اسے ٹیسٹ کیس بنائیں
آج ہم جس سنگین معاشی بحران کا شکار ہیں، اس میں برآمدات کی کمی ایک بہت بڑی وجہ ہے
چند سال پہلے جب ہم اسلام آباد میں ملک کے ایک انتہائی ذہین نوجوان علی معین نوازش (جو اب پی ایچ ڈی کے لیے امریکا گئے ہوئے ہیں) کی شادی میں شریک تھے تو میرے برابر والی نشست پر ایک شریف آدمی آکر بیٹھ گئے۔
انھوں نے بڑے تپاک سے مصافحہ کیا اور بتایا کہ ان کا تعلق نارووال سے ہے۔ نوجوانوں میں بے حد مقبول گارمنٹس کا برانڈ اُن کا ہے۔ لاہورمیں ان کی گارمنٹس فیکٹری ہے مگر وہ رہتے اسلام آباد میں ہیں۔ اپنے آبائی علاقے میں وہ خدمتِ خلق کا کام کرتے ہیں اور اس کے لیے وہاں گاہے بگاہے جاتے رہتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ لاہور اور اسلام آباد کے ہر بڑے شاپنگ سینٹر میں ان کی outlets موجود ہیں۔ اس پہلی ملاقات کے بعد چوہدری خورشید کاہلوں صاحب سے گاہے بہ بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
میں اُن دنوں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے قومی ادارے نیوٹیک کا سربراہ تھا اور ہم ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی طلب کے مطابق نوجوانوں کو ہنر فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ کپڑوں کی سلائی ایک بے حد اہم ہنر ہے اور ہم اپنے زیرِ تربیت لڑکوں اور لڑکیوں کو اچھّے سے اچھّے اداروں اور فیکٹریوں کے ساتھ منسلک کررہے تھے۔
اسی سلسلے میں لاہور میں خورشید کاہلوں صاحب کی فیکٹری کا بھی دورہ کیا۔ فیکٹری کی جدید مشینری اور اس کے ماحول اور ڈسپلن نے بہت متاثر کیا۔
2018میں حکومت تبدیل ہوگئی تو میں نے نیو ٹیک کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا اور ہنرمندی کی سرگرمیوں سے میرا رابطہ ختم ہوگیا، مگر پرانے ساتھیوں اور اِس شعبے میں پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ملکوں(donors)کے نمایندوں کے فون آتے رہتے تھے کہ نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا کام ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ ایسی خبریں سن کر دکھ ہوتا تھا ۔
پھر یہ بھی خبریں ملتی رہیں کہ ایک سال ضایع کرنے کے بعد نئی حکومت نے ٹریننگ کا کام تو شروع کردیا ہے مگر غریب نوجوانوں کو جو تین ہزار روپے ماہوار وظیفہ دیا جاتا تھا، اور ٹریننگ مکمل کرنے پر انھیں جو ٹول کِٹ فراہم کی جاتی تھی، وہ دونوں سہولتیں ختم کردی ہیں۔ مگر آج ہمارا موضوع دوسرا ہے۔
چند روز پہلے خورشید کاہلوں صاحب کا فون آیا کہ میں آپ کے پاس ایک دعوت نامہ دینے آرہا ہوں۔ میں نے کہا بخوشی تشریف لائیں۔ ملاقات ہوئی تو کاہلوں صاحب نے بتایا کہ انھوں نے لاہور میں رائے ونڈ روڈ پر 56 ایکڑ زمین خریدی ہے۔
میں نے کہا کہ آپ یقیناً وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنارہے ہوں گے۔ کہنے لگے ''نہیں میں وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بنارہا بلکہ ایک بہت بڑی فیکٹری لگارہا ہوں''۔ یہ سن کر میں حیرانی سے ان کا منہ تکتا رہ گیا، اس لیے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ہر مالدار شخص، ہر کروڑ پتی، اور تقریباً ہر صنعتکار اپنا سرمایہ رئیل اسٹیٹ میں لگا رہا ہے۔
یہ لوگ اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے ہیں یا چار چار کروڑ کے چند رہائشی پلاٹ خرید کر آرام سے گھر بیٹھ جاتے ہیں اور صنعت کے گوناگوں مسائل میں پڑے بغیر ایک سال بعد وہی پلاٹ آٹھ آٹھ کروڑ کے بیچ دیتے ہیں۔ یا پھر دس دس کروڑ کے چند کمرشل پلاٹ خریدتے ہیں اور دو سال بعد انھیں دگنی قیمت پر یعنی بیس بیس کروڑ میں بیچ دیتے ہیں، یوںگھر بیٹھے بٹھائے کسی ہینگ اور پھٹکری کے بغیر انڈسٹری سے کہیں زیادہ منافع کمالیتے ہیں۔
اسی لیے ہر سرمایہ دار کا رجحان رئیل اسٹیٹ کی طرف ہوگیا، مگر اس سے ملک کا بہت زیادہ نقصان ہوا کہ نئی انڈسٹری لگنی بند ہوگئی جس سے برآمدات میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی۔
میں نے حیرت سے کاہلوں صاحب کی جانب دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھا،''آپ واقعی فیکٹری لگارہے ہیں''۔ انھوں نے کہا ''الحمداللہ میں فیکٹری ہی لگارہا ہوں۔
لاہور میں تین پارٹیوں نے پچاس پچاس ایکڑ رقبے پر مشتمل اکنامک زون قائم کیے ہیں، جن کا افتتاح وزیراعظم صاحب کررہے ہیں''۔ خورشید صاحب اکنامک زون اور فیکٹری کے افتتاح کے بعد پھر مجھے ملنے کے لیے آئے تو کہنے لگے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ میرے فیکٹری لگانے پر کیوں حیران ہورہے تھے، یہ درست ہے کہ آج اس ملک میں فیکٹری لگانا آسان نہیں ہے، یہ جان جوکھوں کا کام ہے، یہ آگ کا دریا پار کرنے کے برابر ہے۔
یہ ایسا تالاب تیر کر عبور کرنے والا رسک ہے جس میں خونخوار مگرمچھ منہ کھولے آپ کو ہڑپ کرنے کے منتظر ہوں۔ صنعت لگانے والے کو اٹھائیس مختلف اداروں یعنی انسان نما بھیڑیوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے خون کے پیاسے ہیں، پٹواری سے لے کر واپڈا تک اور سوئی گیس سے لے کر انکم ٹیکس تک تمام منہ کھولے بیٹھے ہیں، اگر آپ فائل لے کر جائیں تو وہ اس میں سو نقص نکالیں گے۔
آپ کو ان کا منہ بند کرنے اور اپنی فائل آگے چلانے کے لیے ان کے منہ میں لاکھوں روپیہ بھی ٹھونسنا پڑتا ہے اور ان کے بڑے اور چھوٹے اہلکاروں کی توہین آمیز باتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے ملک میں کوئی انڈسٹری نہیں لگی، بلکہ صنعتکاروں نے بہت سی فیکٹریاں بند کردی ہیں جس سے بیروزگاری بڑھی ہے اور برآمدات میں بہت کمی ہوئی ہے۔
لہٰذا ملک کے لیے کچھ کرنے کے جذبے نے مجھے فیکٹری لگانے کی جانب راغب کیا ہے ، اب اِس سے کچھ نہ کچھ برآمدات میں اضافہ ہوگا اور سیکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔
میں نے پوچھا کہ آج کل کی صورتِ حال کے پیشِ نظر آپ کا یہ اقدام بے حد قابلِ تحسین ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ حکومت نے بھی آپ کو پوری طرح facilitate کیا ہوگا ۔ اس سوال نے تو ان کے زخموں کو چھیڑدیا اور وہ پھٹ پڑے، کہنے لگے کہ میرے ساتھ سرکاری محکموں نے وہ حشر کیا ہے کہ جیسے
گھری ہوئی ہو طوائف تماش بینوں میں
