بھارت اب فول پروف سیکیورٹی یقینی بنائے

ہماری حکومت اور آئی سی سی کو اس بات کویقینی بنانا چاہیے کہ بھارت میں پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ اچھا سلوک ہو

ہماری حکومت اور آئی سی سی کو اس بات کویقینی بنانا چاہیے کہ بھارت میں پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ اچھا سلوک ہو (فوٹو: ٹوئٹر)

''برینکنگ نیوز'' حکومت نے پاکستان ٹیم کو ورلڈکپ کیلیے بھارت جانے کی اجازت دے دی،میں نے جب ٹی وی پر یہ دیکھا تو یہی بات ذہن میں آئی کہ چلو غیریقینی کا خاتمہ تو ہوا، ویسے سچ بتاؤں تو مجھے ایک لمحے کیلیے بھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ ہمارے کھلاڑی پڑوسی ملک نہیں جائیں گے،پاکستانی حکومت نے کبھی کھیلوں کو سیاست کے ساتھ نہیں جوڑا،یہی وجہ ہے کہ فٹبال ٹیم سرحد پار گئی۔

ان دنوں ہاکی اسکواڈ بھی چنئی میں موجود ہے، ایسے میں کرکٹرز کو جانے سے روکنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی، ویسے ہی اب عبوری حکومتی سیٹ اپ سامنے آنے والا ہے،اس سے پہلے ہی ورلڈکپ میں شرکت کا فیصلہ ہونا ہی تھا۔

عموما پاکستان ٹیم کے حوالے سے ایسی بحث نہیں ہوتی لیکن سابق چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی نے دورے کو ایشیا کپ کیلیے بھارتی اسکواڈ کی آمد سے مشروط کر دیا تھا جس سے غیریقینی پیدا ہوئی، بھارت میں سیکیورٹی پر پاکستانی خدشات بھی غلط نہیں،خود منتظمین نے تہواروں کو وجہ بیان کر کے کئی میچز کا شیڈول تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اب یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیا پہلے تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا،حکومت پاکستان نے ہائی پروفائل کمیٹی تشکیل دی یقینا اس نے ہر لحاظ سے سوچ سمجھ کر ہی ٹیم کو جانے کی اجازت دی ہو گی لیکن وہاں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی،احمد آباد میں بھارت سے میچ ہونا ہے جہاں ایک لاکھ سے زائد شائقین آئیں گے۔

آئی پی ایل میچ میں شائقین نے اپنے ہی کھلاڑیوں پر نٹ بولٹ پھینک دیے تھے،اس شہر میں مسلمانوں کے ساتھ ماضی میں جو ہوا وہ بھی سب جانتے ہیں،البتہ ورلڈکپ میں امید ہے ہمارے کرکٹرز کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

اگر میں کرکٹنگ لحاظ سے بات کروں تو مجھ سمیت ہر پاکستانی کیلیے اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی جب ہمارے کھلاڑی عمدہ کارکردگی سے لاکھوں افراد کو خاموش کرا دیں گے، اگر کھچا کچھ بھرے اسٹیڈیم میں گرین شرٹس نے میزبان کو مات دے دی، بابر اعظم یا کسی اور کرکٹر نے سنچری بنائی، یا شاہین آفریدی نے 5 وکٹیں اڑا دیں تو کیا منظر ہوگا۔

آپ آنکھیں بند کرکے تصور کریں کہ احمد آباد میں پاکستانی کرکٹرز ہاتھ میں قومی پرچم لیے اور ٹرافی تھامے گراؤنڈ کا چکر لگا رہے ہیں،اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، میں آپ کو جھوٹی آس نہیں دلا رہا بلکہ کارکردگی کے لحاظ سے بات کی ہے۔

پاکستان ٹیم اور پلیئرز رینکنگ میں نمایاں ہیں، بھارت نے حال ہی میں کمزور ویسٹ انڈیز کو ون ڈے سیریز میں مات تو دی مگر اس دوران ایک شکست سے واضح ہوگیا کہ ٹیم اتنی مضبوط نہیں ہے،ہمارے کھلاڑیوں نے خود پر دباؤ سوار کیے بغیر سو فیصد پرفارم کیا تو فتح ممکن ہوگی،پی سی بی ماہر نفسیات ساتھ بھیجنے کا سوچ رہا ہے، یہ فیصلہ بھی درست ثابت ہو گا،البتہ اس ٹور میں اسکینڈلز سے بچنے کی بھی ضرورت ہوگی۔


