بہتی گنگا

سیاسی سوچ یہ ہو کہ ہم پی ڈی ایم کا صرف حصہ ہیں اور ہمارا ان سے اتحاد ہے ہمارا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے

meemsheenkhay@gmail.com

میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے کالم میں نہ صرف عوامی مسائل کا تذکرہ کروں بلکہ حکام بالا کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروںتاکہ مسائل کا پائیدار اور مستقبل بنیادوں پر حل بھی نکلے۔ان گنت مسائل ہیں ، کن کن کا ذکر کیا جائے؟ پاکستان متواتر IMF سے قرضہ تو لے رہا ہے مگر وہ قرضہ کہاں لگ رہا ہے ؟یہ بات عوام سے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔

ہماری وفاقی کابینہ دنیا کی بڑی کابینہ میں شمار ہوتی ہے مگر یہ عوام کے لیے کیا کر رہی ہے یہ تو خود کابینہ کو بھی نہیں پتا اس لیے کہ وہ کچھ کر ہی نہیں رہے ۔ بھلا بتائیں سرکاری گاڑیاں اس ملک میں مفت پٹرول استعمال کرتی ہیں، جو نیک اور رحم دل ایم این اے ہیں وہ اسمبلی میں تقاریرکر رہے ہیں کہ آپ کابینہ کی مراعات ختم کریں وہ قوم سے مخلص ہیں جب کہ مراعات تو انھیں بھی مل رہی ہیں۔

سینیٹر مشتاق احمد خان جو عوام کی آواز اسمبلی میں اٹھاتے ہیں ،سائرہ بانو بھی عوام کی بات کرتی ہیں جب یہ دونوں افراد اسمبلی میں آواز اٹھاتے ہیں تو حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ممبران آپس میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں موبائل کھول کر انٹرنیٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں میں نام نہیں لکھ رہا چہرے آپ کو بھی نظر آتے ہیں، کتنے بے حس ہیں یہ لوگ انھیں قوم کی تکلیف کا احساس ہی نہیں ہے۔

وفاقی وزیر خواجہ آصف کہہ رہے تھے کہ ''پروٹوکول نہ لیں، لوگ دیکھتے ہیں تو برا بھلا کہتے ہیں اگر آپ پروٹوکول نہیں چھوڑ سکتے تو عہدے چھوڑ دیں اگر جان کا اتنا ہی خوف ہے تو سیاست چھوڑ دیں کوئی اور کام کریں یا پھر پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ رکھ لیں۔'' یہ بات انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے مراعات بل کے موقع پر کہی، خواجہ آصف صاحب آپ اپوزیشن میں نہیں ہیں برسر اقتدار پارٹی کے وفاقی وزیر ہیں آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس کام کا آغاز آپ قومی اسمبلی سے کیجیے تاکہ لوگ آپ کی بات کا خیر مقدم کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزرا غیر ضروری پروٹوکول لینے سے گریز کریں جناب عالی! آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ اس نیک مقصد کے لیے ثابت قدم ہو کر اس کا آغاز کیجیے تاکہ تاریخ میں آپ کا نام سنہری الفاظ میں لکھا جائے اب تو عوام کی آواز کے لیے قومی اسمبلی کے ممبران سینیٹ کے ممبران تک آواز اٹھاتے ہیں۔

آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں عملی طور پر کچھ کرکے دکھائیں تاکہ آپ کی بات کا وزن ہو سیاسی حضرات جب یورپ اور لندن کا دورہ کرتے ہیں تو انٹرنیٹ پر لوگ آپ حضرات کو بغیر پروٹوکول کے دیکھتے ہیں تو پھر انھیں پاکستان یاد آتا ہے کہ کتنی خوبیوں کا مالک ہے ہمارا پاکستان ہمارا وطن تو معصوم وطن ہے کہ سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں کیا خوب شاعر نے کہا ہے:

اپنے زخموں کو زبان اپنی بناؤں کیسے


فاصلہ درد کا اب اور گھٹاؤں کیسے

باخبر ذرایع بتا رہے ہیں کہ فلم کی تیاری کے لیے مالی مراعات کا اعلان بھی سننے میں آ رہا ہے پہلی بات تو یہ کہ آپ تعلیم کی طرف توجہ دیں بچہ ہونہار اور قابل ہوگا تو پاکستان کی جڑوں میں اپنی قابلیت کے ناتے ترقی کی سیڑھیاں طے کرے گا، فلم سے بہتر ہے کہ نوجوانوں کے لیے تعلیم کے حوالے سے مثبت فیصلے کیے جائیں اس قوم کو فلموں کی ضرورت نہیں ہے جس کی 35000 ہزار تنخواہ ہے وہ کرایہ دے گا، گھر کے اخراجات دیکھے گا، بچوں کے مستقبل کے لیے سوچے گا، ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد وہ اپنی بیوی اور بچوں کو کیسے سینما گھر لے کر جا سکتا ہے کہ ایک فرد کا ٹکٹ کم ازکم ایک ہزار سے پندرہ سو روپے۔

