کیا انتخابات وقت پر ہوسکیں گے
تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اب چیئرمین پی ٹی آئی بھی انتخابات میں فوری طور پر حصہ لینے کے لیے تیار نہیں
2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور پانچ سال کی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعد یہ 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے تحلیل ہوجائے گی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اگر اسمبلیاں 12 اگست تک تحلیل ہوتی ہیں تو 11 اکتوبر تک الیکشن کرا دیے جائیں گے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت دبئی میں انتخابات کی تاریخ، عبوری وزیر اعظم اور کابینہ سمیت بہت سی باتوں پر اتفاق کرچکی ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی دو جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے صدر سردار اختر مینگل نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم پرانی مردم شماری پر انتخابات قبول نہیں کریں گے، ان کا مطالبہ ہے کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں۔ ان کا پرانی حلقہ بندیوں کے بارے میں اعتراض ہے کہ کراچی میں لسانی بنیاد پر تفریق پیدا کی گئی ہے، لہٰذا الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کو ٹھیک کیا جائے۔ ایم کیوایم چاہتی ہے کہ انتخابات میں اگر چند ہفتے یا ایک دو ماہ کی تاخیر ہوتی ہے تو ہوجائے لیکن الیکشن شفاف ہو، نئی مردم شماری، نئی حلقہ بندیوں اور نئی ووٹر لسٹوں پر ہو۔
ایم کیو ایم کے سینئر قانون دان اس حوالے ایک پٹیشن پر بھی کام کر رہے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن نے پرانی مردم شماری پر انتخابات کرنے کا اعلان کیا تو وہ عدالتوں سے نہ صرف رجوع کریں گے بلکہ انتخابات کو کچھ ماہ ملتوی کرنے کی بھی درخواست کریں گے۔ مسلم لیگ کی کوشش ہے کہ انتخابات سے قبل نواز شریف کو موجودہ عدلیہ سے ریلیف مل جائے اور وہ پاکستان واپس آجائیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر نومبر یا دسمبر تک انتخابات کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اس صورت میں ایم کیو ایم کی درخواست کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
پاکستان کی سیاست میں کوئی چیز ناممکن بھی نہیں ہے بعض اوقات ایسے واقعات ہوجاتے ہیں کہ عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے لیکن 9 مئی کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد جس طرح اپنے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ بنایا اُس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ضرور ہوا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے پیروکاروں اور ہمدردوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب انھیں گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے بعد پیش آنیوالے 9 مئی کے واقعات نے صورتحال کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی جن کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا تھا ایک قومی سانحہ کے نتیجہ میں نہ صرف تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ ان کے ساتھ سائے کی طرح چلنے والے بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔چیئرمین پی ٹی آئی تنہائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، لاکھ کوشش کے باوجود وہ بحرانوں سے نکل نہیں پا رہے بلکہ اب توشہ خانہ کیس میں ان کی گرفتاری سے ان کے گرد دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔
مقدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا انھیں سامنا ہے۔ خاص طور پر90ملین پونڈ کیس، 9 مئی کیس، سائفر کیس، فارن فنڈنگ کیس ایسے پھندے ہیں جس میں سے کوئی بھی پھندہ ان کے گلے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ان مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی ہوسکتی۔ اس کے لیے ایم کیو ایم کی پٹیشن کافی کارآمد ثابت ہوگی۔ مسلم لیگ نواز شریف کے وطن واپسی کے بعد ہی الیکشن مہم چلانا چاہتی ہے یہ تب ہی ممکن ہوگا جب عدالت سے انھیں انصاف ملے گا۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں تواتر کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا ٹوٹنا اور اس میں سے نئی جماعت کا تخلیق ہونا اب کوئی نہیں بات نہیں رہی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کو توڑنے اور اس میں سے نئی جماعتیں تخلیق کرنے کا کام ہوتا رہا ہے۔ تحریک انصاف بھی روایتی انداز میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنیوالے مرکزی قائدین نے اپنی اپنی علیحدہ جماعتیں بنالی ہیں، جس طرح تین ماہ میں تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرا اور وفاداری تبدیل کرنے کی انمول مثالیں سامنے آئی ہیں۔
