غریب عوام اور محنت کشوں کے پیسوں پر عیاشیاں

غریب عوام کے ٹیکسوں پر چلنے والی حکومتیں کتنی عیش پسند زندگی گزار رہی ہیں


Manzoor Razi August 06, 2023

آج ہمارا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ تین ارب ڈالر کا قرضہ ملنے کے بعد ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے مگر مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر بجلی، گیس سمیت دیگر تمام ضروری اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے کم ازکم 12 کروڑ عوام کی تو کمر توڑ دی ہے تو دوسری طرف ہماری حکومت کی شاہ خرچیوں سمیت سب سے بری فوج ظفر موج کی کابینہ کے وزیروں، مشیروں اور بیورو کریٹ افسر شاہی کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جو ہم دیکھ اور پڑھ رہے ہیں کہ حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کے پاس غریب عوام کے پیسوں سے خریدی گئی 9 ہزار لگژری گاڑیاں، 220 ارب روپے کا مفت پٹرول، 550 ارب روپے کی مفت بجلی اور ان وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج نہ صرف مرکزی حکومت اسلام آباد بلکہ پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان سمیت گلگت بلتستان کی حکومت پر خرچ ہونے والی غریب عوام کے ٹیکسوں پر چلنے والی حکومتیں کتنی عیش پسند زندگی گزار رہی ہیں۔

اور ابھی تازہ رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت سمیت ،ججوں،ِ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کی تاحیات مراعات تک دیگر سہولتیں بھی شامل ہیں اسی کے ساتھ پنجاب حکومت نے اپنے تمام اسسٹنٹ کمشنر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل کو برانڈڈ نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے 3 ارب 20 کروڑ روپے جاری کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

افسوس صد افسوس؟ تمام سرکاری ملازمین اور بیوہ کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جب کہ پنشن میں میڈیکل الاؤنس کا ذکر بھی نہیں کیا ہے، بہت افسوس ہوا ہے۔ بوڑھے پنشنرز اور بیوہ مہنگی دوائیں نہیں خرید سکتے، اسی طرح تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کو فور بائی فور وہیلر ری وو ڈبل کیبن ٹرانسپورٹیشن بھی دی جائے گی۔

ضلع بھر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) کو نئی 1300 سی سی کی یارس فراہم کی جائے گی جب کہ ہر ڈویژن کے ایڈیشنل کمشنر کو 16 سو سی سی کرولا اٹل بھی دی جا رہی ہے۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلوچستان کے پی کے سمیت حکومت کے اراکین سینیٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہوں اور خاص کر یہ کبھی نہیں ہوا ہے کہ اراکین اسمبلی کو پنشن بھی ملتی رہے گی جب کہ یہ تو سب ہی مال دار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں اس موقع پر حکمرانوں سمیت سینیٹ کے اراکین سے اپیل نہیں بلکہ مطالبہ کروں گا کہ وہ فوری طور غیر ترقیاتی اخراجات بے جا تنخواہ، پنشن، مراعات، مفت کے ملازم، مفت گاڑیاں، مفت پٹرول، مفت گیس، مفت بجلی اور بے پناہ مراعات اور ملک بھر میں مفت پلاٹ بڑے پلازے بنا کر، ان کے غیر ممالک میں جزیرے اور باغات فارم ہاؤس غیر ملکی جائیدادوں، غیر ملکوں کے بینکوں میں پڑے ہوئے لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالر اپنے ملک میں واپس لانے کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے اور غربت اور کرپشن سے پاک کرکے جاگیرداری، سرمایہ داری، نج کاری کے خاتمے کے لیے بل پاس کریں تاکہ ملک سے غربت، بیماری، جہالت، بے روزگاری ختم کرنے میں کچھ مدد ہو سکے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو زمین کی حد ملکیت کا تقرر کیا جائے، غیر ملکی جائیدادیں ضبط کی جائیں۔ آیندہ الیکشن میں عام آدمی کو بھی ٹکٹ دیے جائیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم این اے کے ٹکٹ ہولڈر پر 40 لاکھ کے بجائے اب ایک کروڑ رقم خرچ کرنے کی رکھی ہے ،اسی طرح صوبائی اسمبلی کے لیے 20 لاکھ سے بڑھا کر 40 لاکھ کر دی ہے۔ کہاں سے عام آدمی، سیاسی کارکن، سماجی کارکن یا کوئی پڑھا لکھا دانشور اور پی ایچ ڈی کرنے والا نوجوان، دانشور، صحافی، شاعر، تاریخ دان ماہر معاشیات ان الیکشن میں کھڑا ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف اپنی پارٹی فنڈ میں ٹکٹ لینے کے لیے اس کی فیس ادا کرسکتا ہے۔ ان حالات میں جب کہ آٹا، چینی 160 روپے کلو، دودھ، دہی، دالیں، سبزیاں قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں ۔ آئے روز ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں چھوٹے چھوٹے گاؤں میں ڈکیتی، لوٹ مار، قتل، چھینا جھپٹی اور خودکشیاں عام ہو رہی ہیں، بارش اور سیلاب زدگان اب تک بے آسرا آسمان تلے پڑے ہیں، وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے لاڑکانہ میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے 20 لاکھ گھروں کو بنایا جائے گا اوراس کے مالکانہ حقوق خواتین کے نام پر کیے جائیں گے۔

اسی طرح دھابیجی سندھ میں انڈسٹریل زون بنا کر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائے گا اور سندھ کو خوشحال بنایا جائے گا جو ایک اچھا اقدام ہے لیکن کراچی کے ساتھ ہی موجود پورٹ قاسم، جنگ شاہی، جھمپیر تک پھیلی ہوئی بنجر زمین کو بے زمین کسانوں میں تقسیم کرکے مالکانہ حقوق کے ساتھ مقامی افراد میں تقسیم کرکے زیر کاشت لایا جائے تاکہ ہم زرعی پیداوار کو آگے بڑھا سکیں ۔اسی طرح بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے سولر سسٹم کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

غربت کو دور کرنے کے لیے 1973 کے آئین کے مطابق آرٹیکل تین سے آرٹیکل 35 پر عمل کرتے ہوئے ریاست اور حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو رہائش، تعلیم، صحت، گھر اور روزگار فراہم کرے کیا اس سلسلے میں تمام عدالتیں سوموٹو (ازخود نوٹس) لے کر کچھ کام ملک کے غریب عوام کے لیے اقدامات اٹھا سکتی ہے جب کہ عدالتوں میں ہزاروں کیسز جمع ہیں۔

ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار، بلڈرز اور زمینوں پر قبضہ گیر ریلوے کی بے پناہ زمین جوکہ کراچی کیماڑی تا لنڈی کوتل تا چمن، زاہدان سے قبضہ کیے ہوئے ہیں ،ان سے خالی کروا کر اربوں بلکہ کھربوں روپے حاصل کرسکتے ہیں۔

کراچی سرکلر ریلوے کو بھی چلایا جاسکتا ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کا ایک جال بچھا کر عوام کو سفری سہولتیں دے سکتے ہیں ۔اسی طرح کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص میں ریلوے کی زمین جوکہ ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کی ہے اس پر سندھ حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے۔

سندھ حکومت سے واپس لے کر ریلوے کے حوالے کی جائے، ریلوے کلب کراچی، کینٹ کا ریلوے ہال انسٹیٹیوٹ ایک پرائیویٹ اور من پسند ٹھیکیدار کو جاوید اشرف قاضی نے 20 سال کے پٹے پر دے رکھا ہے جس کی مدت 2020 میں ختم ہو چکی ہے ،اس سے واپس لے کر ریلوے انتظامیہ کو واپس کیا جائے اور ریلوے کی تمام زمین قبضہ مافیا سے خالی کرا کر ریلوے کے ریٹائر اور بیوہ کو پلاٹ اور دکانیں بنا کر کرائے پر دی جائیں ،حالات بڑے خراب ہیں الیکشن بھی قریب ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت ، عوام کی مشکلات کوکم کرسکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں