عمرے کی ادائیگی
یہ ایسا سفر ہے جس میں کچھ کھونے کے بجائے آپ اپنے من کی مرادیں پاتے ہیں
مدینہ منورہ کی پرنور فضاؤں میں چند روز گزارنے کے بعد عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ روانگی ہوئی ۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر چار سو کلو میٹر سے زائد ہے۔
دونوں مقدس شہروں اور جدہ کے درمیان بلٹ ٹرین سروس شروع کی گئی ہے جو ڈھائی گھنٹوں میں یہ طویل سفر طے کرتی ہے، اس کے کرائے ٹیکسی کے ذریعے سفر کرنے سے نسبتاً زیادہ ہیں اور ٹرین اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے بھی ٹیکسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ لوگ جو فیملی کے ہمراہ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہوٹل سے براہ راست ٹیکسی کے ذریعے ہی یہ مقدس سفر کیا جائے جو ٹرین کی نسبت دو گھنٹے زائد کا ہے لیکن بار بار سامان اٹھانے کی زحمت سے بچت ہو جاتی ہے۔ مدینہ منورہ شہر سے باہر نکلتے ہی میقات پر احرام باندھ کر اور نوافل کی ادائیگی کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے لبیک اللہم لبیک کی صداؤں میں مکہ مکرمہ کو روانگی ہوتی ہے۔
مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان موٹروے کا سفر نہایت آرام دہ ہے لیکن ہمارے موٹر وے کی طرح وہاں پر سروس ایریاز کی سہولت زیادہ نہیں ہے۔
اس طویل سفر میں ایک ہی بہتر سروس ایریا ہے جہاں پر کھانے کو کچھ مل سکتا ہے اور تازہ دم ہوا جا سکتا ہے لیکن وہاں پہنچ کر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ وضو کے لیے پانی موجود نہیں ہے لہٰذا تیمم سے ہی کام چلا لیا ۔ظہر کے بعد شروع ہونے والے سفر کا اختتام مغرب کے بعد مکہ مکرمہ پہنچ کر ہوا ۔
مکہ مکرمہ کی حدود میں پہنچتے ہی انسان پر ایک ایسی قلبی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں ہے ۔ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے اور وہ بھی جب بندہ اپنے رب کے حضور پیش ہو رہا ہو تو انسان کو عمر بھر کی اپنی خطائیں یاد آجاتی ہیں ۔
ہر مسلمان اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوجاتا ہے۔ قربان جاؤں اس ذات پاک کے کہ بلاشبہ جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، یہ ایک ایسا دربار ہے جہاں پر سوالی کو وہ سب کچھ عنایت کر دیا جاتا ہے جس کی وہ تمنا رکھتا ہے ۔
بیت اللہ شریف کی حاضری اجازت سے مشروط ہے اور یہ اجازت اسی دربار سے ہی ملتی ہے جہاں سے ہر انسان کو فیض حاصل ہوتا ہے۔اس دنیا میں بے شمار ایسے صاحب حیثیت لوگ موجود ہیں جو باوجود کوششوں کے اﷲ کے گھر اور نبیؐ کے دربار پر حاضر نہیں ہوپاتے کیونکہ وہاں سے ان کو حاضری کی اجازت نہیں مل پاتی اور آپ صرف اسی دن وہاں پہنچ سکتے ہیں جس دن آپ کی حاضری وہاں لکھ دی گئی ہو۔
ہوٹل پہنچ کر وضو تازہ کر کے حرم شریف پہنچ گئے، آج کل بیت اللہ کے صحن میں صرف عمرہ زائرین کو داخل ہونے کی اجازت ہے اور یہ اجازت موبائل فون کی ا یپلی کیشن سے حاصل کی جاتی ہے، احرام میں ملبوس مرد حضرات ہی عمرہ کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کے صحن میں طواف کر سکتے ہیں جب کہ خواتین کا احرام چونکہ ان کا اپنا لباس ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا وہ کسی بھی قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں اور بلاروک ٹوک حرم کے صحن میں جب چاہئیں داخل ہو سکتی ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد ہر وقت حرم کے صحن میں طواف اور عبادات میں مصروف نظر آئے گی۔
میری زوجہ محترمہ اور دونوں بیٹیوں نے بھی اس آزادی کا خوب لطف اٹھایا اور بیت اﷲ شریف میں باربارحاضری کی سعادت حاصل کی ۔ حجر اسود کو بوسے بھی دیے اور ملتزم پر اﷲ کے گھر کی چوکھٹ پکڑ کر دل کھول کر دعائیں بھی کیں۔
ملتزم پر دعا کا جواب بھی فوراً ہی قبولیت کی صورت میں مل رہا ہوتا ہے ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی ملتزم پر دعا کی اﷲ کے ہاں مقبولیت پائی۔حطیم جو بیت اﷲ شریف کا حصہ ہے، اس میں عبادات نہ جانے کیوں بند ہیں وہاں پر تعینات اہلکار کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔
دنیا بھر سے لوگ دیوانہ وار حرمین شریفین پہنچتے ہیں اور اپنی مغفرت کا سامان کرتے ہیں دنیا بھر سے مسلمانوں کے لیے یہ واحد جگہ ہے جہاں پر طواف کی عبادت کی جا سکتی ہے لہٰذا ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ طواف کر لیے جائیں کیونکہ باقی نفل عبادات تو کسی بھی جگہ ادا کی جا سکتی ہیں لیکن طواف کا عمل صرف بیت اﷲ شریف میں ہی ممکن ہے۔
طواف کے لیے البتہ اب یہ مشکل ضرور ہو گئی ہے کہ عمرہ کے علاوہ طواف پہلی منزل یا چھت پر کیا جا سکتا ہے جو کافی طویل فاصلے کا ہے اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے نوجوان تو یہ طواف کر لیتے ہیں لیکن بزرگوں کے لیے وہیل چیئر اورحرم انتظامیہ کی جانب سے ایک مخصوص ہدیہ کی ادائیگی پربرقی گاڑیاں بھی فراہم کی جارہی ہیں جن پر آسانی سے طواف کا عمل مکمل کیا جا سکتا ہے۔
حجاز مقدس کا سفر خواہشوں، دعاؤں سے بھرا ہوتا ہے، یہ ایسا سفر ہے جس میں کچھ کھونے کے بجائے آپ اپنے من کی مرادیں پاتے ہیں۔
بیت اﷲ شریف اور روضہ نبی پاکؐ کی حاضری سے فیض ہاب ہوتے ہیں' ہر مسلمان کی زندگی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ میں حاضر ہو کر مغفرت اور نبی پاک ﷺ کے روضہ اقدس پر شفاعت کا طلبگار ہو۔
دونوں مقدس شہروں اور جدہ کے درمیان بلٹ ٹرین سروس شروع کی گئی ہے جو ڈھائی گھنٹوں میں یہ طویل سفر طے کرتی ہے، اس کے کرائے ٹیکسی کے ذریعے سفر کرنے سے نسبتاً زیادہ ہیں اور ٹرین اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے بھی ٹیکسی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ لوگ جو فیملی کے ہمراہ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہوٹل سے براہ راست ٹیکسی کے ذریعے ہی یہ مقدس سفر کیا جائے جو ٹرین کی نسبت دو گھنٹے زائد کا ہے لیکن بار بار سامان اٹھانے کی زحمت سے بچت ہو جاتی ہے۔ مدینہ منورہ شہر سے باہر نکلتے ہی میقات پر احرام باندھ کر اور نوافل کی ادائیگی کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے لبیک اللہم لبیک کی صداؤں میں مکہ مکرمہ کو روانگی ہوتی ہے۔
مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان موٹروے کا سفر نہایت آرام دہ ہے لیکن ہمارے موٹر وے کی طرح وہاں پر سروس ایریاز کی سہولت زیادہ نہیں ہے۔
اس طویل سفر میں ایک ہی بہتر سروس ایریا ہے جہاں پر کھانے کو کچھ مل سکتا ہے اور تازہ دم ہوا جا سکتا ہے لیکن وہاں پہنچ کر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ وضو کے لیے پانی موجود نہیں ہے لہٰذا تیمم سے ہی کام چلا لیا ۔ظہر کے بعد شروع ہونے والے سفر کا اختتام مغرب کے بعد مکہ مکرمہ پہنچ کر ہوا ۔
مکہ مکرمہ کی حدود میں پہنچتے ہی انسان پر ایک ایسی قلبی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں ہے ۔ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے اور وہ بھی جب بندہ اپنے رب کے حضور پیش ہو رہا ہو تو انسان کو عمر بھر کی اپنی خطائیں یاد آجاتی ہیں ۔
ہر مسلمان اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوجاتا ہے۔ قربان جاؤں اس ذات پاک کے کہ بلاشبہ جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، یہ ایک ایسا دربار ہے جہاں پر سوالی کو وہ سب کچھ عنایت کر دیا جاتا ہے جس کی وہ تمنا رکھتا ہے ۔
بیت اللہ شریف کی حاضری اجازت سے مشروط ہے اور یہ اجازت اسی دربار سے ہی ملتی ہے جہاں سے ہر انسان کو فیض حاصل ہوتا ہے۔اس دنیا میں بے شمار ایسے صاحب حیثیت لوگ موجود ہیں جو باوجود کوششوں کے اﷲ کے گھر اور نبیؐ کے دربار پر حاضر نہیں ہوپاتے کیونکہ وہاں سے ان کو حاضری کی اجازت نہیں مل پاتی اور آپ صرف اسی دن وہاں پہنچ سکتے ہیں جس دن آپ کی حاضری وہاں لکھ دی گئی ہو۔
ہوٹل پہنچ کر وضو تازہ کر کے حرم شریف پہنچ گئے، آج کل بیت اللہ کے صحن میں صرف عمرہ زائرین کو داخل ہونے کی اجازت ہے اور یہ اجازت موبائل فون کی ا یپلی کیشن سے حاصل کی جاتی ہے، احرام میں ملبوس مرد حضرات ہی عمرہ کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کے صحن میں طواف کر سکتے ہیں جب کہ خواتین کا احرام چونکہ ان کا اپنا لباس ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا وہ کسی بھی قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں اور بلاروک ٹوک حرم کے صحن میں جب چاہئیں داخل ہو سکتی ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد ہر وقت حرم کے صحن میں طواف اور عبادات میں مصروف نظر آئے گی۔
میری زوجہ محترمہ اور دونوں بیٹیوں نے بھی اس آزادی کا خوب لطف اٹھایا اور بیت اﷲ شریف میں باربارحاضری کی سعادت حاصل کی ۔ حجر اسود کو بوسے بھی دیے اور ملتزم پر اﷲ کے گھر کی چوکھٹ پکڑ کر دل کھول کر دعائیں بھی کیں۔
ملتزم پر دعا کا جواب بھی فوراً ہی قبولیت کی صورت میں مل رہا ہوتا ہے ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی ملتزم پر دعا کی اﷲ کے ہاں مقبولیت پائی۔حطیم جو بیت اﷲ شریف کا حصہ ہے، اس میں عبادات نہ جانے کیوں بند ہیں وہاں پر تعینات اہلکار کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔
دنیا بھر سے لوگ دیوانہ وار حرمین شریفین پہنچتے ہیں اور اپنی مغفرت کا سامان کرتے ہیں دنیا بھر سے مسلمانوں کے لیے یہ واحد جگہ ہے جہاں پر طواف کی عبادت کی جا سکتی ہے لہٰذا ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ طواف کر لیے جائیں کیونکہ باقی نفل عبادات تو کسی بھی جگہ ادا کی جا سکتی ہیں لیکن طواف کا عمل صرف بیت اﷲ شریف میں ہی ممکن ہے۔
طواف کے لیے البتہ اب یہ مشکل ضرور ہو گئی ہے کہ عمرہ کے علاوہ طواف پہلی منزل یا چھت پر کیا جا سکتا ہے جو کافی طویل فاصلے کا ہے اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے نوجوان تو یہ طواف کر لیتے ہیں لیکن بزرگوں کے لیے وہیل چیئر اورحرم انتظامیہ کی جانب سے ایک مخصوص ہدیہ کی ادائیگی پربرقی گاڑیاں بھی فراہم کی جارہی ہیں جن پر آسانی سے طواف کا عمل مکمل کیا جا سکتا ہے۔
حجاز مقدس کا سفر خواہشوں، دعاؤں سے بھرا ہوتا ہے، یہ ایسا سفر ہے جس میں کچھ کھونے کے بجائے آپ اپنے من کی مرادیں پاتے ہیں۔
بیت اﷲ شریف اور روضہ نبی پاکؐ کی حاضری سے فیض ہاب ہوتے ہیں' ہر مسلمان کی زندگی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ میں حاضر ہو کر مغفرت اور نبی پاک ﷺ کے روضہ اقدس پر شفاعت کا طلبگار ہو۔