نئی نسل کا وزیراعظم بننے کا ادھورا خواب
پاکستان میں بڑی پارٹیاں ان کے سربراہوں کی آبائی جائیداد ہے جس کی وراثت ان کے اپنے وارث اپنا حق سمجھتے ہیں
ایکسپریس کے تجزیہ وکالم نگار جاوید چوہدری نے لکھا تو درست ہے کہ تعلیمی میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانے والا، بونیر کا نوجوان رحمن علی کتنا نادان ہے کہ وہ وزیر اعظم بننے کی خواہش کا اظہارکر رہا ہے۔
یہ بھی سو فیصد درست ہے کہ لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے نوجوان اپنی قابلیت کے باعث وزیر اعظم، وزیر و مشیر تو کیا کبھی معاون خصوصی بھی نہیں بن سکیں گے کیونکہ یہ ملک چار بڑی جماعتوں کی قیادت کی میراث ہے اور انھی جماعتوں کی قیادت اپنے بعد اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور بھائیوں کو ہی ملک میں حکمرانی کا حق دار سمجھتی ہے اور ان کی پارٹیوں کے دیگر رہنما ملکی سربراہی یا اپنی پارٹی کی قیادت کرنے کا خواب دیکھ سکتے ہیں یا سوچ ہی سکتے ہیں۔
ملک میں اب تک صرف تین رہنما ہی خوش نصیب تھے جو حکمران خاندان سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اپنی پارٹی کے قائدین کی مجبوری کے باعث وزیر اعظم بنائے گئے جن میں دو ایک سال بھی اقتدار میں نہیں رہے تھے البتہ یوسف رضا گیلانی کو ضرور چار سال تک حکومت کرنے کا موقعہ ملا تھا۔
راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی بھٹو یا شریف خاندان سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود وزیر اعظم بنائے گئے تھے، جن کا تعلق ضلع راولپنڈی سے تھا اور راولپنڈی واحد شہر ہے جس کی زمین پر دو وزیر اعظم شہید اور اس کی فضا میں ایک پھانسی پر چڑھایا گیا تھا اور تینوں کا تعلق سندھ سے تھا۔
قاتلانہ حملے میں بچ جانے والی ملالہ یوسف زئی نے بھی عالمی شہرت ملنے کے بعد اپنے ملک کا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھا تھا مگر جلد انھیں احساس ہو گیا کہ ملک میں اقتدار اپنا آبائی حق سمجھنے والی چار جماعتیں موجود ہیں اور ایک سابق کرکٹر سے زیادہ شہرت حاصل کرنے کے باوجود نہ وہ اپنی نئی سیاسی جماعت بنا کر اپنا خواب پورا کر سکتی ہیں اس لیے انھوں نے اپنا ملک چھوڑا شادی کرکے گھر بسا لیا جو ان کی عقل مندی کا مظہر ہے۔
انھوں نے نوبل انعام یافتہ ہونے پر ہی قناعت کی جب کہ 1992 میں کرکٹ کے باعث عالمی شہرت حاصل کرنے والے نے 1996 میں اپنی نئی پارٹی ضرور بنائی تھی اور 22 سال تک قوم سے جھوٹے وعدے اور بالاتروں کو اپنی قابلیت و ایمان داری کا یقین دلا کر شریفوں اور زرداری خاندان پر کڑی تنقید اور الزامات لگا کر اقتدار ضرور حاصل کرلیا تھا جس کی قابلیت، پارٹی کی صلاحیت اور ذاتی ایمان داری کی پول اس کے اقتدار میں کھل گئی۔ اس نے اقتدار کے لیے اپنا بسا بسایا گھر ضرور اجاڑا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
عالمی شہرت یافتہ ملالہ یوسف زئی کو اقتدار ملنے کی توقع نہیں تھی تو وزیر اعظم سے اپنی قابلیت کے باعث لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے نوجوان اور چند لمحوں کے لیے وزیر اعظم کی نشست جو عارضی تھی پر بیٹھ جانے والا رحمن علی ملک کا وزیر اعظم بننے کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے؟
76 سالوں سے پاکستان کا اقتدار ایسے لوگوں کو ملتا رہا ہے جنھیں نہ نوبل پرائز سے شہرت ملی تھی نہ انھوں نے اپنی قابلیت سے سرکاری لیپ ٹاپ حاصل کیا تھا۔
صرف ایک شخص نے اپنی شہرت کے باعث اپنی پارٹی بنائی اور پندرہ سالوں میں صرف ایک بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا ، پندرہ سال دھکے کھا کر بالاتروں کو اپنی سرپرستی کے لیے قائل کرکے سات سال بعد آر ٹی ایس بیٹھ جانے اور اتحادی دلائے جانے سے اقتدار میں آیا اور پونے چار سال تک اپنے تکبر، من مانیوں اور غیر جمہوری فیصلوں کے باعث ملک میں پہلی بار آئینی طریقے سے اقتدار سے نکالا گیا۔
اقتدار بچانے کے لیے اس نے سائفر سے لے کر اور بہت سے الزامات لگائے ۔ یہ سابق وزیر اعظم جو خود کو بہادر سمجھتا ہے 28 نومبر گزرنے کا منتظر رہا اور اب سر عام اپنے اسی محسن پر اقتدار سے ہٹانے کی سازش کے الزامات لگا رہا ہے جس کی تعریفوں کے پہلے پل باندھتا تھا۔
چار بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کو یہ پارٹیاں وراثت میں ملی ہیں۔ نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کو اپنی وراثت میں ملی ہیں۔
نواز شریف نے اپنا گروپ بنایا تھا جو مسلم لیگ (ن) کے نام سے مشہور ہے جب کہ اصل مسلم لیگ ہندوستان میں قائد اعظم نے قائم کی تھی اور اسی مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا جس کے مختلف گروپ ملک میں موجود ہیں اور 1985کے بعد (ن) لیگ اور (ق) لیگ اقتدار میں رہیں اور (ن) لیگ اہم پارٹی ہے۔
آصف زرداری کو اپنی بیگم کے ذریعے اور فضل الرحمن کو اپنے والد کے ذریعے پارٹی کی سربراہی ملی مگر بے نظیر بھٹو یا مولانا مفتی محمود اپنی پارٹیوں کے بانی نہیں تھے۔
1996 میں بننے والی پی ٹی آئی بھی نظریاتی نہیں بلکہ شخصی اور مفاداتی پارٹی ہے جس کے ایک رہنما فواد چوہدری نے کہا تھا کہ سیاسی پارٹیاں بنائی ہی اقتدار کے حصول کے لیے جاتی ہیں اور ان میں شامل ہونے والے بھی شرکت اقتدار کے لیے اس میں شامل ہوتے ہیں اور یہ بات سو فیصد حقیقت ہے۔
حکومت کرنے یا حکومتوں میں شامل رہنے والی پارٹیوں کے سربراہوں کے سیاسی وارث موجود ہیں صرف پی ٹی آئی کے چیئرمین کے بیٹے سالوں سے ملک میں نہیں لندن کے رہائشی ہیں اور ان کا پاکستان سے تعلق صرف یہ ہے کہ ان کے والد پاکستانی سیاستدان ہیں جو سالوں بیٹوں سے ملنے لندن نہیں جاتے کیونکہ انھیں بیٹوں سے زیادہ اقتدار عزیز ہے اور ان کی متوقع نااہلی اور سزا کے بعد پارٹی سربراہی شاہ محمود قریشی اور چوہدری پرویز الٰہی اپنا حق سمجھتے ہیں جب کہ پارٹی سے دو بڑے گروپ پہلے ہی الگ ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی بکھر چکی ہے ۔
پاکستان میں بڑی پارٹیاں ان کے سربراہوں کی آبائی جائیداد ہے جس کی وراثت ان کے اپنے وارث اپنا حق سمجھتے ہیں اور عوام بھی ان کے پیچھے ہیں جن کی عقل مندی یہ ہے کہ وہ شعور کے بجائے باپ کے بعد باپ بیٹے اور بیٹی کو اپنا قائد بنا لیتے ہیں۔