پاک چین دوستی صرف دم بھرنا کافی نہیں
پاک چین دوستی کی جو بنیاد بھٹو صاحب نے رکھی تھی، وہ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں بھی برقرار ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں ہمیشہ سے موجود گرم جوشی میں کمی کا احساس ابھرنے لگا تھا۔ اس کی وجہ ہماری جانب سے دیے گئے، بعض ایسے بیانات تھے جو چین کے لیے غیر متوقع اور تکلیف کا باعث تھے۔
تاہم، چین کی جانب سے کسی باضابطہ رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی گئی تھی۔ اس صورت حال میں بھی چین نے مشکل حالات میں تعاون کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، حالیہ دنوں میں اعلیٰ ترین سطح سے پاکستان نے معاملات کو بہتر بنانے کی زبردست کوششیں کیں جس کے بعد باہمی رشتوں میں گرم جوشی کی بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
چین کے نائب وزیر اعظم کا کامیاب دورہ پاکستان اس کا ایک مظہر ہے، یہ دورہ سی پیک کے آغازکے دس سال مکمل ہونے کے موقع پرکیا گیا ہے، جو اس امرکا خوش کن علامتی اظہار بھی ہے کہ اس منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے میں چین بڑی دل چسپی رکھتا ہے۔
اس موقع پر چین کے صدر شی جن پنگ کا تہنیتی پیغام بڑی اہمیت رکھتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پاک چین اسٹرٹیجک پارٹیز شپ کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے گا اور بین الاقوامی سطح پر جو بھی تبدیلیاں ہو جائیں چین ثابت قدمی سے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، یہ بات ذہن میں رہے کہ چین کے صدر عموماً صرف ان معاملات اور مواقعوں پر بیان جاری کرتے ہیں جو چین کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
سی پیک منصوبے کا کل حجم تقریبا 62 ارب تھا اور اس پر اب تک 25 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ یہاں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان 1951 میں چین کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک تھا، لیکن دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان پرجوش تعلقات کی بنیاد ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔
تاریخ ، فلسفہ اور ادب کے وسیع مطالعے نے ان کے اندر غیر معمولی سیاسی بصیرت اور دانش پیدا کر دی تھی، وہ جواہر لال نہرو اور ماؤزے تنگ سے متاثر تھے اور ان دونوں رہنماؤں کے ذہنوں کو بخوبی سمجھتے تھے، انھوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ 1962 کی چین، ہند جنگ کے بعد ان دو بڑے ملکوں کے تعلقات طویل عرصے تک کشیدہ رہیں گے۔
لہٰذا بھٹو صاحب نے چین سے بہترین تعلقات استوارکرنے کو اولین ترجیح دی، انھوں نے چین اور پاکستان کے درمیان موجود ایک سرحدی تنازعہ کو فوراً طے کر کے دیرپا دوستی کی راہ ہموار کر دی، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں چین کا تاریخی دورہ کیا، یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان دولخت ہونے کے باعث سخت مالی اور سیاسی بحران کا شکار تھا۔
مذکورہ دورے میں انھوں نے پاکستان پر چین کے قرض معاف کرائے اور 30 کروڑ ڈالر کی اقتصادی و فوجی امداد حاصل کی۔ اس دوران ماؤ اور بھٹو کے مابین ذاتی تعلقات بھی قائم ہوگئے، یہ وہ حقائق ہیں جو ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیے گئے ہیں۔ زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ امریکا اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرانے میں بھی بھٹو صاحب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکا کی جانب سے ہینری کسنجر نے خفیہ سفارت کاری کی تھی جس میں ان کو بھٹو صاحب کا تعاون حاصل تھا۔ سفارت کاری کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد چین کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بنایا گیا اور اسے ویٹو کا حق مل گیا۔
ہینری کسنجر سو سال کے ہوچکے ہیں اور اس وقت بھی صحت مند اور فعال ہیں، انھوں نے حال میں ہی چین کا دورہ کیا ہے جہاں ان کی بڑی پذیرائی کی گئی۔
صدر شی نے انھیں اس تاریخی جگہ پر ظہرانہ دیا جہاں کسنجر نے 1971 میں اپنے پہلے امریکی دورے کے وقت مذاکرات کیے تھے۔
چین آج بھی انھیں اپنا '' پرانا دوست '' کہتا ہے ، اصل موضوع سے ہٹ کر جناب کسنجر کا ذکر اس وجہ سے آ گیا کہ امریکا اور چین آج بھی اپنے تلخ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے غیر رسمی طور پر ان کی خدمات سے استفادہ کر رہے ہیں جب کہ ہم نے بھٹو صاحب کا اس وقت عدالتی قتل کرا دیا جب وہ محض 54 سال کے تھے، وہ زندہ رہتے تو آج کسنجر سے صرف دو سال چھوٹے یعنی 98 سال کے ہوتے۔
