پختون قومی تاریخ

ہمارا موضوع پختون قومی تحریک اور اس کا مستقبل ہے‘ قومی تحریک کے بارے میں بھی کچھ بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں

jamilmarghuz1@gmail.com

پختون قوم کی آبادی تقریباً چھ کروڑ سے زیادہ ہے۔قومی تقسیم کے علاوہ بھی کافی مسائل سے دوچار یہ قوم آج دہشت گردی کا بھی شکار ہے۔دہشت گردی یہاں کہاں سے آئی اور کون اس کا ذمے دار ہے؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔

آج ہم اس قوم کی تاریخ اور اس کے مسائل کے حل کا ذکر کریں گے۔ بلکہ ہمارا موضوع پختون قومی تحریک اور اس کا مستقبل ہے' قومی تحریک کے بارے میں بھی کچھ بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاکیا پختون قومی تحریک کا وجودکسی لیڈر یا پارٹی کی قیادت کی مرہون منت ہے؟یا اس کی بنیاد پختون قوم کو درپیش ٹھوس مسائل اور قومی استحصال پر استوار ہے؟

کیا قوم پرستی کے پرانے تصورات اور نعرے آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو رہے ہیں جس کی وجہ سے روایتی قوم پرستی کی دعویدار قیادت بحران کا شکار ہے ؟کیا روایتی پختون قوم پرست قیادت نئے دور کی سیاسی اور عالمی تقاضوں سے بے خبر اور نئی صورت حال کے ساتھ چلنے کے لیے نا اہل ہے؟

کیا صرف چند شاعروں اور رہنمائوں کے نام کی مالا جپنے پر قومی تحریک زندہ رہ سکتی ہے یا وہ عوامی اور قومی مسائل کے حل کی متقاضی بھی ہے؟کیا یہ سچ ہے کہ'' مختصر عرصے کے لیے تمام لوگوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے یالمبے عرصے کے لیے تھوڑے لوگوں کو دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن لمبے عرصے تک تمام لوگوں کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا''۔اسی طرح پختون قوم پرستی کے نام پر لمبے عرصے تک کروڑوں پختونوں کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔

سب سے پہلے تو مغل اور انگریز حکمران جو اس حریت پسند قوم کی جدوجہد سے تنگ تھے ۔انھوں نے اس کی تاریخ مسخ کرنے کے لیے ایک افسانہ تراشا۔ اس کے لیے ایک مولوی نعمت اللہ ہروی کواستعمال کیا گیا اور اس نے پختونوں کا رشتہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل سے جوڑا اور کسی قیس عبدالرشید کوپختون قوم کا جد امجد ثابت کیا۔


اس کتاب کا نام تاریخ خان جہانی عرف مخزن افغانی ہے۔جب کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ہزاروں سال قبل آرین قبائل کے متعدد اور مختلف گروہ کوہ ہندوکش کی گھاٹیوں اور تراہیوں سے ہوتے ہوئے ایران 'افغانستان 'ہندوستان اور یورپ کی طرف ہجرت کر رہے تھے' ان آرین قبائل نے ابھی پختون قبائل کی شناخت اختیار نہیں کی تھی 'اس دور سے لے کر پختون شناخت اختیار کرنے تک اور پھر آج تک کے ہزاروں برس کے سفر میں موجودہ افغانستان کی وادیوں میں بس جانے والے ان قبائل کو ہمیشہ نا مساعد حالات کا سامنا رہا ہے' پختون قوم کے آباء واجداد خانہ بدوش قبائل تھے جن کی روزمرہ زندگی کا انحصار مال مویشی پر تھا، انھیں ہمیشہ سے خراب موسمی حالات ، ناموافق آب و ہوا ' خوراک کی قلت ،جنگلی درندوں اور بیرونی حملہ آوروں کا سامنا رہا۔

علاقائی محل وقوع اور قدرتی آفات اور بیرونی حملہ آوروں کی گزر گاہ نے ان قبائل میں برداشت، جدوجہد اورجنگجویانہ صلاحیتیں پیدا کیں'چونکہ ہر دور میں موجودہ افغانستان کے خطے کو بیرونی دشمنوں اور ان کے استحصال کا سامنا رہا ہے، اس وجہ سے یہاں ہمیشہ قومی تحفظ کا احساس کسی نہ کسی شکل میںموجود رہی ہے، ویسے قوم پرستی اور قومی تحفظ کا احساس دنیا کی ہر قوم میں ہوتا ہے لیکن پختونوں میں اپنے جغرافیائی اور اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے یہ احساس ہمیشہ زیادہ رہا ، غالباً سب سے زیادہ بیرونی حملہ آوروں کا سامنا بھی پختون قوم کو رہا۔

یونانی تاریخ دان ہیرو ڈو ٹس نے لکھا ہے کہ یونان سے لے کر ہندوستان تک سکندر اعظم نے 27 ریاستوں کے حکمرانوں کو شکست دی' ہر حکمران نے ان کو بطور فاتح ہار پہنائے لیکن غور(افغانستان) کے پہاڑوں میں رہنے والے قبائل نے ان کا مقابلہ کیا اور اپنے گوریلاحملوں نے اس کی فوج کو کافی پریشان کیا تھا ۔ ایرانی بالادستی کے خلاف پختونوں کی مزاحمت کے ہیرو اور پہلے حکمران میرویس ہوتک تھے اور پہلی ریاست کے بانی احمد شاہ ابدالی تھے، ابدالی کو بھی قوم پرست کہا جاتا۔

انگریزوں اور مغلوں کی حکمرانی کے خلاف لڑنے والے ہزاروں پختون بھی قوم پرست تھے 'پختونوں خصوصاً یوسف زئیوں اور بعد میں محمد زئیوں نے مغل سردار الغ بیگ سے بغاوت کی تو یہ بھی قوم پرستی تھی' ہلمند کی بہادر بیٹی ملالہ 'ایمل خان مہمند 'دریا خان آفریدی اور عجب خان آفریدی کی جدوجہد بھی مختلف حالات اور تاریخی تناظر میں قوم پرستی تھی ۔پیر روخان کی مغل حکمرانوں اور ان کے پروردہ پیروں کے خلاف جہاد یا خوشحال خان خٹک کی مغلوں کے خلاف جدوجہد بھی قوم پرستی کی مثالیں ہیں۔

پنچ تار (ضلع بونیر)کے فتح خان ان کے فرزند مقرب خان اور ان کے ساتھیوں کی سکھوں اور بعد میں انگریزوں کے خلاف لڑائی بھی قوم پرستی تھی'عمرا خان جندول'سرتور سر ملا' کاکاجی صنوبر حسین 'حاجی صاحب ترنگزئی 'ہڈے ملا صاحب اور فقیر ایپی کی قومی تحریکیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں' ان سے ثابت ہوتا ہے کہ پختونوں کے ہزاروں سال کی تاریخ میں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قومی تحریک موجود رہی ہے' اسی طرح انگریزی سامراج کے خلاف جنگ کے دوران خدائی خدمتگار تحریک نے قومی تحریک کا کردار ادا کیا ۔

(جاری ہے)
Load Next Story