ادائیگی کے باوجود شہریوں کو گاڑیاں نہ دینے والی کمپنیوں کا معاملہ ایف آئی اے کو بھیجنے کا فیصلہ
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آٹو موبائل کمپنیوں کا معاملہ ایف آئی اے کو بھیج دیا، تحقیقات کا حکم
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے شہریوں کو پیسے لینے کے باوجود گاڑیاں فراہم نا کرنے والی آٹو موبائل کمپنیوں کا معاملہ ایف آئی اے کو بھجوانے کی سفارش کردی۔
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نورعالم خان کی زیر صدارت ہوا، جس میں رکن کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے آٹو موبائل کمپنیوں کے معاملے پر بنائی گئی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ کے مطابق مختلف کمپنیوں نے شہریوں سے بھاری رقوم وصول کیں اور مقررہ رقم لینے کے بعد اضافی پیسے بھی مانگے گئے اُس کے باوجود شہریوں کو وقت پر گاڑیاں فراہم نہیں کی گئیں۔
سلیم مانڈی والا نے کہا ہم نے اضافی رقم صارفین کو واپس کرنے کی ہدایت کی ہے، اگر ای ڈی بی ناکام ہوتا ہے تو معاملہ ایف آئی اے کو دیا جائے۔
چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نورعالم خان نے کہا لوگوں سے بہت زیادہ رقوم لی گئیں، کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کر دیا۔ چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا سو فیصد رقم لےکر کہتے ہیں،40چالیس لاکھ مزید دیئےجائیں۔
کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ آڈیٹرجنرل ،ای ڈی بی، وزارت صنعت و پیداوار اور تجارت کے نمائندے بھی تحقیقات میں شامل کئے جائیں۔
اس کے علاؤہ اجلاس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی آڈٹ رپورٹ 2020/21 کا جائزہ لیا گیا، ایف پی ایس سی میں ڈائریکٹر کی خلاف ضابطہ تعیناتی سامنے آئی، کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ رمیض احمد نے 2008 میں بطور ڈائیریکٹر ایف پی ایس سی کو جوائن کیا جبکہ رمیض احمد کی بطور ڈائیریکٹر ایف پی ایس سی کی تعیناتی خلاف ضابطہ تھی، رمیض احمد آج بھی ایف پی ایس سی میں ڈی جی تعینات ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کر دیا اور رمیض احمد کو ڈی جی ایف پی ایس سی کو عہدے سے ہٹانے کی ہدایت بھی کی۔ کمیٹی نے ایف آئی اے کو ہدایت کی جس نے ان کی غیر قانونی تعیناتی کی اُنکا بھی احتساب کریں، پی اے سی نے ایف پی ایس سی میں پچھلے 15 سال میں ہونے والی تعیناتیوں کا آڈٹ کروانے کا حکم دے دیا۔