روس یوکرین تنازع پرامن تصفیہ ممکن
یوکرین نے مذاکرات میں دس نکاتی امن فارمولہ تجویزکیا ہے
سعودی عرب کی میزبانی میں شروع کیے گئے، دو روزہ اجلاس میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کے اصول وضع کیے جائیں گے۔
یوکرین نے مذاکرات میں دس نکاتی امن فارمولہ تجویزکیا ہے۔ کیف اور مغربی سفارت کاروں کو امید ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں اور تقریباً 40 ممالک کے دیگر اعلیٰ حکام کی جدہ میں ہونے والی ملاقات میں مستقبل میں مسئلے کے پرامن تصفیے کے لیے کلیدی اصولوں پر اتفاق کیا جائے گا، اس سمٹ میں روس کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ تاریخی غلطیاں اوربڑی طاقتوں کی جارحانہ پالیسیاں انسانیت کو بہت زِک پہنچا چکی ہیں۔
اس کی حالیہ مثال یوکرین کی ہے، روس اور یوکرین اپنے اپنے مسائل پر بات چیت کرسکتے تھے، اور پرامن طریقے سے کسی نتیجے پر پہنچ سکتے تھے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوا۔اب تک دُنیا کی تمام جنگوں کے صرف دو حل ہی سامنے آئے ہیں یا تو دونوں لڑتے رہتے تباہ ہوئیں یاپھر مزید تباہی سے بچنے کے لیے مذاکرات پر مائل ہوئیں، تیسرا راستہ کوئی نہیں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر فی الفور جنگ بند نہیں کرنا چاہتے،کیونکہ جنگ شروع انھوں نے کی تھی، دونوں ممالک کا مسئلہ اپنی اپنی طاقت اور عالمی سیاست میں پوزیشن کا ہے۔دوسری طرف دیکھنے میں آ رہا ہے کہ یورپی ممالک بھی فوری طور پر جنگ بند کرنے میں مخلص دکھائی نہیں دیتے' ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جنگ کو طول دیا جائے تاکہ معاشی طور پر روس کو بھی زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔
روس نے یوکرین کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو جواز بنا کر جنگ شروع کی، مغربی قوتیں بھی بخوبی جانتی تھیں کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں پر روس خاموش نہیں بیٹھے گا اور وہ یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے جس سے یوکرین کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا۔جنگ شروع ہوئی تو مغربی قوتوں نے روس پر پابندیوں کا سلسلہ دراز کرنا شروع کر دیا، مگر آج کی دُنیا بھی ہر دورکی طرح مفادات کی دُنیا ہے۔
روس نے پابندیوں کا توڑ شروع کردیا۔ دُوسری طرف مغرب نے یوکرین کو اسلحہ دے کر لڑنے پر آمادہ رکھا، اگر روسی صدر پوتن جنگ بند کرنے، صلح کرنے کی تجویز دیتے ہیں، یہ ان کی کمزوری سمجھی جائے گی۔
مغربی قوتیں جنگ بند نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ اس طرح روس کو مصروف رکھا جائے اور اس بہانہ اس پر اقتصادی، سیاسی، ثقافتی پابندیاں جاری رکھی جا سکیں۔ اس دوطرفہ شیطانی حکمت عملیوں کی وجہ سے اُمید کم سے کم ہے کہ کوئی فریق یوکرین کی جنگ بند کرنے میں مخلص ہو۔ دونوں ممالک کے بیچ کسی طرح صلح ہو جائے تب ممکن ہے جنگ بند کی جائے، بصورت دیگر جنگ بندی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
ایک طرف روس کے صدر پیوتن کی روس کے احیاء کی مہم دُوسری طرف نیٹو اراکین کی نیٹو کو مزید طاقتور بنانے کی خواہش، خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑکا سبب بن چکی ہے۔ موجودہ حالات میں روس یورپی یونین پر بھاری ہے۔ اسی لیے روس جدید ہتھیاروں کی تیاری میں مغرب پر سبقت لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ دُوسرے اس کے پاس دُنیا کے تیل کے بڑے ذخائر ہیں۔
قدرتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ افرادی قوت تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور محنتی ہے۔ اس کے تمام سائنس داں اور ماہرین اسلحہ سازی میں مصروف ہیں۔ ایسے میں یورپی یونین کو روس سے آگے نکلنے میں سو دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بعض مبصرین اس پر امریکا اور نیٹو کو ہی ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ بڑی طاقتوں کا یہی وتیرہ رہا ہے انھیں چھوٹے ممالک کی زیادہ پروا نہیں ہوتی، وہ انھیں قربانی کا بکرا بنا کر اس میں بھی اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں، پھر دونوں گروہوں کو میز پر بٹھا کر صلح کرا دیتے ہیں۔
بڑی طاقتیں جب تک ان کے اپنے مفادات پر براہ راست حملہ نہ ہو وہ حرکت میں نہیں آتی ہیں۔ اس لیے دانا کہتے ہیں کہ بڑی طاقت کی دوستی پر چھوٹے ملکوں کو قطعی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
یوکرین متوسط درجہ کا ملک ہے۔ اس کے عوام نے صدیوں کی محنت سے اپنے ملک کو اَدب، شاعری، فنون لطیفہ، سینما آرٹ اور کھیلوں میں ایک نمایاں مقام دلایا ہے۔ فٹ بال مقبول کھیل ہے اور یوکرین کا ایک نمایاں مقام ہے، زرعی شعبہ ترقی یافتہ ہے۔
پاکستان برسوں سے یوکرین سے گندم خریدتا آیا ہے، یہ یورپی ممالک کو اناج، سبزیاں، فروٹ اورگوشت فراہم کرتا ہے۔ جفاکش اور زندہ دلوں کا ملک ہے، اس وقت یوکرین کے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ یوکرین میں جنگ جو وبائی مرض کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔
اس نے یورپ میں ریکارڈ بلند افراط زر میں کردار ادا کیا ہے، جو بلاتفریق تقریباً 11 فیصد تک پہنچ گئی ہے ( لیکن پولینڈ میں 15.6 فیصد تک زیادہ ہے۔) بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے لوگ خرچ کرنے سے گریزکر رہے ہیں جس کے نتیجے میں یوکرین کے لیے عطیات میں کمی آئی ہے، یہ وہ معاملہ ہے جس پر بلاشبہ کیئف کو بہت تشویش ہے۔
یہ انسانوں کی دنیا کی بدقسمت حقیقت ہے۔ ہماری توجہ کا دائرہ اور جیب لامحدود نہیں ہے، وہ ہو بھی نہیں ہو سکتے۔
خطرہ یہ ہے کہ یہ براہ راست ماسکو کے ہاتھوں میں کھیلتا، پوتن کے لیے عالمی بے حسی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے کیوں کہ اگر یوکرین کی امداد میں کمی آئی تو پوتن کو جیتنے کا بہتر موقع مل جائے گا، اگر نیٹو ممالک یوکرین کی حالت زار سے تھک گئے، تو ہمیں اس سطح کے عالمی حملے کے عام سی بات میں تبدیل ہونے کا خطرہ لاحق ہو گا۔
روسی صدر ولادی میر پیوتن ایک سخت گیر رہنما ہیں، ان کے ذہن میں جو سماتا ہے وہ اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ البتہ یوکرین کا مسئلہ اتنا طول پکڑے گا، یہ انھوں نے نہیں سوچا ہوگا، مگر لیکن انھیں اس کی پروا نہیں ہے وہ وہاں مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اب تک روسی معشیت کو تباہ ہو جانا چاہیے تھا۔ اتنا کہ عوام حکومت پر دباؤ ڈالتی کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات کر کے کسی تصفیے پر پہنچ جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے اور جب سے روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، معاشی شعبے میں بہت کچھ ہوا ہے۔ پہلے روبل کی قیمت میں کمی آئی، پھر جلد ہی بحال ہوگئی۔
روس اپنی ہی جارحیت کی وجہ سے تیل اورگیس کی بلند ہو جانے والی قیمتوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ درآمدات تھوڑی دیر کے لیے کم ہوئیں، لیکن اب وہ اپنی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی ہیں۔
