ٹرین حادثہ تخریب کاری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے وزیر ریلوے
جب میں صبح سوکر بیدار ہوا تو دعا کی کوئی حادثہ نہ ہو لیکن حادثہ رونما ہوگیا
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ٹرین حادثے میں دو امکانات لگتے ہیں لائن میں مکینکل فالٹ بھی ہوسکتا ہے اور تخریب کاری بھی ہوسکتی ہے۔
ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیت سینئر منیجمنٹ کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہزارہ ٹرین حادثے میں اب تک 28 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور درجنوں زخمی ہیں، ٹرین حادثہ ایک بج کر 18 منٹ پر ہوا جس کے بعد نواب شاہ اور سکھر کے اپستالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، افواج پاکستان اور ریلوے کی ٹیموں نے فوری طور پر پہنچ کر ریلیف کا کام شروع کر دیا میں خود بھی حادثے کے بعد وزیر اعلی سندھ اور ڈی جی رینجرز سے مسلسل رابطے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے کی سینئر منیجمنٹ تمام آپریشن کی خود نگرانی کررہی ہے، اگلے چند گھنٹوں میں دونوں ٹریکس کو کلیئر کر دیا جائے گا، گرین لائن ٹرین نواب شاہ اسٹیشن پر کھڑی ہے اسے وہاں روک لیا گیا ہے، مین لائن ون پر اپ اینڈ ڈاﺅن کی ٹریفک معطل ہے، باقی ٹرینوں کے شیڈول کو بھی تبدیل کر رہے ہیں، اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حادثے میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے شدید ہمدردی اور افسوس ہے، پاکستان ریلوے جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسافروں کے اہل خانہ کے لیے جو کچھ ہوسکا کرے گی، حادثے کی وجوہات کیا ہیں جائزہ لیا جارہا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ نواب شاہ میں ٹرین کی رفتار 45 کلومیٹر تک تھی، امدادی کارروائیاں جاری ہیں، دو امکانات لگتے ہیں لائن میں مکینکل فالٹ یا تخریب کاری بھی ہو سکتی ہے، جب میں صبح سوکر بیدار ہوا تو دعا کی کوئی حادثہ نہ ہو لیکن حادثہ رونما ہوگیا۔
سعد رفیق نے کہا کہ حادثہ کی جگہ پر ٹریک مکمل طور پر فٹ ہے، ڈرائیور کا بیان ہے کہ وہ پچاس کلومیٹر کے قریب گاڑی چلا رہا تھا، اس کو بھی چیک کرنا پڑے گا، ایف جی آئی آر حادثے کے فوری بعد لاہور سے روانہ ہو چکے ہیں جو حادثہ کی انویسٹی گیشن کریں گے، جب تک جائزہ نہیں لے لیتے کہ ٹیکنیکل فالٹ ہے یا تخریبی کاری ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ٹرین میں ایک ہزار سے زائد مسافر سوار تھے، جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسافروں کی لسٹ تیار کی جا رہی ہے۔
قبل ازیں انہوں نے ریلوے کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ریلوے کا 20 سال کا سفر شروع کیا، 58 ارب کو 52 ارب تک لے گئے، نفرت کی بنیاد پر رول بیک نہ کیا جاتا تو ریلویز بہتر ہوتا، ریلوے کی حالت ناگفتہ بہ ہے، چودہ ماہ فائر فائٹنگ میں گزرے ہیں، حکومت سے ایک پیسہ لیے بغیر کام کیا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ریلوے مالی مشکل کا شکار ہے ، ملازمین کی پنشن ریلوے سے جاتی ہے جو ادارے کما کر حصہ ڈالتے ہیں ان کو یا تو خود فیصلے کرنے دئیے یا آن بورڈ کردئیے یا ڈیفیسڈ قرار دیدیا جائے، ریلوے کا ایم ایل ون سے مستقبل ہے اگر پروڈکشن یونٹ کو پرائیویٹ سیکٹر میں نہیں لے جائیں گے تو یہ ادارہ دم توڑ جائے گا۔
