’’انضی دی لیجنڈ‘‘ کی واپسی
کرکٹ میں انضمام الحق کے جتنے کارنامے تھے بطور چیف سلیکٹر وہ ویسا کام نہیں کر پائے
پاکستان میں کوئی 40 وکٹ لے یا 2،3 ہزار رنز بنا لے تو اسے عظیم کرکٹرز کی صف میں شامل کر لیا جاتا ہے، انضمام الحق نے انٹرنیشنل مقابلوں میں مجموعی طور پر 20 ہزار سے زائد رنز بنائے، بجا طور پر وہ لیجنڈز میں شمار ہوتے ہیں،ماضی میں ان کا ٹویٹر ہینڈل ہی ''انضی دی لیجنڈ'' کے نام سے تھا،2016 سے 2019 تک انھوں نے بطور چیف سلیکٹر جب اپنی پہلی اننگز کھیلی تو میں نے اس دوران ''انضی دی لیجنڈ'' لکھنا شروع کیا۔
اس پر مجھے کسی نے بتایا کہ وہ خود کو لیجنڈ نہیں کہتے بلکہ ان کی ایک برانڈ کے نام پر سوشل میڈیا ہینڈل بنایا گیا، خیر کرکٹ میں انضمام الحق کے جتنے کارنامے تھے بطور چیف سلیکٹر وہ ویسا کام نہیں کر پائے، امام الحق کو وقت سے قبل ٹیم میں لانے، عابد علی کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنے،فواد عالم کو ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے پر بھی نہ کھلانے جیسے اقدامات پر وہ تنقید کی زد میں رہے۔
یہ درست ہے کہ ان کے دور میں ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی لیکن اس کا اصل کریڈٹ تو مکی آرتھر اور سرفراز احمد کو جاتا ہے، خیر انضمام الحق کا ٹویٹر ہینڈل اسی وقت تبدیل ہو گیا تھا شاید بطور چیف سلیکٹر دوسرا موقع پانے پر وہ بھی تبدیل شدہ روپ میں نظر آئیں، اب میدان صاف ہے، پاکستان کی زبردست ٹیم بن چکی، بابر اعظم کی قیادت میں کھلاڑی بہترین پرفارم کر رہے ہیں، شاہین شاہ آفریدی اور محمد رضوان بھی سپراسٹارز بن چکے، اگر آپ کسی عام کرکٹ شائق سے بھی کہیں تو وہ ورلڈکپ اسکواڈ کے 14،15 ارکان کی درست نشاندہی کر دے گا،صرف 2،3 کھلاڑیوں پر ہی بحث ہونی ہے۔
امام الحق اب سیٹ ہو چکے، انھیں چچا کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں رہی، بیچارے فواد عالم کو ہم نے اتنا مایوس کر دیا کہ اب وہ امریکا میں کیریئر بنانے کا سوچ رہے ہیں،عابد علی کی بیماری نے انھیں سائیڈ لائن کیا، اب وہ صحتیاب ہو چکے لیکن کوئی انھیں نہیں پوچھ رہا،البتہ ماضی میں جو ان پلیئرز کے ساتھ ہوا موجودہ اسکواڈ کے کسی کرکٹر کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے، بابر اب 2016 والا بچہ نہیں بلکہ دنیا کا نمبر ون بیٹر بن چکا، وہ بھی ٹویٹر ہینڈل بابر دی لیجنڈ رکھ سکتے ہیں، انھیں تو بالکل نہیں چھیڑنا چاہیے۔
