پختون قومی تاریخ دوسرا اور آخری حصہ

بدقسمتی یہ ہے کہ پختون قوم پہلے سے سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہے

jamilmarghuz1@gmail.com

قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک قومی حقوق کی تحریک باچا خان اور ولی خان کی قیادت میں فعال کردار ادا کرتی رہی' حالانکہ اس تحریک کے حاصلات بہت کم ہیں۔

ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ پختون قوم پرست تحریکیں ہر دور میں فعال رہیں 'یہ تحریک کسی فرد یا شخصیت کی مرہون منت نہیں'بلکہ حالات نے پختون قوم کو ایک مویشی پال قوم سے جنگی قوم بنادیا ۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پختون قوم کا ہر فرد 'کسی نہ کسی حد تک قوم پرست ہے۔اس لیے بعض دوستوں کا یہ دعوے کہ صرف کوئی ایک پارٹی یا فرد قوم پرست ہے'بنیادی طور پر غلط ہے۔

قیام پاکستان سے قبل دو دفعہ صوبہ سرحد میں خدائی خدمتگار تحریک کی حکومت بنی 'دونوں دفعہ باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب ' اس صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے' لیکن جب ون یونٹ کے نام پر مغربی پاکستان میں چھوٹی قومیتوں کی شناخت اور حقوق غصب کیے گئے تو ڈاکٹر خان صیب ہی ری پبلکن پارٹی کے قائد کی حیثیت سے 'اس ون یونٹ انتظامیہ کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور باچا خان پانچ سال کے لیے ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے کے جرم میں جیل چلے گئے 'توکیا ہم ڈاکٹر خان صیب کو اس لیے قوم پرست کہیں گے کہ وہ باچا خان کے بڑے بھائی تھے بلکہ وہ تو قومی تحریک کے غد ار کہلانے کے حقدار ہیں۔

اس لیے قوم پرستی کا جذبہ باچاخان کے ساتھ رشتے کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹھوس معروضی حالات میں قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کو کہتے ہیں۔باچا خان اور ولی خان نے اپنے دور میں قومی تحریک کاپرچم بلند کیا اور کامیابی سے تحریک کو چلایا حالانکہ اس دوران بھی پختون قوم کو درپیش مسائل حل نہ ہوسکے۔


اس کی وجوہات تحریک کی غلط پالیسیاں ہو سکتی ہیں لیکن ان شخصیات اور ان کے ساتھیوں کے خلوص پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ان رہنماؤں کی جدوجہد کا کریڈٹ کسی ایک فرد کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ پوری قوم کی جدوجہد تھی ۔ہر پختون قوم پرست ہو سکتا ہے شرط صرف یہ ہے کہ وہ پختون قوم کو درپیش مسائل کا ادراک کرے اور ان مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرے۔

پختون قوم کو درپیش آج کی قومی مسائل اور 1930اور 1980کی دہائیوں کے مسائل میں بہت زیادہ فرق ہے' اس کے لیے نئے ویژن اور'' قومی تحریک کاجدید نقطہ نظر'' اختیار کرنے کی ضرورت ہے' اجارہ داری کسی بھی شعبے میں اچھے نتائج نہیں دیتی ' یہ احساس اور بھی پختہ ہوجاتا ہے کہ پختونوں کی قومی تحریک کو کسی فرد ایک خاندان یا پارٹی کا یرغمال نہیں ہونا چاہیے ۔ایک فرقہ'' تکفیری'' کہلاتا ہے جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو غیر مسلم سمجھتا ہے۔

اسی طرح بعض دوست اپنی پارٹی کے علاوہ کسی اور کو پختون دوست اور قوم پرست ماننے کوتیار نہیں'یہ تکفیری رویہ قوم پرست قوتوں کے درمیان اتحاد کے بجائے نفرت بڑھاتا ہے' حالانکہ قومی مسائل کے حل کے لیے قومی پارٹیوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے 'آج کی صورت حال اور نوآبادیاتی دور کی صورت حال اور مسائل میں کافی فرق ہے۔

آج گلوبلائزیشن اور بائی پولر کے بجائے ملٹی پولر دنیا کا دور ہے اور ہماری سر زمین کئی قسم کے نئے مسائل سے دو چار ہے اس لیے ان مسائل کا ادراک رکھنے والی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والی قیادت اور پارٹی ہی صحیح معنوں میں قوم پرست کہلانے کی مستحق ہوگی۔

بدقسمتی یہ ہے کہ پختون قوم پہلے سے سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور اس پر مزید ستم یہ ہے کہ اس مظلوم اور مسائل زدہ قوم کے حقوق کو حاصل کرنے لیے قوم پرستی کے نام پر کئی پارٹیاں اور گروپ وجود میں آچکے ہیں اور ہر گروپ اصلی تے وڈے قوم پرست ہونے کا دعوے دار ہے'ہر کوئی اپنے نقطہ نظر کو ٹھیک کہتا ہے ۔اس طرح قومی حقوق کی تحریک بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔پختون قوم کو درپیش مسائل کا حال آیندہ۔
Load Next Story