جنگ کوئی آپشن نہیں

میاں شہباز شریف کا اپنی تقریر میں مزید کہنا تھا کہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا

tauceeph@gmail.com

''جنگ کوئی آپشن نہیں۔ خدانخواستہ جوہری تصادم ہوا تو یہ بتانے کے لیے کوئی نہیں بچے گا کہ ہم کون تھے۔ تنازعات کے پر امن حل پر یقین رکھتے ہیں۔''

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے معدنیات کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے انتہائی اہم باتیں کیں۔

میاں شہباز شریف کا اپنی تقریر میں مزید کہنا تھا کہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ بھارت کی حکومت نے 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھارتی یونین کے آئین کی شق 370 کو آئین سے حذف کیا گیا تھا تو دونوں ممالک کے تعلقات تقریباً جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔

اس وقت سے اب تک کسی پاکستانی رہنما کا بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے پہلا مؤثر بیان ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے اندرونی تضادات کو ایک طرف ڈالتے ہوئے میاں صاحب کی اس تجویز پر مثبت رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے مگر تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے ایسے وقت میں یہ اہم بیان دیا ہے، جب ان کی حکومت کی اپنی مدت میں خاتمہ میں گنتی کے دن رہ گئے ہیں۔

البتہ حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی دونوں ممالک کے عوام خطہ کے امن اور بین الاقوامی منظر نامہ میں توازن کے لیے انتہائی اہم ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

گلوبل وارمنگ کے مسئلہ پر توجہ دی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گزشتہ مہینہ قیامت کا مہینہ تھا۔ بھارت میں گزشتہ ماہ شدید بارشیں ہوئیں۔ بارشیں اتنی زیادہ تھیں کہ ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ الیکٹرونک میڈیا پر چلنے والی وڈیوز سے ظاہر ہورہا تھا کہ آگرہ میں دنیا کا ساتواں عجوبہ تاج محل پانی میں ڈوب رہا تھا۔

بارش نے دہلی میں زندگی کو جل تھل کر دیا تھا۔ بھارت کی صرف ان تین ریاستوں میں غیر معمولی بارشوں سے سوکے قریب اموات ہوئیں اورکروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ جب بارشوں کی بناء پر بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں پانی کا دباؤ بڑھ گیا تو بھارتی حکام نے سیلاب کا زورکم کرنے کے لیے پاکستان جانے والے دریاؤں راوی اور بیاس میں پانی چھوڑ دیا۔

دریائے راوی برسوں سے پانی کی کم سطح کا شکار ہے۔ دریائے بیاس تو بھارت سے پانی فراہم نہ کرنے کی بناء پر خشک پڑا رہتا ہے۔ بھارت سے آنے والے اس پانی سے سیکڑوں دیہات متاثر ہوئے۔ دریاؤں میں طغیانی اتنی شدید تھی کہ دو کے قریب افراد پانی کے دھارے میں بہہ کر پاکستانی علاقہ میں پہنچ گئے جہاں امدادی کارکنوں نے ان کی زندگی بچائی۔

دونوں ممالک کے سرحدوں پر تعینات اہلکار ان بھارتی شہریوں کی اپنے وطن واپسی کا طریقہ کار طے کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔


بارشوں نے اس دفعہ پھر پاکستانی پنجاب میں زبردست تباہی مچائی۔ پنجاب کے مختلف شہر شدید بارشوں میں تقریباً ڈوب گئے۔ لاہور شہرکا بارشوں میں برا حال ہوا، گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ماضی سے ہٹ کر سال میں کئی دفعہ بارش ہوسکتی ہے۔ معاملہ صرف زیادہ بارش اور سیلاب کا نہیں ہے بلکہ فضائی آلودگی کا معاملہ بھی اہم ہے۔