بھارتی میڈیا رائی کا پہاڑ بنانے میں ماہر ہے، اس لیے کھلاڑیوں کو آف دی فیلڈ بھی ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا، ہماری ٹیم تو بھارت جا رہی ہے لیکن ساتھ یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ یہ یکطرفہ ٹریفک کب تک چلے گی، ہم تو کھیلوں میں سیاست نہیں لاتے لیکن بھارتی حکومت کیوں ایسا نہیں کرتی؟ ایشیا کپ اچھا خاصا پاکستان میں ہو جاتا لیکن انھوں نے تنازع کھڑا کر دیا، اب ہائبرڈ ماڈل کے تحت صرف چار میچز پاکستانی گراؤنڈز پر ہو رہے ہیں۔

سری لنکا میں بارش کا خطرہ بھی رہے گا ساتھ وہاں کے چھوٹے گراؤنڈز پر پاک بھارت میچز سے وہ ماحول بھی نہیں بن پائے گا، اب دنیا بھر کی ٹیمیں پاکستان آ کر کھیل چکیں، اس دوران شائقین کا رویہ مثالی رہا، سیریز ہارے تب بھی کسی نے کوئی چیز میدان میں نہیں پھینکی، نہ ہی مہمان کھلاڑیوں کو احساس ہوا کہ ملک سے دور کھیل رہے ہیں۔

انھیں بھی اچھے کھیل پر یکساں داد ملی،مجھے یقین ہے اگر بھارتی کرکٹرز یہاں آئے تو انھیں بھی بہت پیار ملے گا لیکن نریندر مودی جب تک وزیر اعظم ہیں ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا،پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف نے گذشتہ دنوں جے شاہ سے ملاقات بھی کی تھی، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں نہیں تو کسی تیسرے ملک میں ہی باہمی کرکٹ شروع تو ہو جائے۔

ماضی میں بھی ان کے دور میں ہی آخری بار گرین شرٹس سرحد پار گئے تھے، مگر مسئلہ بھارتیوں کی انتہا پسندانہ سوچ ہے،ذکا اشرف نے مجھے خود بتایا کہ جے شاہ ایشیا کپ کا میچ دیکھنے کیلیے پاکستان آنے پر تیار تھے اور ان کو بھی جوابی دورے کی دعوت دی تھی،مگر تنگ نظر لوگوں نے فورا جے شاہ کو تردید کرنے پر مجبور کیا۔

خیر ایشیا کپ کیلیے تو بلو شرٹس نہیں آ رہے لیکن 2025 میں چیمپئنز ٹرافی کیلیے آمد پر قائل کرنے کی ابھی سے کوشش کرنی چاہیے، ورنہ پھر ہائبرڈ ماڈل اپنانا پڑے گا جس سے ایونٹ کا مزا کرکرا ہو جائے گا،یقینا بھارت میں بھی لوگ پاکستانی کرکٹرز کو پسند کرتے ہوں گے لیکن انھیں اس کا اظہار کرنے کی آزادی نہیں،ایسا کیا تو ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے گا۔

شکر ہے ہمارے ملک میں ایسی سوچ نہیں، یہاں لوگ کوہلی کے نام کی شرٹ پہن کر گھومتے ہیں کسی کو اعتراض نہیں ہوتا، بھارت میں بابر کی شرٹ پہننے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا،اگر پاکستانی ٹیم ورلڈکپ کیلیے پڑوسی ملک نہیں جاتی تو آئی سی سی کی آمدنی پر بھی فرق پڑتا، صرف پاک بھارت میچ سے ہی اربوں روپے کی کمائی ہوتی ہے، گوکہ بھارتی حکومت کونسل کی نہیں سنتی لیکن سنجیدہ کوشش تو کرنی چاہیے۔

انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے ملک بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں، باہمی کھیلوں سے ملکوں کے تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں، ماضی میں کرکٹ ڈپلومیسی کام آئی تھی،البتہ شاید ہی کوئی اس حوالے سے کچھ کرے، فی الحال تو ہماری حکومت اور آئی سی سی کو اس بات کویقینی بنانا چاہیے کہ بھارت میں پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ اچھا سلوک ہو،معمولی سی چنگاری بھی بڑی آگ لگا سکتی ہے، اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا،امید ہے گرین شرٹس نہ صرف عمدہ کھیل بلکہ اچھے رویے سے بھی سب کا دل جیتیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story