فکری آزادی کی ضرورت 

ہمیں اپنے آج کے معاشرے کی اوپر سے لے کر نیچے تک ایک بڑی سرجری درکار ہے


سلمان عابد August 06, 2023
[email protected]

ایک بنیادی سوال کہ کیا انسان کی سوچ، فکر اور اظہا ر پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مختلف خیالات کے لوگ ہوتے ہوں ان میں ایک جیسی سوچ کو قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

معاشرے کا حسن یہ ہی ہے کہ مختلف خیال اور سوچ کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چل سکیں او راختلاف کی موجودگی کے باوجود دوسروں کے لیے انسانی احترام اور قبولیت رکھتا ہو۔

اگرچہ ہم جمہوریت او رانسانی حقوق یا انسانی قدروں کی بہت حمایت کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہماری سوچ اور فکر میں بہت سے تضادات موجود ہیں۔جب لوگوں کے چاروں اطراف سوچ اور فکر کے تناظر میں خوف ہو ۔عمومی طور پر ہمارے تعلیمی نظام میں ہی سوال کرنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے اور وہی سوال پوچھنے پر پذیرائی ہوتی ہے جو استاد یا ریاست کے خیالات کے قریب ہوتا ہے۔

بنیادی طور پر انسانی معاشرہ میں '' بغیر کسی خوف کے سازگار حالات کا پیدا ہونا '' فطری خواہش کا حصہ ہوتا ہے ۔ ریاست ایسے ماحول کو یقینی بناتی ہے جو معاشروں کی ساکھ کو قائم کرتا ہے ۔ انسانی حقوق کی پاسداری او راس کا یقینی بنانا کہ معاملات کو آئین او رقانون کے دائرہ کار میں ہی چلایا جائے گا، ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ہم اب ایک گلوبل دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہمارا طرز عمل پوری دنیا میں اچھے یا برے کے تناظر میں ہی دیکھا جاتاہے۔ اسی نگرانی کی بنیاد پر ہمارے معاشروں کی ساکھ اور درجہ بندی کی جاتی ہے۔

جب عالمی دنیا کی رینکنگ میں ہماری مجموعی سطح کی ساکھ پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو یہ عمل ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دکھیلتا ہے ۔اسی طرح سول سوسائٹی سے جڑے ادارے جو پاکستان میں انسانی حقوق اور لوگوں کے بنیادی حقوق کے لیے کام کررہی ہیں ان کو بھی ہم نے بہت پیچھے دکھیل دیا ہے ۔ حالانکہ معاشروں میں سول سوسائٹی عام آدمی کی طاقت ہوتی ہے اور اس سے جمہوری معاملات کو موثر اور جوابدہی کی طرف لایا جاتا ہے۔

لیکن ہماری ریاست ہو یا حکومت یا ادارے وہ بلاوجہ سول سوسائٹی کو اپنے مخالف کیمپ میں شامل کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو بھی آزادانہ بنیادوں پر کام کے حوالے سے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ سول سوسائٹی سے جڑی قانون سازی او رپالیسیاں سول سوسائٹی کو مضبوط بنانے کے بجائے ان کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔کیونکہ ہمارا مجموعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہمیں متبادل او رمخالف آوازیں نہیں سننی او رجو بھی اس سوچ اور فکر کو آگے بڑھائے گا اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عمومی طور پر اگر ہم عام آدمی کی رائے کو جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کس حدتک ریاستی , حکومتی اور ادارہ جاتی نظام پر اعتماد کرتے ہیں تو اس کا جواب کافی کمزور نظر آتا ہے۔

یہ کام محض ریاست ، حکومت اور اداروں کا ہی نہیں بلکہ ہمارا سیاسی ، سماجی نظا م جو لوگوں کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے اس میں بھی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں ۔ جب تک لوگوں میں سماجی اور سیاسی شعور پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک ایک مہذہب معاشرے کی خواہش بے معنی ہی رہے گی ۔ہمارا تعلیمی نظام جو ڈگری تو دیتا ہے مگر سیاسی او رسماجی شعور دینے میں ناکام ہے ۔ سیاسی جماعتیں جو معاشرے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے نعرے تو بلند کرتی ہیں مگر اپنے ہی سیاسی کارکنوں کو سیاسی وسماجی شعور دینے کے بجائے ان کو سیاسی معاملات او ران سے ہی جڑے فیصلوں سے لاتعلق رکھتی ہیں۔

ہمارا تضاد یہ ہے کہ کہ اگر لوگ سماجی اور سیاسی سطح پر شعور پیدا کریں گے تو اس کے نتیجے میںان کی اپنی حکمرانی یا خاندانی وراثت چیلنج ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے کے طاقت ور افراد سیاسی اور سماجی شعور کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ ہمارا سماجی او رمقامی ڈھانچہ کی بنیاد ہی طاقت کی حکمرانی ہے ۔ جولوگ انھیں چیلنج کرتے ہیں تو ان کو مزاحمت سمیت تشدد پر مبنی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ایسے میں قانون اورادارے عام یا کمزور آدمی یا عورت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے طاقت ور طبقات کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، جو لحمہ فکریہ ہے۔

ہمیں اپنے آج کے معاشرے کی اوپر سے لے کر نیچے تک ایک بڑی سرجری درکار ہے ۔ سرجری سے مراد بڑے پیمانے پر مضبوط اصلاحات او راس پر عملدرآمد کا مضبوط نظام ۔لیکن اس کے لیے پہلی شرط لوگوں کو اپنی کمزوری کے بجائے اپنی طاقت بنانا او ران میں سیاسی وسماجی شعور کو اجاگر کرنا کہ وہ معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں