا ری ہے۔
گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا ۔ ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے ۔ اب ہزاروں باہر سے آئے مزدوربھی ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے ۔ لاکھوں مقامی کشمیریوں کو بے گھر اور بے زمین کرنے کا گھناؤنا منصوبہ جاری ہے۔
5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ایک طرف کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ حرکت میں آچکا ہے ۔ دوسری طرف شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستا ن میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 35-A کے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے ۔ سیکیورٹی فورسز کے لیے اب زمین حاصل کرنے کے لیے خصوصی سر ٹیفیکیٹ این او سی کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کو اسٹرٹیجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سیکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988 اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970 تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈز کو تعمیرات کی کْھلی ڈھیل دے دی ہے۔
بھارتی حکومت 2لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی خریدنے جا رہی ہے۔ اگست 2019 کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیر ی معیشت کو5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے۔ نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونک رچا کر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثر و رَسوخ کم کیا جا سکے۔ مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کْلگم کے اضلاع شامل ہوں گے۔
مقبوضہ کشمیر میں گجر قبائلی آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ آئے روز مسلم گجر اور بکروال گجر قبائل کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے، بھارتی سیکیورٹی فورسز ان قبائل کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک لاکھ سے زائد گجر بکروال قبائل پر معاشی اور معاشرتی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ہزاروں مسلم گجر بکروا ل خاندانوں کو ان کی چراگاہوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھیں بھارت کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے۔ بہرحال بی جے پی حکومت کے عزائم واضح ہیں۔
پاکستان کشمیریوں کی سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کشمیریوں کی حمایت پر کھڑا ہے۔ اقوام عالم بھی اس صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ ہیں جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ ان قراردادوں میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کرائے تاکہ عوام اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ نتیجے کا بھارتی پالیسی سازوں کو اچھی طرح پتا ہے، اس لیے پون صدی گزرنے کے باوجود بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائی۔ اس طویل عرصے میں بھارتی سرکار نے کشمیریوں کے دل جیتنے کی پوری کوشش کی لیکن اسے اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
بھارت کے پالیسی سازوں کو حقائق کے ساتھ لڑنا نہیں چاہیے۔ آزادی کی تحریکوں کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا۔ جیسے فلسطینیوں کی تحریک آج بھی جاری ہے اور اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود فلسطینیوں کی تحریک کو ختم کر سکا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی حمایت حاصل کر سکا ہے۔ بھارت کا بھی یہی المیہ ہے۔ بی جے پی کی انتہاپسند پالیسیاں بھارت کے عوام کے مفادات کے بھی خلاف ہیں۔ بھارت کا آئین اور کلچر سیکولر روایات پر استوار ہے۔
بی جے پی، ہندوتوا کی بنیاد پر جو سیاست کر رہی ہے، وہ بھارت کے حق میں نہیں ہے۔ بھارت میں کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں بی جے پی کی پالیسی اور نظریات کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کو جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب اسے راجستھان کے ریاستی انتخابات کا چیلنج درپیش ہے۔
اس بار بھی مقبوضہ کشمیر کے شہروں اور قصبوں میں یوم استحصال کے موقع پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں مظاہرین نے مودی سرکار سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں بھی کشمیریوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 کو منسوخ کردیے تھے۔ بھارت کے اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں شدید مظاہرے شروع ہو گئے، کشمیریوں کی تحریک آزادی تو پہلے سے جاری تھی لیکن اس اقدام کے بعد اس تحریک میں مزید شدت آ گئی اور مقبوضہ کشمیر کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں تک میں کشمیریوں نے مظاہرے کیے، ہڑتالیں کیں، گھیراؤ جلاؤ کیا، ادھر تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کے لیے مودی سرکار نے انتہائی سخت گیر پالیسی اختیار کی، ہزاروں کشمیریوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔
کشمیری بھارتی سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے، بھارتی حکومت نے ڈیڑھ سال تک مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریسورسز کو معطل کیے رکھا۔ کشمیریوں کے استحصال اور سیکیورٹی فورسز کے مظالم پر بھارت میں بھی غیرجانبدار سیاست دانوں اور دانشوروں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ ان کاکہنا تھا کہ مودی سرکار نے کشمیریوں کو دھوکا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کا خاتمہ کرنا، سیکولر ازم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تاریخ وزیراعظم نریندر مودی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے۔ اس تنظیم کا خمیر اکھنڈ بھارت سے اٹھا ہے۔ اکھنڈ کا مطلب اکٹھا ہونا یا ایک ہونا ہے۔ جب سے بھارت میں بی جے پی کو سیاسی عروج ملنا شروع ہوا اس وقت سے ہی اس پارٹی کے رہنماؤں کی یہ دلی خواہش اور پارٹی پالیسی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ میں بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مربوط کوششیں شروع کیں اور 5 اگست کو اسے عملی شکل دے دی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو سبوتاژ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر رَقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔ 58 فیصد رقبہ لداخ، 26 فیصد جموں اور 16 فیصد وادی کشمیر کا ہے جب کہ 55 فیصد آبادی مقبوضہ وادی کشمیر، 43 فیصد جموں اور لداخ میں 2 فیصد آبادی رہتی ہے۔
بھارتی حکومت کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کر نا ہے ۔ اسی لیے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021سے2026تک ملتوی کر رکھی ہے ۔ اسی عرصہ میں آبادی کے تناسب کی تیز تر کوششیں کی جائیں گی ۔ کشمیر کے مْسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکلز 370 اور 35-A غیر آئینی طریقے سے ختم کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے حالانکہ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4 کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے ۔
اس منصوبے پر بھارت کو اندرونی اور بیرونی مذمت کا سامنا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا تھا۔ نئے ڈومیسائل لاء کے تحت 4.2 ملین سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا ۔ لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جا ری ہے۔
گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا ۔ ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے ۔ اب ہزاروں باہر سے آئے مزدوربھی ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے ۔ لاکھوں مقامی کشمیریوں کو بے گھر اور بے زمین کرنے کا گھناؤنا منصوبہ جاری ہے۔
5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ایک طرف کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ حرکت میں آچکا ہے ۔ دوسری طرف شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستا ن میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 35-A کے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے ۔ سیکیورٹی فورسز کے لیے اب زمین حاصل کرنے کے لیے خصوصی سر ٹیفیکیٹ این او سی کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کو اسٹرٹیجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سیکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988 اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970 تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈز کو تعمیرات کی کْھلی ڈھیل دے دی ہے۔
بھارتی حکومت 2لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی خریدنے جا رہی ہے۔ اگست 2019 کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیر ی معیشت کو5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے۔ نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونک رچا کر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثر و رَسوخ کم کیا جا سکے۔ مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کْلگم کے اضلاع شامل ہوں گے۔
مقبوضہ کشمیر میں گجر قبائلی آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ آئے روز مسلم گجر اور بکروال گجر قبائل کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے، بھارتی سیکیورٹی فورسز ان قبائل کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک لاکھ سے زائد گجر بکروال قبائل پر معاشی اور معاشرتی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ہزاروں مسلم گجر بکروا ل خاندانوں کو ان کی چراگاہوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھیں بھارت کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے۔ بہرحال بی جے پی حکومت کے عزائم واضح ہیں۔
پاکستان کشمیریوں کی سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کشمیریوں کی حمایت پر کھڑا ہے۔ اقوام عالم بھی اس صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ ہیں جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ ان قراردادوں میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کرائے تاکہ عوام اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ نتیجے کا بھارتی پالیسی سازوں کو اچھی طرح پتا ہے، اس لیے پون صدی گزرنے کے باوجود بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائی۔ اس طویل عرصے میں بھارتی سرکار نے کشمیریوں کے دل جیتنے کی پوری کوشش کی لیکن اسے اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
بھارت کے پالیسی سازوں کو حقائق کے ساتھ لڑنا نہیں چاہیے۔ آزادی کی تحریکوں کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا۔ جیسے فلسطینیوں کی تحریک آج بھی جاری ہے اور اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود فلسطینیوں کی تحریک کو ختم کر سکا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی حمایت حاصل کر سکا ہے۔ بھارت کا بھی یہی المیہ ہے۔ بی جے پی کی انتہاپسند پالیسیاں بھارت کے عوام کے مفادات کے بھی خلاف ہیں۔ بھارت کا آئین اور کلچر سیکولر روایات پر استوار ہے۔
بی جے پی، ہندوتوا کی بنیاد پر جو سیاست کر رہی ہے، وہ بھارت کے حق میں نہیں ہے۔ بھارت میں کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں بی جے پی کی پالیسی اور نظریات کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کو جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب اسے راجستھان کے ریاستی انتخابات کا چیلنج درپیش ہے۔