فیکٹری کے لیے بجلی اور گیس کا کنکشن لینا ہمارا حق ہے۔ مگر اس حق کے حصول کے لیے ہم سے کروڑوں روپیہ رشوت لی گئی، گیس کے لیے بھی ہمیں پیسے دینے پڑے، ایف بی آر کے افسران کی خواہشات پوری نہ ہوئیں تو انھوں نے ہماری پہلی فیکٹری پر دھاوا بول دیا، ہماری خواتین ملازمین کو بے عزت کیا اور سارے کمپیوٹر لے گئے۔
ہر قدم پر رشوت، ہر مرحلے پر ذلّت آمیز سلوک اور اذیّت ناک تاخیر۔ خاک مدد ہوئی ہے ہماری ۔ میرے بیٹے بار بار مجھے کہتے تھے کہ ''بابا اس ملک میں فیکٹری لگانا تو شاید کوئی بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ جونہی آپ فیکٹری لگانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں ،کئی درجن محکمے آپ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور آپ کو نوچنا شروع کردیتے ہیں''۔
آج ہم جس سنگین معاشی بحران کا شکار ہیں، اس میں برآمدات کی کمی ایک بہت بڑی وجہ ہے، میں ماہرینِ معاشیات سے پوچھتا پھرتا ہوں کہ ہماری بربادی کہاں سے شروع ہوئی اور کون کون اس کا ذمے دار ہے؟ کاہلوں صاحب کی روداد سن کر بہت سے مجرموں کا کھوج مل گیا ہے۔
ہمارے سرکاری دفتر عوامی خدمت اور رہنمائی کے مرکز نہیں رہے، مال بنانے کے اڈّے بن چکے ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں میں اب پبلک سرونٹس نہیں بیٹھتے وہاں ڈاکو براجمان ہیں جو سرِ عام لوٹ مار میں مصروف ہیں مگر کوئی انھیں روکنے والا یا پوچھنے والا نہیں۔ قدم قدم پر ہماری بربادی کے ذمے دار دندناتے پھرتے ہیں۔
کاش کوئی حکمران اس کیس کو ہی ٹیسٹ کیس بنائے، خورشید کاہلوں کو بلواکر پوچھے اور ا ن سے جس جس محکمے کے اہلکار وں نے رشوت لی ہے اور فائل روکنے کی کوشش کی ہے، ان سب کو عبرت کا نشان بنادے ۔
تمام سرکاری اداروں اور محکموں کو واضح پیغام دیا جانا چاہیے کہ اس ملک میں صنعت لگانے والے ملک اور قوم کے محسن ہیں، ہر سرکاری اہلکار پر لازم ہے کہ ان محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھائے۔ان کے سرمائے سے سیکڑوں بیروزگاروں کے گھروں میں چولہا جلے گا اور ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوگا، ان کی مدد کرنا ہمارا قومی فرض ہے، ان کی فائل کو تیزی سے چلانا اور اس کے راستے کی سب رکاوٹیں دور کرنا حکومت کی ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر نئی صنعت لگانے والوں کی سہولت کاری کے لیے بورڈ آف انوسٹمنٹ کو وَن ونڈو facilitation centre میں تبدیل کر دے اور وہاں اُن تمام سرکاری محکموں کا ایک ایک سینئر افسر بٹھایاجائے جن سے سرمایہ کار کو واسطہ پڑتا ہے۔
ان تمام محکموں سے اجازت نامے یا کنکشن لینا، سرمایہ کار کی نہیں اُن سرکاری افسروں کی ذمے داری ہو اور اُن پر لازم ہو کہ وہ دو ہفتے میں تمام کام مکمل کراکے فیکٹری کے لیے تمام اجازت نامے اور کنکشن کے احکامات حاصل کرکے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ سرمایہ کار کے حوالے کریں۔
جن ملکوں میں صنعت کو فروغ ملا ہے اور برآمدات بے تحاشا بڑھی ہیں وہاں سرکاری اہلکار ہمارے ملک کی طرح رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتے رکاوٹیں دور کرتے ہیں، سرمایہ کار کو facilitate کرتے ہیں اور ہر قدم پر اس کی مدد اور راہنمائی کرتے ہیں،۔ ہمارے سول سرونٹس میں یہ جذبہ کب پیدا ہو گا؟