وزیر ریلوے نے کہا کہ غریب قوم ہیں اتنا قرضہ لیں جتنا واپس کر سکیں، ایم ایل ون پھر ترجیح ہے اکتوبر میں بی آر آئی کانفرنس میں معاہدہ ہوگا، چینی صدر کی موجودگی میں ایم ایل ون معاہدے پر دستخط کریں گے، چار پیکیج دو فیز ہوں گے کراچی سے روہڑی اہم ہوگا، وہاں فنسنگ کریں گے کہاں آبادی زیادہ ہوگی ٹرین کی رفتار 140سے 160 ہوگی۔
انہوں ںے کہا کہ ازبکستان سے افغانستان تک لائن بچھا دی گئی ہے جسے پاکستان لانا ہوگا، گوادر میں ریلوے کا آفس بنا دیا ہے چار سو ایکٹر زمین کی ہے وہاں ٹرمینل اور ریلوے اسٹیشن بنے گا، کوئٹہ 998 کلومیٹر ٹریک ریت پر ہے جس پر کام کرنا ہوگا، کیرن فیکٹری اسلام آباد کو پرائیویٹ سیکٹر میں لے کر جائیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ائیرپورٹ بسوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں، ائیرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کرنا ہوگی، لاہور ائیرپورٹ میں گھنٹے کا کام چھ گھنٹے میں ہو رہا ہے ، آئوٹ سورس کا مطلب فروخت کرنا نہیں صرف آپریٹر لانا ہے تاکہ وہ کام کرکے ریاست کو منافع دے، اسلام آباد ائیرپورٹ کو پہلے آؤٹ سورس کیا جارہا ہے اگلے مرحلے میں لاہور اور کراچی کی باری آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اَیاٹا کے مطابق چلنا چاہتے ہیں لیکن مسائل بہت ہیں، ایک شخص کے بیان سے ستر ارب روپے سالانہ نقصان ہوا، نومبر کے پہلے ہفتہ میں یوکے ، ای یو پھر امریکہ کی فلائٹس چلیں گی، پی آئی اے پر 742 روپے کا قرضہ ہے، کوئی جہاز ہمیں لیز پر دینے کو تیار نہیں جو لیز پر ہیں وہ واپس مانگے جا رہے ہیں جہاز نہیں مل رہے، کمرشل اپرووچ کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو پی آئی اے میں آنا پڑے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پی آئی اے کا پچھلے سال 80 ارب روپے خسارہ اور آئندہ 110 ارب روپے ہوگا، روز ویلٹ ہوٹل 25 ملین ڈالر 479 ورکرز کام کررہے تھے، 400 ورکرز مقامی حکومت کو لیز پر دینے سے گھر چلے جائیں گے تاکہ بوجھ کم ہو، آٹھ ملین ڈالر روز ویلیٹ سے آئے گا۔
ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیت سینئر منیجمنٹ کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہزارہ ٹرین حادثے میں اب تک 28 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور درجنوں زخمی ہیں، ٹرین حادثہ ایک بج کر 18 منٹ پر ہوا جس کے بعد نواب شاہ اور سکھر کے اپستالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، افواج پاکستان اور ریلوے کی ٹیموں نے فوری طور پر پہنچ کر ریلیف کا کام شروع کر دیا میں خود بھی حادثے کے بعد وزیر اعلی سندھ اور ڈی جی رینجرز سے مسلسل رابطے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے کی سینئر منیجمنٹ تمام آپریشن کی خود نگرانی کررہی ہے، اگلے چند گھنٹوں میں دونوں ٹریکس کو کلیئر کر دیا جائے گا، گرین لائن ٹرین نواب شاہ اسٹیشن پر کھڑی ہے اسے وہاں روک لیا گیا ہے، مین لائن ون پر اپ اینڈ ڈاﺅن کی ٹریفک معطل ہے، باقی ٹرینوں کے شیڈول کو بھی تبدیل کر رہے ہیں، اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حادثے میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے شدید ہمدردی اور افسوس ہے، پاکستان ریلوے جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسافروں کے اہل خانہ کے لیے جو کچھ ہوسکا کرے گی، حادثے کی وجوہات کیا ہیں جائزہ لیا جارہا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ نواب شاہ میں ٹرین کی رفتار 45 کلومیٹر تک تھی، امدادی کارروائیاں جاری ہیں، دو امکانات لگتے ہیں لائن میں مکینکل فالٹ یا تخریب کاری بھی ہو سکتی ہے، جب میں صبح سوکر بیدار ہوا تو دعا کی کوئی حادثہ نہ ہو لیکن حادثہ رونما ہوگیا۔