روس کو فوجی اعتبار سے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے اورکافی تعداد میں فوجیوں کی جانیں گئیں لیکن جب تک کہ وہ براہ راست متاثر نہ ہوں، زیادہ تر روسی شہریوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس صورت حال کی بدولت اور صدر پوتن کی جانب سے داخلی سطح پر اختلاف رائے کو دبانے کے نتیجے میں یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ روس فوجی رسد جاری رکھ کر جنگ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
اس کے باوجود امریکی حکومت پیش گوئی کر رہی تھی کہ روسی معیشت جلد ہی '15 فیصد تک سکڑ جائے گی' اور یہ کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران روسی شہری جس معیار زندگی کا لطف اٹھا رہے تھے، وہ باقی نہیں رہے گا۔
400 سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اشیائے صرف کی تیاری اور تفریح کے شعبے سے ہے، کے روس سے چلے جانے کی صورت میں روسی شہریوں کو وہ سامان اور تفریح میسر نہیں ہو گا، جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔ روس پر پابندیاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے، اس پالیسی نے کام نہیں کیا۔ کم از کم اس حد تک نہیں جو ان کا مقصد تھا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تاحال جنگ جاری ہے، جہاں امریکی اور برطانوی سامراج اپنے مفادات کے لیے تنازعہ کو طول دے رہے ہیں، جب کہ ہتھیار بنانے والی کمپنیاں خوب منافعے کمانے میں مصروف ہیں۔
فرض کریں اگر جنگ کل رک جائے پھر بھی دنیا کو اس کے خوراک کے شعبے پر پڑنے والے اثرات سے نکلنے کے لیے چھ ماہ سے دو سال تک کا وقت درکار ہوگا۔
روس، یوکرین جنگ کی ہولناکیوں کو ختم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنے مفادات کے بجائے انسانی بنیادوں پر سوچتے ہوئے اس جنگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، سچ تو یہ ہے کہ دنیا عمومی حالت میں تیسری عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی،کیونکہ یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے۔
یوکرین نے مذاکرات میں دس نکاتی امن فارمولہ تجویزکیا ہے۔ کیف اور مغربی سفارت کاروں کو امید ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں اور تقریباً 40 ممالک کے دیگر اعلیٰ حکام کی جدہ میں ہونے والی ملاقات میں مستقبل میں مسئلے کے پرامن تصفیے کے لیے کلیدی اصولوں پر اتفاق کیا جائے گا، اس سمٹ میں روس کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ تاریخی غلطیاں اوربڑی طاقتوں کی جارحانہ پالیسیاں انسانیت کو بہت زِک پہنچا چکی ہیں۔
اس کی حالیہ مثال یوکرین کی ہے، روس اور یوکرین اپنے اپنے مسائل پر بات چیت کرسکتے تھے، اور پرامن طریقے سے کسی نتیجے پر پہنچ سکتے تھے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوا۔اب تک دُنیا کی تمام جنگوں کے صرف دو حل ہی سامنے آئے ہیں یا تو دونوں لڑتے رہتے تباہ ہوئیں یاپھر مزید تباہی سے بچنے کے لیے مذاکرات پر مائل ہوئیں، تیسرا راستہ کوئی نہیں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر فی الفور جنگ بند نہیں کرنا چاہتے،کیونکہ جنگ شروع انھوں نے کی تھی، دونوں ممالک کا مسئلہ اپنی اپنی طاقت اور عالمی سیاست میں پوزیشن کا ہے۔دوسری طرف دیکھنے میں آ رہا ہے کہ یورپی ممالک بھی فوری طور پر جنگ بند کرنے میں مخلص دکھائی نہیں دیتے' ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جنگ کو طول دیا جائے تاکہ معاشی طور پر روس کو بھی زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔
روس نے یوکرین کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو جواز بنا کر جنگ شروع کی، مغربی قوتیں بھی بخوبی جانتی تھیں کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں پر روس خاموش نہیں بیٹھے گا اور وہ یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے جس سے یوکرین کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا۔جنگ شروع ہوئی تو مغربی قوتوں نے روس پر پابندیوں کا سلسلہ دراز کرنا شروع کر دیا، مگر آج کی دُنیا بھی ہر دورکی طرح مفادات کی دُنیا ہے۔
روس نے پابندیوں کا توڑ شروع کردیا۔ دُوسری طرف مغرب نے یوکرین کو اسلحہ دے کر لڑنے پر آمادہ رکھا، اگر روسی صدر پوتن جنگ بند کرنے، صلح کرنے کی تجویز دیتے ہیں، یہ ان کی کمزوری سمجھی جائے گی۔
مغربی قوتیں جنگ بند نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ اس طرح روس کو مصروف رکھا جائے اور اس بہانہ اس پر اقتصادی، سیاسی، ثقافتی پابندیاں جاری رکھی جا سکیں۔ اس دوطرفہ شیطانی حکمت عملیوں کی وجہ سے اُمید کم سے کم ہے کہ کوئی فریق یوکرین کی جنگ بند کرنے میں مخلص ہو۔ دونوں ممالک کے بیچ کسی طرح صلح ہو جائے تب ممکن ہے جنگ بند کی جائے، بصورت دیگر جنگ بندی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
ایک طرف روس کے صدر پیوتن کی روس کے احیاء کی مہم دُوسری طرف نیٹو اراکین کی نیٹو کو مزید طاقتور بنانے کی خواہش، خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑکا سبب بن چکی ہے۔ موجودہ حالات میں روس یورپی یونین پر بھاری ہے۔ اسی لیے روس جدید ہتھیاروں کی تیاری میں مغرب پر سبقت لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ دُوسرے اس کے پاس دُنیا کے تیل کے بڑے ذخائر ہیں۔
قدرتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ افرادی قوت تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور محنتی ہے۔ اس کے تمام سائنس داں اور ماہرین اسلحہ سازی میں مصروف ہیں۔ ایسے میں یورپی یونین کو روس سے آگے نکلنے میں سو دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بعض مبصرین اس پر امریکا اور نیٹو کو ہی ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ بڑی طاقتوں کا یہی وتیرہ رہا ہے انھیں چھوٹے ممالک کی زیادہ پروا نہیں ہوتی، وہ انھیں قربانی کا بکرا بنا کر اس میں بھی اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں، پھر دونوں گروہوں کو میز پر بٹھا کر صلح کرا دیتے ہیں۔
بڑی طاقتیں جب تک ان کے اپنے مفادات پر براہ راست حملہ نہ ہو وہ حرکت میں نہیں آتی ہیں۔ اس لیے دانا کہتے ہیں کہ بڑی طاقت کی دوستی پر چھوٹے ملکوں کو قطعی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
یوکرین متوسط درجہ کا ملک ہے۔ اس کے عوام نے صدیوں کی محنت سے اپنے ملک کو اَدب، شاعری، فنون لطیفہ، سینما آرٹ اور کھیلوں میں ایک نمایاں مقام دلایا ہے۔ فٹ بال مقبول کھیل ہے اور یوکرین کا ایک نمایاں مقام ہے، زرعی شعبہ ترقی یافتہ ہے۔
پاکستان برسوں سے یوکرین سے گندم خریدتا آیا ہے، یہ یورپی ممالک کو اناج، سبزیاں، فروٹ اورگوشت فراہم کرتا ہے۔ جفاکش اور زندہ دلوں کا ملک ہے، اس وقت یوکرین کے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ یوکرین میں جنگ جو وبائی مرض کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔
اس نے یورپ میں ریکارڈ بلند افراط زر میں کردار ادا کیا ہے، جو بلاتفریق تقریباً 11 فیصد تک پہنچ گئی ہے ( لیکن پولینڈ میں 15.6 فیصد تک زیادہ ہے۔) بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے لوگ خرچ کرنے سے گریزکر رہے ہیں جس کے نتیجے میں یوکرین کے لیے عطیات میں کمی آئی ہے، یہ وہ معاملہ ہے جس پر بلاشبہ کیئف کو بہت تشویش ہے۔
یہ انسانوں کی دنیا کی بدقسمت حقیقت ہے۔ ہماری توجہ کا دائرہ اور جیب لامحدود نہیں ہے، وہ ہو بھی نہیں ہو سکتے۔
خطرہ یہ ہے کہ یہ براہ راست ماسکو کے ہاتھوں میں کھیلتا، پوتن کے لیے عالمی بے حسی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے کیوں کہ اگر یوکرین کی امداد میں کمی آئی تو پوتن کو جیتنے کا بہتر موقع مل جائے گا، اگر نیٹو ممالک یوکرین کی حالت زار سے تھک گئے، تو ہمیں اس سطح کے عالمی حملے کے عام سی بات میں تبدیل ہونے کا خطرہ لاحق ہو گا۔
روسی صدر ولادی میر پیوتن ایک سخت گیر رہنما ہیں، ان کے ذہن میں جو سماتا ہے وہ اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ البتہ یوکرین کا مسئلہ اتنا طول پکڑے گا، یہ انھوں نے نہیں سوچا ہوگا، مگر لیکن انھیں اس کی پروا نہیں ہے وہ وہاں مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اب تک روسی معشیت کو تباہ ہو جانا چاہیے تھا۔ اتنا کہ عوام حکومت پر دباؤ ڈالتی کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات کر کے کسی تصفیے پر پہنچ جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے اور جب سے روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، معاشی شعبے میں بہت کچھ ہوا ہے۔ پہلے روبل کی قیمت میں کمی آئی، پھر جلد ہی بحال ہوگئی۔
روس اپنی ہی جارحیت کی وجہ سے تیل اورگیس کی بلند ہو جانے والی قیمتوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ درآمدات تھوڑی دیر کے لیے کم ہوئیں، لیکن اب وہ اپنی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی ہیں۔
روس کو فوجی اعتبار سے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے اورکافی تعداد میں فوجیوں کی جانیں گئیں لیکن جب تک کہ وہ براہ راست متاثر نہ ہوں، زیادہ تر روسی شہریوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس صورت حال کی بدولت اور صدر پوتن کی جانب سے داخلی سطح پر اختلاف رائے کو دبانے کے نتیجے میں یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ روس فوجی رسد جاری رکھ کر جنگ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
اس کے باوجود امریکی حکومت پیش گوئی کر رہی تھی کہ روسی معیشت جلد ہی '15 فیصد تک سکڑ جائے گی' اور یہ کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران روسی شہری جس معیار زندگی کا لطف اٹھا رہے تھے، وہ باقی نہیں رہے گا۔
400 سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اشیائے صرف کی تیاری اور تفریح کے شعبے سے ہے، کے روس سے چلے جانے کی صورت میں روسی شہریوں کو وہ سامان اور تفریح میسر نہیں ہو گا، جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔ روس پر پابندیاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے، اس پالیسی نے کام نہیں کیا۔ کم از کم اس حد تک نہیں جو ان کا مقصد تھا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تاحال جنگ جاری ہے، جہاں امریکی اور برطانوی سامراج اپنے مفادات کے لیے تنازعہ کو طول دے رہے ہیں، جب کہ ہتھیار بنانے والی کمپنیاں خوب منافعے کمانے میں مصروف ہیں۔
فرض کریں اگر جنگ کل رک جائے پھر بھی دنیا کو اس کے خوراک کے شعبے پر پڑنے والے اثرات سے نکلنے کے لیے چھ ماہ سے دو سال تک کا وقت درکار ہوگا۔
روس، یوکرین جنگ کی ہولناکیوں کو ختم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنے مفادات کے بجائے انسانی بنیادوں پر سوچتے ہوئے اس جنگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، سچ تو یہ ہے کہ دنیا عمومی حالت میں تیسری عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی،کیونکہ یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے۔