انھوں نے بڑے تپاک سے مصافحہ کیا اور بتایا کہ ان کا تعلق نارووال سے ہے۔ نوجوانوں میں بے حد مقبول گارمنٹس کا برانڈ اُن کا ہے۔ لاہورمیں ان کی گارمنٹس فیکٹری ہے مگر وہ رہتے اسلام آباد میں ہیں۔ اپنے آبائی علاقے میں وہ خدمتِ خلق کا کام کرتے ہیں اور اس کے لیے وہاں گاہے بگاہے جاتے رہتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ لاہور اور اسلام آباد کے ہر بڑے شاپنگ سینٹر میں ان کی outlets موجود ہیں۔ اس پہلی ملاقات کے بعد چوہدری خورشید کاہلوں صاحب سے گاہے بہ بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
میں اُن دنوں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے قومی ادارے نیوٹیک کا سربراہ تھا اور ہم ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کی طلب کے مطابق نوجوانوں کو ہنر فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ کپڑوں کی سلائی ایک بے حد اہم ہنر ہے اور ہم اپنے زیرِ تربیت لڑکوں اور لڑکیوں کو اچھّے سے اچھّے اداروں اور فیکٹریوں کے ساتھ منسلک کررہے تھے۔
اسی سلسلے میں لاہور میں خورشید کاہلوں صاحب کی فیکٹری کا بھی دورہ کیا۔ فیکٹری کی جدید مشینری اور اس کے ماحول اور ڈسپلن نے بہت متاثر کیا۔
2018میں حکومت تبدیل ہوگئی تو میں نے نیو ٹیک کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا اور ہنرمندی کی سرگرمیوں سے میرا رابطہ ختم ہوگیا، مگر پرانے ساتھیوں اور اِس شعبے میں پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ملکوں(donors)کے نمایندوں کے فون آتے رہتے تھے کہ نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا کام ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ ایسی خبریں سن کر دکھ ہوتا تھا ۔
پھر یہ بھی خبریں ملتی رہیں کہ ایک سال ضایع کرنے کے بعد نئی حکومت نے ٹریننگ کا کام تو شروع کردیا ہے مگر غریب نوجوانوں کو جو تین ہزار روپے ماہوار وظیفہ دیا جاتا تھا، اور ٹریننگ مکمل کرنے پر انھیں جو ٹول کِٹ فراہم کی جاتی تھی، وہ دونوں سہولتیں ختم کردی ہیں۔ مگر آج ہمارا موضوع دوسرا ہے۔
چند روز پہلے خورشید کاہلوں صاحب کا فون آیا کہ میں آپ کے پاس ایک دعوت نامہ دینے آرہا ہوں۔ میں نے کہا بخوشی تشریف لائیں۔ ملاقات ہوئی تو کاہلوں صاحب نے بتایا کہ انھوں نے لاہور میں رائے ونڈ روڈ پر 56 ایکڑ زمین خریدی ہے۔
میں نے کہا کہ آپ یقیناً وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنارہے ہوں گے۔ کہنے لگے ''نہیں میں وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بنارہا بلکہ ایک بہت بڑی فیکٹری لگارہا ہوں''۔ یہ سن کر میں حیرانی سے ان کا منہ تکتا رہ گیا، اس لیے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ہر مالدار شخص، ہر کروڑ پتی، اور تقریباً ہر صنعتکار اپنا سرمایہ رئیل اسٹیٹ میں لگا رہا ہے۔
یہ لوگ اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے ہیں یا چار چار کروڑ کے چند رہائشی پلاٹ خرید کر آرام سے گھر بیٹھ جاتے ہیں اور صنعت کے گوناگوں مسائل میں پڑے بغیر ایک سال بعد وہی پلاٹ آٹھ آٹھ کروڑ کے بیچ دیتے ہیں۔ یا پھر دس دس کروڑ کے چند کمرشل پلاٹ خریدتے ہیں اور دو سال بعد انھیں دگنی قیمت پر یعنی بیس بیس کروڑ میں بیچ دیتے ہیں، یوںگھر بیٹھے بٹھائے کسی ہینگ اور پھٹکری کے بغیر انڈسٹری سے کہیں زیادہ منافع کمالیتے ہیں۔
اسی لیے ہر سرمایہ دار کا رجحان رئیل اسٹیٹ کی طرف ہوگیا، مگر اس سے ملک کا بہت زیادہ نقصان ہوا کہ نئی انڈسٹری لگنی بند ہوگئی جس سے برآمدات میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی۔
میں نے حیرت سے کاہلوں صاحب کی جانب دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھا،''آپ واقعی فیکٹری لگارہے ہیں''۔ انھوں نے کہا ''الحمداللہ میں فیکٹری ہی لگارہا ہوں۔
لاہور میں تین پارٹیوں نے پچاس پچاس ایکڑ رقبے پر مشتمل اکنامک زون قائم کیے ہیں، جن کا افتتاح وزیراعظم صاحب کررہے ہیں''۔ خورشید صاحب اکنامک زون اور فیکٹری کے افتتاح کے بعد پھر مجھے ملنے کے لیے آئے تو کہنے لگے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ میرے فیکٹری لگانے پر کیوں حیران ہورہے تھے، یہ درست ہے کہ آج اس ملک میں فیکٹری لگانا آسان نہیں ہے، یہ جان جوکھوں کا کام ہے، یہ آگ کا دریا پار کرنے کے برابر ہے۔
یہ ایسا تالاب تیر کر عبور کرنے والا رسک ہے جس میں خونخوار مگرمچھ منہ کھولے آپ کو ہڑپ کرنے کے منتظر ہوں۔ صنعت لگانے والے کو اٹھائیس مختلف اداروں یعنی انسان نما بھیڑیوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے خون کے پیاسے ہیں، پٹواری سے لے کر واپڈا تک اور سوئی گیس سے لے کر انکم ٹیکس تک تمام منہ کھولے بیٹھے ہیں، اگر آپ فائل لے کر جائیں تو وہ اس میں سو نقص نکالیں گے۔
آپ کو ان کا منہ بند کرنے اور اپنی فائل آگے چلانے کے لیے ان کے منہ میں لاکھوں روپیہ بھی ٹھونسنا پڑتا ہے اور ان کے بڑے اور چھوٹے اہلکاروں کی توہین آمیز باتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے ملک میں کوئی انڈسٹری نہیں لگی، بلکہ صنعتکاروں نے بہت سی فیکٹریاں بند کردی ہیں جس سے بیروزگاری بڑھی ہے اور برآمدات میں بہت کمی ہوئی ہے۔
لہٰذا ملک کے لیے کچھ کرنے کے جذبے نے مجھے فیکٹری لگانے کی جانب راغب کیا ہے ، اب اِس سے کچھ نہ کچھ برآمدات میں اضافہ ہوگا اور سیکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔
میں نے پوچھا کہ آج کل کی صورتِ حال کے پیشِ نظر آپ کا یہ اقدام بے حد قابلِ تحسین ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ حکومت نے بھی آپ کو پوری طرح facilitate کیا ہوگا ۔ اس سوال نے تو ان کے زخموں کو چھیڑدیا اور وہ پھٹ پڑے، کہنے لگے کہ میرے ساتھ سرکاری محکموں نے وہ حشر کیا ہے کہ جیسے
گھری ہوئی ہو طوائف تماش بینوں میں
فیکٹری کے لیے بجلی اور گیس کا کنکشن لینا ہمارا حق ہے۔ مگر اس حق کے حصول کے لیے ہم سے کروڑوں روپیہ رشوت لی گئی، گیس کے لیے بھی ہمیں پیسے دینے پڑے، ایف بی آر کے افسران کی خواہشات پوری نہ ہوئیں تو انھوں نے ہماری پہلی فیکٹری پر دھاوا بول دیا، ہماری خواتین ملازمین کو بے عزت کیا اور سارے کمپیوٹر لے گئے۔
