گبد بارڈر ٹرمینل پاکستانی معیشت کی خوشحالی کا دروازہ

توقع ہے کہ اس ٹرمینل کی تعمیر سے جہاں غیر قانونی نقل و حمل میں کمی ہو گی، وہیں شفاف تجارت و مواصلات میں اضافہ ہوگا

این ایل سی نے ایف بی آر کی درخواست پر پاک ایران سرحدی ٹرمینل کی تعمیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ٹرمینل گبد بارڈرمیدان کے مقام پر تعمیر کیا جائے گا۔

توقع ہے کہ اس ٹرمینل کی تعمیر سے جہاں غیر قانونی نقل و حمل میں کمی ہو گی، وہیں شفاف تجارت و مواصلات میں اضافہ ہو گا جو پاکستان کے لیے زرمبادلہ اور آمدن میں اضافے کا باعث بنے گا۔

یہ ٹرمینل کسٹم کے قوائد و ضوابط سے گزرنے کے لیے تیز ترین سہولیات ا ور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہو گا۔ یہ کوئی تجرباتی کام نہیں بلکہ پاکستان کو اس کا خاطر خواہ تجربہ ہے کیونکہ ایسے چار چینلز پہلے ہی انتہائی مستعدی اور کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔

تاہم گبدبارڈرکے بارے میں یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ایک تزویراتی نوعیت کا حامل مقام ہے اور اسی وجہ سے اس مقام پر ایران سے تجارت میں اضافہ کا امکان زیادہ ہے اور اسی وجہ سے ٹرمینل سے معیشت پر مثبت اثرات پڑنے اور ملکی حالات بہتر ہونے کی امیدیں وابستہ ہیں۔

اس سے پہلے اس مقام پر گبد250 کے نام سے ایک چھوٹے پیمانے کا ٹرمینل موجود تھا، مقامی تاجروں کی طرف سے2018میں قائم کیا گیا تھا لیکن غیر تسلی بخش روابط اور ان میں تجارت کی کمی کی وجہ سے اس مقام پر ایک باقاعدہ اور جدید ٹرمینل بنانے کی شرائط پوری نہیں ہو رہی تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاہرات کی تعمیر' مختلف راستوں کے کھلنے' صورتحال بہتر ہونے اور جدید سہولیات میسر ہونے کی وجہ سے بار بار' خیال سامنے آ رہا تھا کہ گبد250 جیسے روایتی اور غیر ترقی یافتہ ٹرمینل کو جدید بنیادوں پر اور بین الاقوامی معیار کے مطابق استوار کیا جائے۔ نئے ٹرمینل سے جہاں فرسودہ طور طریقے سے ہونے والی تجارت ختم ہو گی وہاں جدید سہولیات سے آراستہ' قوانین کے مطابق محفوظ و شفاف تجارت کو فروغ ملے گا۔

جیسا کہ اس طرح کے تمام اہم منصوبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس اہم و مفید منصوبے کے ساتھ بھی چند چیلنجز موجود ہیں جن میں سے ایک وہ منفی پراپیگنڈہ ہے جو چند ا فراد اور گروہوں کی طرف سے غلط معلومات پھیلا کر کیا جا رہا ہے۔

یہ گروہ بے بنیاد الزامات اور غلط معلومات کے ذریعے نہ صرف مقامی آبادی میں شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ دیگر ذرایع سے بھی اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اسے ناکام بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ان گروہوں کے بعض افراد عجیب من گھڑت سے دعوے کرتے پائے گئے ہیں جن میں سے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ ہے کہ اس ٹرمینل کے لیے سیکڑوں ایکڑ اضافی اراضی بلاضرورت لے لی گئی ہے جو این ایل سی کے گودام بنانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔

ان بے بنیاد الرامات ا ور دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ اس ٹرمینل کے لیے کل 72 ایکڑ اراضی لی گئی ہے جو کہ الزامات میں بیان کی گئی سیکڑوں ایکڑ اراضی کا عشر عشیر بھی نہیں۔ یاد رہے کہ اس 72 ایکڑ اراضی پر نہ صرف ٹرمینل اور متعلقہ دفاتر قائم کیے جائیں گے بلکہ اسی زمین پر عملے ا ور دیگر افراد کے لیے رہائشیں بھی تعمیر کی جائیں گی۔ تاہم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اراضی ریاست پاکستان کی ملکیت ہے اور این ایل سی نے ٹرمینل کی تعمیر اور اس اراضی کے حصول کے لیے تمام ضابطے اور قانونی تقاضے پورے کیے ہیں۔


ان حقائق کو جاننے والوں کے ایسے تمام شکوک دور ہو جانے چاہیں جن میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمینل کی تعمیر سے مقامی لوگوں کی تعمیرات کو نقصان پہنچے گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ٹرمینل کی تعمیر سے نہ صرف اس مقام کی اہمیت و خوبصورتی میں اضافہ ہو گا بلکہ مقامی لوگوں کی جائیدادوں' تعمیرات اور ملکیتوں کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔

اس سرحدی ٹرمینل کی تعمیر سے ہونے والے تجارتی فوائد اپنی جگہ لیکن پاک ایران سرحد پر اس ٹرمینل کی تعمیر سے ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے اسمگلنگ کی غیرقانونی سرگرمیوں کا خاتمہ ہو جا ئے گا۔ اس ٹرمینل پر ایک ہی جگہ نہ صرف کسٹم آفسس ہوں گے بلکہ کارگو ٹرمینل اور وزن کی پیمائش کی سہولیات کے ساتھ ساتھ درآمدات و برآمدات سے متعلق تمام سہولیات موجود و میسر ہوں گی تاکہ تمام عمل کو تیز تر' شفاف اور فائدہ مند بنایا جا سکے۔

جو لوگ اس منصوبے کی بے جا مخالفت کر رہے ہیں وہ یا تو قانونی و غیر قانونی اشیاء کی اسمگلنگ میں ملوث ہو سکتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہو سکتے ہیں جن کا اس اسمگلنگ کی سرگرمی سے کچھ تھوڑا بہت مالی مفاد وابستہ ہے۔

چونکہ ا یک باقاعدہ ٹرمینل سے اس طرح کی تمام غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ممکن نہ تھی اس لیے مالی و ذاتی مفادات حاصل کرنے والے افراد کی شدید خواہش ہے کہ نیا ٹرمینل نہ بن سکے اور پرانا طریق کار ہی چلتا رہے جس سے ان کی سرگرمیاں ختم نہ ہوں۔ تاہم اس نئے ٹرمینل سے پاک ایران سرحد پر تجارت کو محفوظ و مؤثر اور مفید و شفاف بنایا جائے گا۔

اس ٹرمینل کے دیگر فوائد میں یہ پہلو بھی شامل ہیں کہ اس ٹرمینل کی تعمیر سے یہاں پینے کے صاف پانی کا انتظام کیا جا ئے گا جو کہ پہلے موجود نہیں تھا۔

اس کے علاوہ ٹرمینل کی تعمیر سے جڑی دیگر تعمیرات سے جہاں تجارت میں ترقی ہو گی وہیں علاقے میں بھی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا اور پھر دونوں ملکوں میں دوستانہ تجارت سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بھی مزید بہتری آنے کی توقع ہے۔

الزامات لگانے ا ور افواہیں پھلانے والوں کو اس بات کا ذرا احساس نہیں کہ اس نئے ٹرمینل کی تعمیر سے دیگر فوائد کے علاوہ یہاں مقامی لوگوں کے لیے نئی ملازمتوں کے کتنے مواقع پیدا ہوں گے۔ ٹرمینل کی تعمیر اور پھر اس کی کارگزاری کے لیے ایک بڑی تعداد میں مزدوروں ' ملازمین اور دیگر افراد کی ضرورت پیدا ہو گی جو مقامی آبادیوں سے ہی پوری کی جائے گی۔

جس سے وہاں بسنے والے لوگوں کو اپنی آمدن بڑھانے اور ملازمت حاصل کرنے کا موقع ملے گا جس سے ان کا معیار زندگی بھی بہتر ہو گا۔ اس کے علاوہ ٹرمینل کی تعمیر کے بعد شروع ہونے والی تجارتی سرگرمیوں سے مقامی سطح پرصنعت و حرفت کو بھی فروغ ملے گا' سرمایہ کاری کرنے کے مواقع پیدا ہوں گے اور دیگر شعبوں کی طرف ذرایع نقل و حمل' علاج معالجے اور دکانداری و کاروبار کی ضروریات بھی روز گار کے نئے مواقع پیدا کریں گی۔

پاکستانی قوم اس وقت معاشی خودمختاری و ترقی کے لیے نئے نئے منصوبے شروع کرنے اور طریقے اپنانے پر عمل پیر ا ہے جہاں ا یک طرف قوم کا یہ جذبہ ہے اور تودوسری طرف چند ایسے عناصر ہیں جو پوری تندہی سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور مایوسی پھیلانے پر کمربستہ ہیں۔

یہ نیا بارڈر ٹرمینل ایسے عناصر کا نیا ٹارگٹ ہے جو پاکستان کی معیشت کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن بہرحال پاکستان کے لیے ان چیلنجوں سے نمٹنا اور معاشی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو فوقیت دینا انتہائی ضروری ہے۔

جس کے لیے تجارت کو فروغ دینا انتہائی اہم ہے ایسے اقدامات پر عمل پیرا ہو کر ملک عزیز صرف بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات پیدا کر سکتا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کر کے لوگوں کے معیار زندگی کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story