بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار

بھارت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےلیے نہایت غیر محفوظ ملک بن چکا ہے


بھارتی مسلمان نہایت دگرگوں حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ آئے روز مختلف علاقوں میں فسادات کرکے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، ان کے گھر مسمار کیے جارہے ہیں، کہیں مساجد کو آگ لگائی جارہی ہے اور کہیں مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔ چند روز قبل ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی اور مسجد کو بچانے کےلیے آنے والے پیش امام کو بھی شہید کردیا گیا۔


ہریانہ میں 50 سے زائد مسلمانوں کے گھر اور دکانیں گرادی گئیں اور اس کو تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔ مگر وہاں کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ہندو انتہاپسند جماعتوں کے کہنے پر یہ کارروائیاں کررہی ہے اور یہ کارروائیاں بھی صرف مسلمانوں کے خلاف ہورہی ہیں۔ اگر تجاوزات کے نام پر آپریشن کیا جارہا ہے تو مسلمانوں کے علاوہ بھی دیگر لوگوں کی عمارات گرائی جاتیں مگر صرف مسلمانوں کو ہی اس کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو انتہاپسند خاص طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کےلیے یہ کارروائیاں کررہے ہیں۔


بھارتی مسلمان نہایت دگرگوں حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں ان کےلیے بہت سے مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں، آئے روز ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو شہید کیا جاتا ہے۔


بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے لیکن وہاں ہندوؤں کی تعداد ان سے بھی کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان اقلیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ متحد ہوکر ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت بہت سے علمائے کرام جو پاکستان کے مخالف تھے، ان کا نقطہ نظر یہی تھا کہ اگر پاکستان بن گیا تو مسلمان تقسیم ہوجائیں گے، کچھ پاکستان میں رہ جائیں گے، کچھ بنگال میں اور کچھ ہندوستان میں، مگر ہندو متحد رہیں گے۔ لیکن اس وقت پاکستان بنانا بھی ضروری تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگی رہنماؤں نے پاکستان کے وجود کےلیے انتھک محنت کی۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی ایسا فارمولا نہیں لایا جاسکتا تھا کہ تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کےلیے انہیں ایک جگہ جمع کردیا جائے۔


بہت بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے مسلمان پاکستان تو آگئے مگر ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو پاکستان میں لانا ممکن نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو وہ تھے جو پاکستان کے حامی تھے مگر مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کی طرف ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو پاکستان کے وجود کے مخالف تھے مگر آج ان لوگوں کو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا اور آج انہیں بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی ضرورت بھی محسوس ہورہی ہوگی۔ بلکہ انہیں ہی نہیں، ہمیں بھی اب بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ پھر سے ایک بار مسلمان محنت کریں اور جدوجہد کرکے بھارت کو مزید تقسیم کرکے ایک اور پاکستان بنائیں۔ بظاہر تو یہ ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ اب بھارت کے اندر ایسی کوئی ریاست نہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں۔ 1947 کے وقت یا اس سے قبل جن ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں تھے، انہیں ملا کر تو الگ وطن بنا لیا گیا مگر اب کوئی ایسی ریاست نہیں جس میں مسلمان اکثریت میں ہوں، لہٰذا بظاہر تو یہ ایک خواہش ہی ہے جس کی تکمیل مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔


بھارت اپنے سیکولرازم کے دعوے کے باوجود سیکولر نہیں بن سکا اور وہاں ہندوتوا کا راج ہے، جو مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مزید پروان چڑھ رہا ہے۔ مودی حکومت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور ہندو انتہاپسندوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اقلیتوں کو ہندوستان میں سکھ کا سانس نہ لینے دیں۔ ان غنڈوں نے بھی اپنی اس جنونی ذمے داری کو خوب نبھایا اور مسلمانوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔


بھارت میں مسلمانوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انسانیت سوز مظالم کے ساتھ ان کے گھروں کو گرا دیا جاتا ہے، مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور انہیں شہید کردیا جاتا ہے۔ بابری مسجد جیسی تاریخی مسجد کو فقط رام کی جائے پیدائش قرار دے کر شہید کردیا گیا جس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر وہاں کی عدالتیں بھی اس قدر اندھی اور متعصب ہیں کہ کسی ثبوت کے بغیر اسے درست قرار دے دیتی ہیں اور ان میں ملوث مجرموں کو باعزت بری کردیتی ہیں۔


بھارتی حکومت اور عدالتوں کے رویوں کی وجہ سے بھارت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےلیے نہایت غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے اقوام متحدہ جیسا فورم بھی بھارتی مظالم سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارت کے مسلمان کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں