دہشت گردی کے خطرات

جن تنظیموں کے ہاتھ پاکستان کے عوام اور پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کے خون سے رنگے ہوں ان سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں

www.facebook.com/shah Naqvi

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کرنے والوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں نہ ہونگے۔ آئین پاکستان کو نہ ماننے والوں سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ پاکستان کا موقف مذاکرات کی بات کرنے والوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔

کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کا مشورہ دینے والوں کو بھی یہی مشورہ ہے کہ جن تنظیموں کے ہاتھ پاکستان کے عوام اور پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کے خون سے رنگے ہوں ان سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ کمیٹی کی مرتب کردہ ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حوصلہ افزائی کی ہے جو کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ رپورٹ گزشتہ مہینے 25جولائی کو پیش کی گئی۔

رپورٹ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی کس طرح افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے ۔ حقیقت میں اس رپورٹ نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر سے نہیں بلکہ افغانستان سے کام کر رہی ہے، علاقائی ریاستوں کو تشویش ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا افغانستان میں آپریٹنگ اڈہ جاری رہا تو یہ علاقائی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ کنٹر میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے تربیتی کیمپوں کو ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے ۔

طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات قریبی اور علامتی ہیں ۔ القاعدہ افغانستان میں خفیہ طور پر کام کرتی ہے تاکہ اس بیانئے کو فروغ ملے کہ افغان طالبان افغان سرزمین کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کے معاہدوں کی تکمیل کرتے ہیں ۔

ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیاء انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹرمائیکل کوگلمین نے کہا ہے کہ اس بات پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ ریڈار پر آگیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش نے حملے کا ہدف جے یو آئی کو اس لیے بنایا کہ وہ افغان طالبان کی حامی جماعت ہے ۔ عسکریت پسند گروپ داعش نے افغان طالبان کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے اس سال پاکستانی قبائلی علاقوں میں کافی قدم جمالیے ہیں ۔


دوسری طرف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے باجوڑ حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گرد گروہوں کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے حکومت پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ بننے جارہا ہے ؟جب کہ پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے حال ہی میں کہا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کے تناظر میں اپنے دفاع کے لیے عالمی قانون پر عمل کریں گے ۔ اگر افغان حکام کارروائی نہیں کرتے تو افغانستان کے اندر کارروائی ہمارا ایک ایکشن ہو سکتا ہے۔

اس پس منظر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی اور افغان لیڈر شپ کی حال ہی میں ملاقات ہوئی ہے جس میں امریکی نمایندوں نے افغانستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اسلامی سال شروع ہونے سے چند دن پیشتر پاکستان کے آرمی چیف نے دو روزہ ایران کا دورہ کیا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور ایران مل کر سرحدی علاقوں میں پائی جانے والی دہشت گردی کاخاتمہ کریں خاص طور پر ایرانی بلوچستان اور سیستان میں جہاں دہشت گردوں کے مضبوط اڈے قائم ہیں۔

آپ ذرا غور فرمائیں جب سے سعودی عرب اور ایران میں دوستی ہوئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیوں کہ یہ دوبرادر اسلامی ملک اب مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑیں گے ۔

کابل سے انخلاء کے موقع پر امریکا کا یہ تاریخی بیان ریکارڈ پر ہے کہ خطے میں دہشت گردوں کا مقابلہ علاقائی قوتیں کریں گی۔ یعنی پاکستان ، ایران چین ، روس اور سینٹرل ایشین ریاستیں یعنی امریکی افواج ہمارے خطے میں اب کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہوں گی۔

ٹریلین ڈالر کی ایک بات ،بنیاد پرستی ہمارے ایک مخصوص طبقے کا خفیہ ہتھیار ہے ۔ اگر اس میں کوئی شک ہے تو پاکستان کی پوری تاریخ کا جائزہ لے لیں ۔ ایک نہیں بہت سے ثبوت مل جائیں گے کیونکہ اس طبقے کی بقاء ہی اسی میں ہے ، چاہے پاکستان کے وجود کا ہی خاتمہ ہو جائے ۔ موجودہ آدھا پاکستان اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔

دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ اگلے سال جنوری سے اپریل ، مئی میں شروع ہو جائے گی۔
Load Next Story