جہانگیر خان ترین، جن کی خدمات 2018کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سازی کے لیے بڑی نمایاں رہی تھی۔ آج کے سیاسی منظر نامے میں ان کی اہمیت پہلے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
جہانگیر خان ترین نے 9 مئی کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں سیاسی رابطوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور چند ہفتوں میں بعد انھوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنیوالے پنجاب کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر '' استحکام پاکستان پارٹی '' کی بنیاد رکھی، جب کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کیسابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، تحریک انصاف پارلیمینٹیرین کا نام سے نئی جماعت کا اعلان کرچکے ہیں، یہاں یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ انتخابات سے چند ماہ پہلے جنم لینے والی سیاسی جماعتیں کیا پی ٹی آئی کے لیے ہی چیلنج ثابت ہو گی؟ کیا وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو تقسیم کرسکیں گی۔
جہانگیر خان ترین اور پرویز خٹک بھی یہ چاہتے ہیں کہ انھیں میدان میں قدم جمانے کے لیے کچھ وقت مل جائے وہ بھی چاہیں گے کہ انتخابات کچھ عرصے بعد ہوں۔
دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی سے جڑے ہوئے ان کے قریبی ساتھی روپوش ہیں یا پھر کیسی مقدمے میں عدالتوں کو مطلوب ہیں، اس صورتحال میں اگر انتخابات ہوتے ہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل نہیں کیا جاتا تب بھی تحریک انصاف کا انتخابات میں الیکشن لڑنا بہت مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر کھڑے ہوں کیونکہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایکشن لڑانا اور کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا یا پھر چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اب چیئرمین پی ٹی آئی بھی انتخابات میں فوری طور پر حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی سیاستدان ایسی انتخابی مہم میں کروڑوں روپے کیوں خرچ کرے گا جہاں شکست یقینی نظر آرہی ہو۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اگر اسمبلیاں 12 اگست تک تحلیل ہوتی ہیں تو 11 اکتوبر تک الیکشن کرا دیے جائیں گے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت دبئی میں انتخابات کی تاریخ، عبوری وزیر اعظم اور کابینہ سمیت بہت سی باتوں پر اتفاق کرچکی ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی دو جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے صدر سردار اختر مینگل نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم پرانی مردم شماری پر انتخابات قبول نہیں کریں گے، ان کا مطالبہ ہے کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں۔ ان کا پرانی حلقہ بندیوں کے بارے میں اعتراض ہے کہ کراچی میں لسانی بنیاد پر تفریق پیدا کی گئی ہے، لہٰذا الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کو ٹھیک کیا جائے۔ ایم کیوایم چاہتی ہے کہ انتخابات میں اگر چند ہفتے یا ایک دو ماہ کی تاخیر ہوتی ہے تو ہوجائے لیکن الیکشن شفاف ہو، نئی مردم شماری، نئی حلقہ بندیوں اور نئی ووٹر لسٹوں پر ہو۔
ایم کیو ایم کے سینئر قانون دان اس حوالے ایک پٹیشن پر بھی کام کر رہے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن نے پرانی مردم شماری پر انتخابات کرنے کا اعلان کیا تو وہ عدالتوں سے نہ صرف رجوع کریں گے بلکہ انتخابات کو کچھ ماہ ملتوی کرنے کی بھی درخواست کریں گے۔ مسلم لیگ کی کوشش ہے کہ انتخابات سے قبل نواز شریف کو موجودہ عدلیہ سے ریلیف مل جائے اور وہ پاکستان واپس آجائیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر نومبر یا دسمبر تک انتخابات کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اس صورت میں ایم کیو ایم کی درخواست کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
پاکستان کی سیاست میں کوئی چیز ناممکن بھی نہیں ہے بعض اوقات ایسے واقعات ہوجاتے ہیں کہ عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے لیکن 9 مئی کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد جس طرح اپنے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ بنایا اُس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ضرور ہوا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے پیروکاروں اور ہمدردوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب انھیں گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے بعد پیش آنیوالے 9 مئی کے واقعات نے صورتحال کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی جن کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا تھا ایک قومی سانحہ کے نتیجہ میں نہ صرف تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ ان کے ساتھ سائے کی طرح چلنے والے بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔چیئرمین پی ٹی آئی تنہائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، لاکھ کوشش کے باوجود وہ بحرانوں سے نکل نہیں پا رہے بلکہ اب توشہ خانہ کیس میں ان کی گرفتاری سے ان کے گرد دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔
مقدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا انھیں سامنا ہے۔ خاص طور پر90ملین پونڈ کیس، 9 مئی کیس، سائفر کیس، فارن فنڈنگ کیس ایسے پھندے ہیں جس میں سے کوئی بھی پھندہ ان کے گلے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ان مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی ہوسکتی۔ اس کے لیے ایم کیو ایم کی پٹیشن کافی کارآمد ثابت ہوگی۔ مسلم لیگ نواز شریف کے وطن واپسی کے بعد ہی الیکشن مہم چلانا چاہتی ہے یہ تب ہی ممکن ہوگا جب عدالت سے انھیں انصاف ملے گا۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں تواتر کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا ٹوٹنا اور اس میں سے نئی جماعت کا تخلیق ہونا اب کوئی نہیں بات نہیں رہی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کو توڑنے اور اس میں سے نئی جماعتیں تخلیق کرنے کا کام ہوتا رہا ہے۔ تحریک انصاف بھی روایتی انداز میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنیوالے مرکزی قائدین نے اپنی اپنی علیحدہ جماعتیں بنالی ہیں، جس طرح تین ماہ میں تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرا اور وفاداری تبدیل کرنے کی انمول مثالیں سامنے آئی ہیں۔
جہانگیر خان ترین، جن کی خدمات 2018کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سازی کے لیے بڑی نمایاں رہی تھی۔ آج کے سیاسی منظر نامے میں ان کی اہمیت پہلے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
جہانگیر خان ترین نے 9 مئی کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں سیاسی رابطوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور چند ہفتوں میں بعد انھوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنیوالے پنجاب کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر '' استحکام پاکستان پارٹی '' کی بنیاد رکھی، جب کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کیسابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، تحریک انصاف پارلیمینٹیرین کا نام سے نئی جماعت کا اعلان کرچکے ہیں، یہاں یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ انتخابات سے چند ماہ پہلے جنم لینے والی سیاسی جماعتیں کیا پی ٹی آئی کے لیے ہی چیلنج ثابت ہو گی؟ کیا وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو تقسیم کرسکیں گی۔
جہانگیر خان ترین اور پرویز خٹک بھی یہ چاہتے ہیں کہ انھیں میدان میں قدم جمانے کے لیے کچھ وقت مل جائے وہ بھی چاہیں گے کہ انتخابات کچھ عرصے بعد ہوں۔
دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی سے جڑے ہوئے ان کے قریبی ساتھی روپوش ہیں یا پھر کیسی مقدمے میں عدالتوں کو مطلوب ہیں، اس صورتحال میں اگر انتخابات ہوتے ہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل نہیں کیا جاتا تب بھی تحریک انصاف کا انتخابات میں الیکشن لڑنا بہت مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر کھڑے ہوں کیونکہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایکشن لڑانا اور کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا یا پھر چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اب چیئرمین پی ٹی آئی بھی انتخابات میں فوری طور پر حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی سیاستدان ایسی انتخابی مہم میں کروڑوں روپے کیوں خرچ کرے گا جہاں شکست یقینی نظر آرہی ہو۔