سعد رفیق نے کہا کہ حادثہ کی جگہ پر ٹریک مکمل طور پر فٹ ہے، ڈرائیور کا بیان ہے کہ وہ پچاس کلومیٹر کے قریب گاڑی چلا رہا تھا، اس کو بھی چیک کرنا پڑے گا، ایف جی آئی آر حادثے کے فوری بعد لاہور سے روانہ ہو چکے ہیں جو حادثہ کی انویسٹی گیشن کریں گے، جب تک جائزہ نہیں لے لیتے کہ ٹیکنیکل فالٹ ہے یا تخریبی کاری ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ٹرین میں ایک ہزار سے زائد مسافر سوار تھے، جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسافروں کی لسٹ تیار کی جا رہی ہے۔
قبل ازیں انہوں نے ریلوے کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ریلوے کا 20 سال کا سفر شروع کیا، 58 ارب کو 52 ارب تک لے گئے، نفرت کی بنیاد پر رول بیک نہ کیا جاتا تو ریلویز بہتر ہوتا، ریلوے کی حالت ناگفتہ بہ ہے، چودہ ماہ فائر فائٹنگ میں گزرے ہیں، حکومت سے ایک پیسہ لیے بغیر کام کیا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ریلوے مالی مشکل کا شکار ہے ، ملازمین کی پنشن ریلوے سے جاتی ہے جو ادارے کما کر حصہ ڈالتے ہیں ان کو یا تو خود فیصلے کرنے دئیے یا آن بورڈ کردئیے یا ڈیفیسڈ قرار دیدیا جائے، ریلوے کا ایم ایل ون سے مستقبل ہے اگر پروڈکشن یونٹ کو پرائیویٹ سیکٹر میں نہیں لے جائیں گے تو یہ ادارہ دم توڑ جائے گا۔
وزیر ریلوے نے کہا کہ غریب قوم ہیں اتنا قرضہ لیں جتنا واپس کر سکیں، ایم ایل ون پھر ترجیح ہے اکتوبر میں بی آر آئی کانفرنس میں معاہدہ ہوگا، چینی صدر کی موجودگی میں ایم ایل ون معاہدے پر دستخط کریں گے، چار پیکیج دو فیز ہوں گے کراچی سے روہڑی اہم ہوگا، وہاں فنسنگ کریں گے کہاں آبادی زیادہ ہوگی ٹرین کی رفتار 140سے 160 ہوگی۔
انہوں ںے کہا کہ ازبکستان سے افغانستان تک لائن بچھا دی گئی ہے جسے پاکستان لانا ہوگا، گوادر میں ریلوے کا آفس بنا دیا ہے چار سو ایکٹر زمین کی ہے وہاں ٹرمینل اور ریلوے اسٹیشن بنے گا، کوئٹہ 998 کلومیٹر ٹریک ریت پر ہے جس پر کام کرنا ہوگا، کیرن فیکٹری اسلام آباد کو پرائیویٹ سیکٹر میں لے کر جائیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ائیرپورٹ بسوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں، ائیرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کرنا ہوگی، لاہور ائیرپورٹ میں گھنٹے کا کام چھ گھنٹے میں ہو رہا ہے ، آئوٹ سورس کا مطلب فروخت کرنا نہیں صرف آپریٹر لانا ہے تاکہ وہ کام کرکے ریاست کو منافع دے، اسلام آباد ائیرپورٹ کو پہلے آؤٹ سورس کیا جارہا ہے اگلے مرحلے میں لاہور اور کراچی کی باری آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اَیاٹا کے مطابق چلنا چاہتے ہیں لیکن مسائل بہت ہیں، ایک شخص کے بیان سے ستر ارب روپے سالانہ نقصان ہوا، نومبر کے پہلے ہفتہ میں یوکے ، ای یو پھر امریکہ کی فلائٹس چلیں گی، پی آئی اے پر 742 روپے کا قرضہ ہے، کوئی جہاز ہمیں لیز پر دینے کو تیار نہیں جو لیز پر ہیں وہ واپس مانگے جا رہے ہیں جہاز نہیں مل رہے، کمرشل اپرووچ کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو پی آئی اے میں آنا پڑے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پی آئی اے کا پچھلے سال 80 ارب روپے خسارہ اور آئندہ 110 ارب روپے ہوگا، روز ویلٹ ہوٹل 25 ملین ڈالر 479 ورکرز کام کررہے تھے، 400 ورکرز مقامی حکومت کو لیز پر دینے سے گھر چلے جائیں گے تاکہ بوجھ کم ہو، آٹھ ملین ڈالر روز ویلیٹ سے آئے گا۔