پاک چین دوستی کی جو بنیاد بھٹو صاحب نے رکھی تھی، وہ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں بھی برقرار ہے اور جسے قائم رکھنے کا اعادہ صدر شی نے اپنے پیغام میں کیا ہے۔ تاہم، سی پیک کے علاوہ چین سے دوستی کے بے شمار دیگر فائدے حاصل کیے جا سکتے تھے لیکن ایسا کرنے میں ہم بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ہمیں چین سے سبق سیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔
چین سے یہ سیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کو معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔
ہندوستان سے چین کے ساتھ ایک نہیں کئی بڑے سرحدی تنازعات ہیں، دونوں ملک ایک بڑی اور کئی چھوٹی جنگیں لڑچکے ہیں، کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ اس نوعیت کی مشکل صورت حال میں بظاہر دشمن نظر آنے والے یہ ملک، ایک دوسرے کو معاشی فائدہ پہنچانا شروع کردیں گے۔
جب تک ان ملکوں نے دیکھا کہ محاذ آرائی سے کسی بڑے معاشی نقصان کا امکان نہیں تو اس وقت تک انھوں نے محاذ آرائی برقرار رکھی لیکن اسے نا قابل واپسی حد تک لے جانے سے گریزکیا، جب دونوں نے محسوس کیا کہ اب حد سے بڑھی محاذ آرائی گھاٹے کا سودا ہے اور ان کا باہمی مفاد، تجارتی رشتوں کی بحالی میں ہے تو انھوں نے ایسا کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی اورکسی سیاسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔
اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی میں ہونے والی چند کروڑ کی سالانہ تجارت دیکھتے ہی دیکھتے 2015 میں 70 ارب ڈالر تک جا پہنچی لیکن اس کے بعد یہ دو طرفہ تجارت اتنی حیرت انگیز رفتار سے آگے بڑھی کہ 2022 میں اس کا حجم 135 ارب ڈالر کے ناقابل یقین حد تک جا پہنچا۔ اس دانش مندانہ سوچ کا فائدہ سب کے سامنے ہے، چین اور ہندوستان کی معیشتیں، دنیا کی دوسری اور پانچویں بڑی معیشتیں بن چکی ہیں۔ ایک دور تھا کہ چین اور امریکا دشمن تھے، آج وہ سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔
امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین نے معاشی فائدے کے لیے کبھی کسی ملک میں فوجی مداخلت نہیں کی اور اپنے سیاسی نظریات کو دوسرے ملکوں پر مسلط کرنے سے ہمیشہ گریزکیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیاء اور افریقا کے ملک چین کے ساتھ روابط بڑھانے میں خطرہ محسوس نہیں کرتے۔
پاک چین دوستی کا صرف دم بھرنا کافی نہیں، اس کی دانش مندانہ پالیسیوں پر بھی غورکی ضرورت ہے۔
تاہم، چین کی جانب سے کسی باضابطہ رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی گئی تھی۔ اس صورت حال میں بھی چین نے مشکل حالات میں تعاون کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، حالیہ دنوں میں اعلیٰ ترین سطح سے پاکستان نے معاملات کو بہتر بنانے کی زبردست کوششیں کیں جس کے بعد باہمی رشتوں میں گرم جوشی کی بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
چین کے نائب وزیر اعظم کا کامیاب دورہ پاکستان اس کا ایک مظہر ہے، یہ دورہ سی پیک کے آغازکے دس سال مکمل ہونے کے موقع پرکیا گیا ہے، جو اس امرکا خوش کن علامتی اظہار بھی ہے کہ اس منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے میں چین بڑی دل چسپی رکھتا ہے۔
اس موقع پر چین کے صدر شی جن پنگ کا تہنیتی پیغام بڑی اہمیت رکھتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پاک چین اسٹرٹیجک پارٹیز شپ کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے گا اور بین الاقوامی سطح پر جو بھی تبدیلیاں ہو جائیں چین ثابت قدمی سے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، یہ بات ذہن میں رہے کہ چین کے صدر عموماً صرف ان معاملات اور مواقعوں پر بیان جاری کرتے ہیں جو چین کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
سی پیک منصوبے کا کل حجم تقریبا 62 ارب تھا اور اس پر اب تک 25 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ یہاں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان 1951 میں چین کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک تھا، لیکن دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان پرجوش تعلقات کی بنیاد ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔
تاریخ ، فلسفہ اور ادب کے وسیع مطالعے نے ان کے اندر غیر معمولی سیاسی بصیرت اور دانش پیدا کر دی تھی، وہ جواہر لال نہرو اور ماؤزے تنگ سے متاثر تھے اور ان دونوں رہنماؤں کے ذہنوں کو بخوبی سمجھتے تھے، انھوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ 1962 کی چین، ہند جنگ کے بعد ان دو بڑے ملکوں کے تعلقات طویل عرصے تک کشیدہ رہیں گے۔
