موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان
موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امیر ممالک کی طرف سے اعلان کردہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے
پاکستان کا شمار جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء میں تقریبا 80 کروڑ افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
خدشہ ہے کہ 2050 تک جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے، جب کہ اس دوران خطے کا سالانہ خسارہ 160 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کو صرف موسمیاتی بدلائو کا ہی سامنا نہیں بلکہ فوڈ سیکیورٹی، پانی کی قلت، گلیشیئرز کے پگھلائو سے جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی بلاشبہ پاکستان کے لیے قومی سلامتی کا چیلنج بن چکی ہے۔
ماضی میں دہشتگردی، اندرونی وبیرونی سازشی عنصر اور سرحدی تناؤ جیسے مسائل کو قومی سلامتی کے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ داخلی سیاسی محاذ پر بھی بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کرپشن جیسے مسائل کو ہی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے، مگر کیا اب ترجیحات میں کوئی فرق آئے گا؟ گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے۔
پاکستان کو اس سیلاب سے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالرکا معاشی نقصان ہوا اور 8 ملین لوگ بے گھر ہوئے اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین سیلاب کی تباہی سے تباہ ہوئی۔ ماحولیاتی تبدیلی صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ ایک گلوبل چیلنج بن چکی ہے۔ امریکی حکومت نے بھی اس سال موسمیاتی تبدیلی کو مستقبل کی قومی سلامتی حکمت عملی کا حصہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ پینٹاگون 2010 کے بعد سے یہ تسلیم کرتا آیا ہے کہ فوج کے کام، اس کے اڈوں اور مشنزکو موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان میں بھی موسمیاتی اور ماحولیاتی بدلائو سے ہمیں کثیر الجہتی چیلنجزکا سامنا ہے۔ ایک طرف گرمی میں اضافے سے گلیشیئرز کے پگھلائو میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس سے پاکستان کو غیر متوقع سیلاب، فلیش فلڈنگ کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر متوقع لینڈ سلائیڈنگ سے 250 سے زائد دیہات صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیزی سے پگھلتے ہمالیائی گلیشیئرز کی وجہ سے 2012کے سیاچن گلیشیئرزکے گیاری سیکٹر اور 2010کے عطا آباد جھیل کی خشکی جیسے واقعات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
مستقبل میں ہمارے بری، بحری اڈے اور بندرگاہیں سمندر کی بلند ہوتی سطح سے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں سندھ کے ڈیلٹائی علاقے میں 17 نہریں بہتی تھیں، جن کے ذریعے تقریبا 150 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا تھا۔ بارشوں کی کمی کے باعث کوٹری سے نیچے دریائے سندھ کا بہاؤ اب نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے ہر برس لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سب سے زیادہ نقل مکانی اسی سمندری پٹی سے ہوئی ہے۔ اب تک صرف سندھ کی کوسٹل بیلٹ سے منسلک ہزاروں ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔
اِس وقت بھی پاکستان اور بھارت کو سخت مون سون کا سامنا ہے، بھارت میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے، اِس نے لاکھوں کیوسک پانی پاکستان آنیوالے دریاؤں میں چھوڑ دیا ہے جس کے بعد ملک میں مختلف مقامات پر سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔ ابھی مون سون کا آغاز ہے لیکن نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پہلے ہی شدید بارشوں، گلیشیئرز پگھلنے اور دریاؤں میں سیلاب آنے سے شدید نقصان کے خدشے کا اظہار کر چکی ہے۔ پاکستان کو اس وقت پہلے ہی سیاسی اور معاشی استحکام کا سامنا ہے، ان حالات میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونیوالے سماجی اور معاشی نقصان کا سامنا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونیوالے خطرات کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ آئی ایم ایف کو جمع کروائی گئی، ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان اس سال موسمیاتی تبدیلی، زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر صرف 30 ارب روپے خرچ کریگا، جب کہ گزشتہ سال سیلاب سے پاکستان میں ہونیوالے معاشی نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کیمطابق موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی نظر آنے لگے۔
سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی سے آنیوالی تباہی کی وجہ سے اگلے سال پاکستان کی معاشی شرح نمو سست رہے گی اور مہنگائی میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ پاکستان نے صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ارب ڈالرکی زرعی اجناس بیرون ممالک سے امپورٹ کی ہیں یعنی فوڈ اور اکنامک سیکیورٹی اس وقت باہم مربوط ہو چکے ہیں۔ صرف اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی زراعت پر مرتب ہونیوالے اثرات کی پاکستان کی معیشت کو کتنی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے؟
عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں 8 واں نمبر ہے۔ یعنی گلوبل وارمنگ، گلیشیٔز کے پگھلائو، غیر متوقع بارشوں، سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونیوالے جن اثرات کا سامنا ہم کر رہے ہیں اس کا ذمے دار پاکستان نہیں بلکہ امریکا، چین، روس، جاپان اور بھارت جیسے ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بلائی گئی ''کاپ72 کانفرنس'' میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے عالمی امداد فنڈ قائم کیا گیا لیکن یہ فنڈ شاید موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی سماجی اور معاشی تباہی کا مداوا نہ کر سکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امیر ممالک کی طرف سے اعلان کردہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار پاکستان جیسے ممالک کو دیگر چھوٹے ممالک کو ساتھ ملا کر بین الاقوامی سطح پر صنعتی ممالک سے امداد کا نہیں بلکہ سماجی انصاف کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے۔
خدشہ ہے کہ 2050 تک جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے، جب کہ اس دوران خطے کا سالانہ خسارہ 160 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کو صرف موسمیاتی بدلائو کا ہی سامنا نہیں بلکہ فوڈ سیکیورٹی، پانی کی قلت، گلیشیئرز کے پگھلائو سے جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی بلاشبہ پاکستان کے لیے قومی سلامتی کا چیلنج بن چکی ہے۔
ماضی میں دہشتگردی، اندرونی وبیرونی سازشی عنصر اور سرحدی تناؤ جیسے مسائل کو قومی سلامتی کے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ داخلی سیاسی محاذ پر بھی بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کرپشن جیسے مسائل کو ہی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے، مگر کیا اب ترجیحات میں کوئی فرق آئے گا؟ گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے۔
پاکستان کو اس سیلاب سے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالرکا معاشی نقصان ہوا اور 8 ملین لوگ بے گھر ہوئے اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین سیلاب کی تباہی سے تباہ ہوئی۔ ماحولیاتی تبدیلی صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ ایک گلوبل چیلنج بن چکی ہے۔ امریکی حکومت نے بھی اس سال موسمیاتی تبدیلی کو مستقبل کی قومی سلامتی حکمت عملی کا حصہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ پینٹاگون 2010 کے بعد سے یہ تسلیم کرتا آیا ہے کہ فوج کے کام، اس کے اڈوں اور مشنزکو موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان میں بھی موسمیاتی اور ماحولیاتی بدلائو سے ہمیں کثیر الجہتی چیلنجزکا سامنا ہے۔ ایک طرف گرمی میں اضافے سے گلیشیئرز کے پگھلائو میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس سے پاکستان کو غیر متوقع سیلاب، فلیش فلڈنگ کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر متوقع لینڈ سلائیڈنگ سے 250 سے زائد دیہات صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیزی سے پگھلتے ہمالیائی گلیشیئرز کی وجہ سے 2012کے سیاچن گلیشیئرزکے گیاری سیکٹر اور 2010کے عطا آباد جھیل کی خشکی جیسے واقعات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
مستقبل میں ہمارے بری، بحری اڈے اور بندرگاہیں سمندر کی بلند ہوتی سطح سے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں سندھ کے ڈیلٹائی علاقے میں 17 نہریں بہتی تھیں، جن کے ذریعے تقریبا 150 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا تھا۔ بارشوں کی کمی کے باعث کوٹری سے نیچے دریائے سندھ کا بہاؤ اب نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے ہر برس لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سب سے زیادہ نقل مکانی اسی سمندری پٹی سے ہوئی ہے۔ اب تک صرف سندھ کی کوسٹل بیلٹ سے منسلک ہزاروں ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔
اِس وقت بھی پاکستان اور بھارت کو سخت مون سون کا سامنا ہے، بھارت میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے، اِس نے لاکھوں کیوسک پانی پاکستان آنیوالے دریاؤں میں چھوڑ دیا ہے جس کے بعد ملک میں مختلف مقامات پر سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔ ابھی مون سون کا آغاز ہے لیکن نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پہلے ہی شدید بارشوں، گلیشیئرز پگھلنے اور دریاؤں میں سیلاب آنے سے شدید نقصان کے خدشے کا اظہار کر چکی ہے۔ پاکستان کو اس وقت پہلے ہی سیاسی اور معاشی استحکام کا سامنا ہے، ان حالات میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونیوالے سماجی اور معاشی نقصان کا سامنا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونیوالے خطرات کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ آئی ایم ایف کو جمع کروائی گئی، ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان اس سال موسمیاتی تبدیلی، زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر صرف 30 ارب روپے خرچ کریگا، جب کہ گزشتہ سال سیلاب سے پاکستان میں ہونیوالے معاشی نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کیمطابق موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی نظر آنے لگے۔
سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی سے آنیوالی تباہی کی وجہ سے اگلے سال پاکستان کی معاشی شرح نمو سست رہے گی اور مہنگائی میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ پاکستان نے صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ارب ڈالرکی زرعی اجناس بیرون ممالک سے امپورٹ کی ہیں یعنی فوڈ اور اکنامک سیکیورٹی اس وقت باہم مربوط ہو چکے ہیں۔ صرف اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی زراعت پر مرتب ہونیوالے اثرات کی پاکستان کی معیشت کو کتنی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے؟
عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں 8 واں نمبر ہے۔ یعنی گلوبل وارمنگ، گلیشیٔز کے پگھلائو، غیر متوقع بارشوں، سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونیوالے جن اثرات کا سامنا ہم کر رہے ہیں اس کا ذمے دار پاکستان نہیں بلکہ امریکا، چین، روس، جاپان اور بھارت جیسے ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بلائی گئی ''کاپ72 کانفرنس'' میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے عالمی امداد فنڈ قائم کیا گیا لیکن یہ فنڈ شاید موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی سماجی اور معاشی تباہی کا مداوا نہ کر سکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امیر ممالک کی طرف سے اعلان کردہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار پاکستان جیسے ممالک کو دیگر چھوٹے ممالک کو ساتھ ملا کر بین الاقوامی سطح پر صنعتی ممالک سے امداد کا نہیں بلکہ سماجی انصاف کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے۔