ان سیاسی حضرات کے تو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی ہاں قارئین سمجھ گئے ہوں گے اور اگر آپ کو فلموں پر ہی توجہ دینی ہے بامقصد اور کسی تاریخی پس منظر پر فلم بنائیں جو ناممکن ہے کہ پروڈیوسر اس پس منظر کو دیکھ کر ویسے ہی مایوسی کے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لے گا اور پھر مقصد فوت ہو جائے گا اب رہا معاملہ کہانی کا کہ فلم کی کہانی کیا ہو تو پھر معاف کیجیے گا بزنس کے لحاظ سے تو صرف یہ موضوع ہی چراغ و چشم ہیں کسی بھی جوڑے کی روایتی محبت لڑکے اور لڑکی کا گھروں سے بھاگنا جب کہ ہمارے معاشرے کا یہ کلچرل ہی نہیں ہے اور ہماری حقیقی زندگی کا اس سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔

ہاں اگر آپ فلم بنانا چاہتے ہیں تو تاریخ پر بنائیں معاشرے کی برائیوں پر بنائیں پاکستان کی تہذیب پر بنائیں جب کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کو بہت ہی باریک بینی سے بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ مصنف ہدایت کاروں اور اداکاروں کو قربانی دینی پڑے گی مثبت فلم بنانے کے جب ان شرائط کے تحت فلم بنائی جائے گی تو فلم ساز تو ویسے ہی میدان سے بھاگ جائے گا کیونکہ وہ ڈیڑھ کروڑ لگا کر 80 لاکھ وصول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے اور اس ڈیڑھ کروڑ کی فلم میں بھی سپر اسٹار نہیں ہوں گے لوگ سپر اسٹار کو دیکھنے آتے ہیں لہٰذا درخواست ہے کہ اس ملک میں تعلیم کا نظام خوبصورتی سے رائج کیا جائے جنھوں نے آج سے 30 سال پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی وہی اب ملک چلا رہے ہیں اور ریٹائرڈ ہو کر گھروں کو جا رہے ہیں۔

سیاسی حضرات کے بچے تو اعلیٰ تعلیم غیر ممالک میں لیتے ہیں اور کم عمری میں اچھی وزارتوں سے منسلک ہو جاتے ہیں جب کہ غریب کا بچہ تو آج بھی ٹھیلے پر انگور بیچ رہا ہے یہ کیسا انصاف ہے؟ خدارا ملک کی ترقی کے لیے سب کو ذمے داری محسوس کرنی ہوگی یا پھر غریب کو چاہیے کہ وہ آرزوؤں کا دروازے بند کرکے گہری نیند سو جائے کہ نوجوان نسل کے مستقبل کے لیے کچھ نہیں ہو رہا لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کا انتظار رہتا ہے اور سیاسی حضرات کو پانچ سال کے بعد الیکشن کا انتظار رہتا ہے، یہ کہانی ہے اس قوم کی۔

مزے کی بات دیکھیں کہ وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا کہ غریب مہنگائی سے پٹ چکا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارے اختیارات تو اس ملک کی زمین پر آپ کے ہیں، یہ رب کی عنایت ہے کہ ان حالات میں بھی ملک چل رہا ہے مگر رب نے اختیار تو انسان کو بھی دیا ہے، محترم وزیر اعظم آپ اس اختیار کو استعمال کریں مہنگائی ہے نہیں خودساختہ کی گئی ہے، اس پر کیوں نہیں کنٹرول کیا جاتا مگر جب سیاسی سوچ یہ ہو کہ ہم پی ڈی ایم کا صرف حصہ ہیں اور ہمارا ان سے اتحاد ہے ہمارا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کتنی عجیب بات ہے قوم ان کی باتوں سے مایوسی کی دلدل میں دھنس گئی ہے اور یہ بات کہنے والوں کے لواحقین وزارتوں سے منسلک ہیں آنے والا الیکشن بہت سخت ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے آپ یوٹیوب تو دیکھتے ہوں گے کوئی تعریفی جملہ سننے کو ملتا ہے آخر میں تو یہ جملہ کہہ کر بات ختم کروں گا کہ رب رحم کرے اس ملک پر۔
Load Next Story