لہٰذا بھٹو صاحب نے چین سے بہترین تعلقات استوارکرنے کو اولین ترجیح دی، انھوں نے چین اور پاکستان کے درمیان موجود ایک سرحدی تنازعہ کو فوراً طے کر کے دیرپا دوستی کی راہ ہموار کر دی، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں چین کا تاریخی دورہ کیا، یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان دولخت ہونے کے باعث سخت مالی اور سیاسی بحران کا شکار تھا۔
مذکورہ دورے میں انھوں نے پاکستان پر چین کے قرض معاف کرائے اور 30 کروڑ ڈالر کی اقتصادی و فوجی امداد حاصل کی۔ اس دوران ماؤ اور بھٹو کے مابین ذاتی تعلقات بھی قائم ہوگئے، یہ وہ حقائق ہیں جو ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیے گئے ہیں۔ زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ امریکا اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرانے میں بھی بھٹو صاحب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکا کی جانب سے ہینری کسنجر نے خفیہ سفارت کاری کی تھی جس میں ان کو بھٹو صاحب کا تعاون حاصل تھا۔ سفارت کاری کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد چین کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بنایا گیا اور اسے ویٹو کا حق مل گیا۔
ہینری کسنجر سو سال کے ہوچکے ہیں اور اس وقت بھی صحت مند اور فعال ہیں، انھوں نے حال میں ہی چین کا دورہ کیا ہے جہاں ان کی بڑی پذیرائی کی گئی۔
صدر شی نے انھیں اس تاریخی جگہ پر ظہرانہ دیا جہاں کسنجر نے 1971 میں اپنے پہلے امریکی دورے کے وقت مذاکرات کیے تھے۔
چین آج بھی انھیں اپنا '' پرانا دوست '' کہتا ہے ، اصل موضوع سے ہٹ کر جناب کسنجر کا ذکر اس وجہ سے آ گیا کہ امریکا اور چین آج بھی اپنے تلخ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے غیر رسمی طور پر ان کی خدمات سے استفادہ کر رہے ہیں جب کہ ہم نے بھٹو صاحب کا اس وقت عدالتی قتل کرا دیا جب وہ محض 54 سال کے تھے، وہ زندہ رہتے تو آج کسنجر سے صرف دو سال چھوٹے یعنی 98 سال کے ہوتے۔
پاک چین دوستی کی جو بنیاد بھٹو صاحب نے رکھی تھی، وہ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں بھی برقرار ہے اور جسے قائم رکھنے کا اعادہ صدر شی نے اپنے پیغام میں کیا ہے۔ تاہم، سی پیک کے علاوہ چین سے دوستی کے بے شمار دیگر فائدے حاصل کیے جا سکتے تھے لیکن ایسا کرنے میں ہم بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ہمیں چین سے سبق سیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔
چین سے یہ سیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کو معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔
ہندوستان سے چین کے ساتھ ایک نہیں کئی بڑے سرحدی تنازعات ہیں، دونوں ملک ایک بڑی اور کئی چھوٹی جنگیں لڑچکے ہیں، کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ اس نوعیت کی مشکل صورت حال میں بظاہر دشمن نظر آنے والے یہ ملک، ایک دوسرے کو معاشی فائدہ پہنچانا شروع کردیں گے۔
جب تک ان ملکوں نے دیکھا کہ محاذ آرائی سے کسی بڑے معاشی نقصان کا امکان نہیں تو اس وقت تک انھوں نے محاذ آرائی برقرار رکھی لیکن اسے نا قابل واپسی حد تک لے جانے سے گریزکیا، جب دونوں نے محسوس کیا کہ اب حد سے بڑھی محاذ آرائی گھاٹے کا سودا ہے اور ان کا باہمی مفاد، تجارتی رشتوں کی بحالی میں ہے تو انھوں نے ایسا کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی اورکسی سیاسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔
اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی میں ہونے والی چند کروڑ کی سالانہ تجارت دیکھتے ہی دیکھتے 2015 میں 70 ارب ڈالر تک جا پہنچی لیکن اس کے بعد یہ دو طرفہ تجارت اتنی حیرت انگیز رفتار سے آگے بڑھی کہ 2022 میں اس کا حجم 135 ارب ڈالر کے ناقابل یقین حد تک جا پہنچا۔ اس دانش مندانہ سوچ کا فائدہ سب کے سامنے ہے، چین اور ہندوستان کی معیشتیں، دنیا کی دوسری اور پانچویں بڑی معیشتیں بن چکی ہیں۔ ایک دور تھا کہ چین اور امریکا دشمن تھے، آج وہ سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔
امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین نے معاشی فائدے کے لیے کبھی کسی ملک میں فوجی مداخلت نہیں کی اور اپنے سیاسی نظریات کو دوسرے ملکوں پر مسلط کرنے سے ہمیشہ گریزکیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیاء اور افریقا کے ملک چین کے ساتھ روابط بڑھانے میں خطرہ محسوس نہیں کرتے۔
پاک چین دوستی کا صرف دم بھرنا کافی نہیں، اس کی دانش مندانہ پالیسیوں پر بھی غورکی ضرورت ہے۔