ہر قدم پر رشوت، ہر مرحلے پر ذلّت آمیز سلوک اور اذیّت ناک تاخیر۔ خاک مدد ہوئی ہے ہماری ۔ میرے بیٹے بار بار مجھے کہتے تھے کہ ''بابا اس ملک میں فیکٹری لگانا تو شاید کوئی بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ جونہی آپ فیکٹری لگانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں ،کئی درجن محکمے آپ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور آپ کو نوچنا شروع کردیتے ہیں''۔
آج ہم جس سنگین معاشی بحران کا شکار ہیں، اس میں برآمدات کی کمی ایک بہت بڑی وجہ ہے، میں ماہرینِ معاشیات سے پوچھتا پھرتا ہوں کہ ہماری بربادی کہاں سے شروع ہوئی اور کون کون اس کا ذمے دار ہے؟ کاہلوں صاحب کی روداد سن کر بہت سے مجرموں کا کھوج مل گیا ہے۔
ہمارے سرکاری دفتر عوامی خدمت اور رہنمائی کے مرکز نہیں رہے، مال بنانے کے اڈّے بن چکے ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں میں اب پبلک سرونٹس نہیں بیٹھتے وہاں ڈاکو براجمان ہیں جو سرِ عام لوٹ مار میں مصروف ہیں مگر کوئی انھیں روکنے والا یا پوچھنے والا نہیں۔ قدم قدم پر ہماری بربادی کے ذمے دار دندناتے پھرتے ہیں۔
کاش کوئی حکمران اس کیس کو ہی ٹیسٹ کیس بنائے، خورشید کاہلوں کو بلواکر پوچھے اور ا ن سے جس جس محکمے کے اہلکار وں نے رشوت لی ہے اور فائل روکنے کی کوشش کی ہے، ان سب کو عبرت کا نشان بنادے ۔
تمام سرکاری اداروں اور محکموں کو واضح پیغام دیا جانا چاہیے کہ اس ملک میں صنعت لگانے والے ملک اور قوم کے محسن ہیں، ہر سرکاری اہلکار پر لازم ہے کہ ان محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھائے۔ان کے سرمائے سے سیکڑوں بیروزگاروں کے گھروں میں چولہا جلے گا اور ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوگا، ان کی مدد کرنا ہمارا قومی فرض ہے، ان کی فائل کو تیزی سے چلانا اور اس کے راستے کی سب رکاوٹیں دور کرنا حکومت کی ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر نئی صنعت لگانے والوں کی سہولت کاری کے لیے بورڈ آف انوسٹمنٹ کو وَن ونڈو facilitation centre میں تبدیل کر دے اور وہاں اُن تمام سرکاری محکموں کا ایک ایک سینئر افسر بٹھایاجائے جن سے سرمایہ کار کو واسطہ پڑتا ہے۔
ان تمام محکموں سے اجازت نامے یا کنکشن لینا، سرمایہ کار کی نہیں اُن سرکاری افسروں کی ذمے داری ہو اور اُن پر لازم ہو کہ وہ دو ہفتے میں تمام کام مکمل کراکے فیکٹری کے لیے تمام اجازت نامے اور کنکشن کے احکامات حاصل کرکے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ سرمایہ کار کے حوالے کریں۔
جن ملکوں میں صنعت کو فروغ ملا ہے اور برآمدات بے تحاشا بڑھی ہیں وہاں سرکاری اہلکار ہمارے ملک کی طرح رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتے رکاوٹیں دور کرتے ہیں، سرمایہ کار کو facilitate کرتے ہیں اور ہر قدم پر اس کی مدد اور راہنمائی کرتے ہیں،۔ ہمارے سول سرونٹس میں یہ جذبہ کب پیدا ہو گا؟