کرتارپور راہداری پاکستانی خاتون 75 سال بعد بچھڑے بھائی سے مل گئی
1947 سے قبل سکینہ کی والدہ اور ان کا خاندان لدھیانہ کے نورپور گاؤں میں مقیم تھے
کرتارپور راہداری نے ایک پاکستانی خاتون کو 75 سال بعد اس کے بچھڑے بھائی سے ملوا دیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات شروع سے ہی کشیدگی کا شکار رہے ہیں لیکن چار کلو میٹر کی یہ راہداری محبت، امید اور بچھڑوں ہوئے کو ملانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔
گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور میں جب 74 سالہ سکینہ اپنے بھائی گرمیل سنگھ کے گلے ملیں تو دونوں بہن بھائیوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہوگئی۔ یہ جذباتی مناظر دیکھنے والے بھی آبدیدہ ہوگئے۔ پچہتر سال بعد اپنے بھائی سے ملنے والی سکینہ بی بی شیخوپورہ کے نواحی علاقہ گورداس کی رہائشی ہیں۔
دل دہلا دینے والی کہانی تقسیم کے دردناک واقعات سے ملتی ہے۔ 1947 سے قبل سکینہ کی والدہ اور ان کا خاندان لدھیانہ کے نورپور گاؤں میں مقیم تھے۔ تقسیم کے ہنگاموں کے دوران سکینہ کی والدہ کرامتے بی بی کو اغوا کرلیا گیا جبکہ باقی خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا تھا۔
تقسیم کے بعد جب پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں نے اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والے افراد کی تلاش شروع کی تو سکینہ کی والدہ کا بھی سراغ مل گیا تو لدھیانہ کے جوسوال گاؤں میں تھیں اور ان کی ایک سکھ خاندان میں شادی ہوچکی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ پولیس جب سکینہ کی والدہ کرامتے بی بی کو لیکر پاکستان لانے لگی تو اس وقت ان کا بیٹا گرمیل کھیلنے کے لیے گھر سے باہر تھا۔ انہوں نے پولیس سے التجا کی کہ اسکے بیٹے کو بھی ساتھ لینے دیں مگر پولیس نے کرامتے بی بی کی کوئی التجا نہ سنی اور انہیں لیکر پاکستان ان کے خاندان کے پاس پہنچا دیا گیا۔
سکینہ بی بی نے بتایا کہ جب ان کی والدہ پاکستان آگئیں تو دو سال بعد وہ پیدا ہوئیں، وہ اپنے بیٹے کے لیے خط لکھتی تھیں جو واپس آجاتے تھے۔ بیٹے سے دوبارہ ملنے کی آس لیے ان کی والدہ فوت ہوگئیں، ان کے پاس اپنے بیٹے گورمیل کی ایک فوٹو بھی تھی جو انہوں نے سنبھال کر رکھی۔ سکینہ بی بی کے مطابق جب وہ بڑی ہوئیں اور انہوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا تو خود وہ خط پڑھے اور پھر اپنے والد سے والدہ بارے پوچھا تو انہوں نے تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے اپنے بھائی کی تصویر اور خط سنبھال کر رکھے ہیں۔
اس دوران پنجابی لہر یوٹیوب چینل کے ناصر ڈھلوں نے سکینہ بی بی کا انٹرویو کیا۔ یہ ویڈیو لدھیانہ میں جسووال سوڈان گاؤں کے سرپنچ جگتار سنگھ نے دیکھی اور انہوں نے سکینہ بی بی کے بھائی کی تلاش شروع کر دی اور بلآخر ان کی کوششوں سے گرو میل سنگھ کو تلاش کرلیا گیا، دونوں کا رابطہ ہوا اور بلآخر 75 سال بعد دونوں بہن بھائیوں کی ملاقات بھی ہوگئی۔
سکینہ بی بی کا کہنا ہے انہیں امید نہیں تھی کہ وہ کبھی اپنے بچھڑے بھائی سے مل سکیں گی لیکن اللہ نے ان کی خواہش پوری کر دی، وہ ہمیشہ اللہ کے حضور دعا مانگتی تھیں۔ گورمیل سنگھ کا کہنا تھا یہ قسمت کا کھیل ہے کہ وہ سکھ خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کے پاس ہی پلے بڑھے اور ان کی والدہ اور بہن مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے قانونی مسائل کی وجہ سے وہ مستقل طور پر یہاں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی سکینہ انڈیا جا سکتی ہیں لیکن اب وہ بہت جلد واہگہ کے راستے ویزا لیکر پاکستان اپنی بہن کے پاس آئیں گے اور سکینہ ان کے پاس لدھیانہ جائے گی۔
سادہ لیکن خوشگوار اور خوشیوں بھرے ماحول میں ملنے والے بہن بھائیوں نے اپنی پائیدار محبت کے نشان کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کیا۔ گورمیل اپنی بہن کے لیے خاص گاؤں کے پکے ہوئے بسکٹ لائے جبکہ سکینہ نے ایک گھڑی اور چاندی کی راکھی، جو ان کے ابدی بہن بھائی کے تعلق کی علامت ہے اپنے بھائی کی کلائی پر باندھی۔
اس موقع پر دونوں طرف سے 16 کے قریب افراد بھی موجود تھے جن میں سکینہ کے شوہر، ان کے داماد اور دیگر رشتے دار شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات شروع سے ہی کشیدگی کا شکار رہے ہیں لیکن چار کلو میٹر کی یہ راہداری محبت، امید اور بچھڑوں ہوئے کو ملانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔
گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور میں جب 74 سالہ سکینہ اپنے بھائی گرمیل سنگھ کے گلے ملیں تو دونوں بہن بھائیوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہوگئی۔ یہ جذباتی مناظر دیکھنے والے بھی آبدیدہ ہوگئے۔ پچہتر سال بعد اپنے بھائی سے ملنے والی سکینہ بی بی شیخوپورہ کے نواحی علاقہ گورداس کی رہائشی ہیں۔
دل دہلا دینے والی کہانی تقسیم کے دردناک واقعات سے ملتی ہے۔ 1947 سے قبل سکینہ کی والدہ اور ان کا خاندان لدھیانہ کے نورپور گاؤں میں مقیم تھے۔ تقسیم کے ہنگاموں کے دوران سکینہ کی والدہ کرامتے بی بی کو اغوا کرلیا گیا جبکہ باقی خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا تھا۔
تقسیم کے بعد جب پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں نے اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والے افراد کی تلاش شروع کی تو سکینہ کی والدہ کا بھی سراغ مل گیا تو لدھیانہ کے جوسوال گاؤں میں تھیں اور ان کی ایک سکھ خاندان میں شادی ہوچکی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ پولیس جب سکینہ کی والدہ کرامتے بی بی کو لیکر پاکستان لانے لگی تو اس وقت ان کا بیٹا گرمیل کھیلنے کے لیے گھر سے باہر تھا۔ انہوں نے پولیس سے التجا کی کہ اسکے بیٹے کو بھی ساتھ لینے دیں مگر پولیس نے کرامتے بی بی کی کوئی التجا نہ سنی اور انہیں لیکر پاکستان ان کے خاندان کے پاس پہنچا دیا گیا۔
سکینہ بی بی نے بتایا کہ جب ان کی والدہ پاکستان آگئیں تو دو سال بعد وہ پیدا ہوئیں، وہ اپنے بیٹے کے لیے خط لکھتی تھیں جو واپس آجاتے تھے۔ بیٹے سے دوبارہ ملنے کی آس لیے ان کی والدہ فوت ہوگئیں، ان کے پاس اپنے بیٹے گورمیل کی ایک فوٹو بھی تھی جو انہوں نے سنبھال کر رکھی۔ سکینہ بی بی کے مطابق جب وہ بڑی ہوئیں اور انہوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا تو خود وہ خط پڑھے اور پھر اپنے والد سے والدہ بارے پوچھا تو انہوں نے تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے اپنے بھائی کی تصویر اور خط سنبھال کر رکھے ہیں۔
اس دوران پنجابی لہر یوٹیوب چینل کے ناصر ڈھلوں نے سکینہ بی بی کا انٹرویو کیا۔ یہ ویڈیو لدھیانہ میں جسووال سوڈان گاؤں کے سرپنچ جگتار سنگھ نے دیکھی اور انہوں نے سکینہ بی بی کے بھائی کی تلاش شروع کر دی اور بلآخر ان کی کوششوں سے گرو میل سنگھ کو تلاش کرلیا گیا، دونوں کا رابطہ ہوا اور بلآخر 75 سال بعد دونوں بہن بھائیوں کی ملاقات بھی ہوگئی۔
سکینہ بی بی کا کہنا ہے انہیں امید نہیں تھی کہ وہ کبھی اپنے بچھڑے بھائی سے مل سکیں گی لیکن اللہ نے ان کی خواہش پوری کر دی، وہ ہمیشہ اللہ کے حضور دعا مانگتی تھیں۔ گورمیل سنگھ کا کہنا تھا یہ قسمت کا کھیل ہے کہ وہ سکھ خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کے پاس ہی پلے بڑھے اور ان کی والدہ اور بہن مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے قانونی مسائل کی وجہ سے وہ مستقل طور پر یہاں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی سکینہ انڈیا جا سکتی ہیں لیکن اب وہ بہت جلد واہگہ کے راستے ویزا لیکر پاکستان اپنی بہن کے پاس آئیں گے اور سکینہ ان کے پاس لدھیانہ جائے گی۔
سادہ لیکن خوشگوار اور خوشیوں بھرے ماحول میں ملنے والے بہن بھائیوں نے اپنی پائیدار محبت کے نشان کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کیا۔ گورمیل اپنی بہن کے لیے خاص گاؤں کے پکے ہوئے بسکٹ لائے جبکہ سکینہ نے ایک گھڑی اور چاندی کی راکھی، جو ان کے ابدی بہن بھائی کے تعلق کی علامت ہے اپنے بھائی کی کلائی پر باندھی۔
اس موقع پر دونوں طرف سے 16 کے قریب افراد بھی موجود تھے جن میں سکینہ کے شوہر، ان کے داماد اور دیگر رشتے دار شامل ہیں۔