جب بھارتی پنجاب میں گنے کی پھوک جلاتے ہیں تو دھویں کے بادل پاکستانی پنجاب کی فضاؤں کو زہر آلود کرتے ہیں۔ پاکستانی پنجاب میں کسان گنے کی پھوک کو نذرِ آتش کرتے ہیں تو نہ صرف پاکستانی پنجاب کی فضاء آلودہ ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات بھارتی پنجاب، دہلی، ہریانہ حتیٰ کہ پنجاب کی سرحد سے متصل یو پی کے علاقوں پر بھی پڑتے ہیں۔

گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید سائنسی تحقیق اور اس تحقیق کی بنیاد پر بچاؤ کے اقدامات شامل ہیں۔ بھارت سائنٹیفک تحقیق میں پاکستان سے سو سال آگے چلا گیا ہے۔ اب بھارت نے چاند میں راکٹ بھیج کر خلائی تحقیق میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔

بھارت کے اپنے موسمیاتی سیارے موسم کے بارے میں اعداد و شمار اور تصاویر فراہم کر رہے ہیں، اگر پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیارکریں تو صنعتی ممالک پاکستان اور بھارت کی مدد کے لیے زیادہ دلچسپی لیں گے۔ بھارت اور پاکستان کو اپنے علاقوں میں بارشوں اور سیلاب سے جمع ہونے والے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔

بھارت اور بین الاقوامی ایجنسیاں پاکستان میں پانی کو محفوظ رکھنے کے منصوبوں کے لیے امداد فراہم کریں گی۔ پاکستانی ماہرین اس ضمن میں بھارتی ماہرین کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اگر بھارت سے آنے والے سیلابی پانی کو آب پاشی کے لیے محفوظ کر لیا جائے تو زرعی پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ ہوسکتا ہے۔

بھارت میں گزشتہ دنوں ٹماٹر نایاب تھے۔ سندھ اور پنجاب میں ٹماٹر کی فصل بہتر پیدا ہوئی تھی، اگر پی ٹی آئی کی حکومت بھارت سے تجارت پر پابندی عائد نہ کرتی تو اب پاکستانی ٹماٹر بھارتی منڈی میں چھایا ہوا ہوتا۔ اسی طرح بھارت میں چاول کی فصل خراب ہوئی ہے۔

پاکستانی چاول کے لیے بھارت کی مارکیٹ میں نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، اگر پاکستان بھارت سے تجارتی تعلقات معمول پر لائے تو چاول کی برآمد سے قیمتی زر مبادلہ حاصل کیا جاسکتا تھا۔ حکومت پاکستان نے ادویات سازکمپنیوں کے دباؤ پر ایک دفعہ پھر 30 فیصد اضافہ کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں۔ ڈالرکی قیمت میں مسلسل اضافہ کی بناء پر ادویات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

دنیا بھر کے مقابلہ میں ادویات کی تیاری کے لیے خام مال بھارت میں انتہائی سستا ملتا ہے۔ بھارت نے میڈیکل سائنس کے شعبہ میں زبردست ترقی کی ہے، اگر بھارت کی ادویات اور ادویات کی تیاری کے خام مال کی درآمد کی اجازت دی جائے تو ملک میں دوائیوں کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اہم مسئلہ کنٹرول لائن کی سرحد پار آباد ہزاروں افراد کے مستقبل کا بھی ہے۔ یہ لوگ کنٹرول لائن سے چند میل دور اپنے عزیزوں سے نہیں مل سکتے، اگر کسی رشتہ دارکا انتقال ہو جائے تو یہ لوگ دور بین کی مدد سے اس کے جنازہ کے نظارہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کا شکار وہ خاندان ہیں جو اب بھی دونوں ملکوں میں رشتہ داروں سے شادیاں کرتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت نے کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجنے کا ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کو بھی جواب میں اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے پر غورکرنا چاہیے۔ اب بھارتی حکومت کو بھی صورتحال کو محسوس کرنا چاہیے اور پاکستان کی اس پیشکش کا مضبوط جواب دینا چاہیے۔
Load Next Story