اسکواڈ منتخب کرتے ہوئے کپتان کی رائے کو ضرور اہمیت دیں، وہ جس کھلاڑی کو چاہیں اسے منتخب کریں،مکی آرتھر اور بریڈ برن سے بھی رابطہ رکھیں، اسی صورت میں ورلڈکپ کا متوازن اسکواڈ بن سکے گا،آغاز افغانستان کیخلاف سیریز سے ہونا ہے، اب تجربات کا وقت نہیں رہا، انہی کھلاڑیوں کو پھر ایشیا کپ اور آخر میں ورلڈکپ میں بھی حصہ لینا ہوگا،انضمام اب کرکٹ ٹیکنیکل کمیٹی کا حصہ نہیں رہے، ویسے بھی اس میں شاید اعزازی طور پر کام کرنا پڑتا یہاں کئی ملین روپے ہر ماہ ملنے ہیں،خیر ہر پروفیشنل کو اپنی محنت کا معاوضہ ضرور ملنا چاہیے، پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کی یہ خوبی ہے کہ وہ کرکٹ کے فیصلے کرکٹرز پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
انھوں نے اسی لیے مصباح الحق کو کرکٹ کمیٹی کا سربراہ بنایا اور مکمل اختیارات بھی سونپ دیے، اب انضی دی لیجنڈ سوری انضمام الحق کو ایسا چیف سلیکٹر بنایا جس کی کمیٹی کے فی الحال ارکان ہی نہیں ہیں، میرا چیئرمین صاحب کو یہی مشورہ ہے کہ کرکٹ کمیٹی میں محمد حفیظ جیسے کئی اور بڑے نام بھی شامل کریں جو مصباح کے سامنے اپنی رائے دے سکیں،پھر ان کی تجاویز سن کر فیصلے کریں،اسی طرح سلیکشن کمیٹی میں بھی بڑے سابق کرکٹرز کو رکھنے کی کوشش کریں جو جی انضی بھائی کی ہی گردان نہ کرتے پھریں، کرکٹرز کھیلتے وقت تو صفر سے چڑتے ہیں مگر بعد میں چیک میں جتنے زیادہ صفر ہوں اتنا ہی ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔
اچھا معاوضہ ملنے پر کوئی بھی آ جائے گا، بابر،آرتھر اور بریڈ برن سے مشاورت اچھی بات ہے مگر باقاعدہ سلیکشن کمیٹی بھی ضروری ہوگی،میں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ محمد وسیم کو دوبارہ ذمہ داری نہیں سونپی گئی، وہ ایپل کا لیپ ٹاپ سامنے رکھ کر خود کو ڈان بریڈ مین جیسا کھلاڑی سمجھتے، ان کے چاہنے والوں نے انھیں دوبارہ لانے کیلیے سوشل میڈیا پر بڑی مہم چلائی لیکن ناکام رہے،آپ یہ سمجھیں کہ بس یہ نہیں کہا کہ بابر اعظم کی دریافت محمد وسیم نے کی تھی باقی سب کا کریڈٹ ان کو دے دیا، حالانکہ ان کے دور میں بھی جو کھلاڑی سامنے آئے وہ سب بیچارے ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کا انبار لگا چکے تھے، ان کو تو چانس ملنا ہی تھا، پھر اچھا پرفارم کیا تو جگہ بھی مستقل ہو گئی۔
ذکا اشرف کی آمد کے بعد بہتری کیلیے اقدامات تو جاری ہیں مگر عدالتی کیسز وغیرہ سے ان کی توجہ بھی بھٹکانے کی کوشش ہو رہی ہے، وہ نرم گو انسان ضرور ہیں لیکن جہاں بات اصولوں کی ہو کسی دباؤ میں نہیں آتے، کئی ''ریٹائرڈ بزرگ'' انھیں فون کرتے رہے،مصروفیت کی وجہ سے کال وصول نہ کی تو ناراض ہو گئے مگر ذکا اشرف نے کوئی اثر نہ لیا، وہ میرٹ کو ترجیح دیتے ہیں، پی سی بی میں بھی ان دنوں تبدیلیوں کی لہر جاری ہے، مستقبل کے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلیے نئی تقرریاں کی جا رہی ہیں، بابر حمید،صہیب شیخ اور بدر رفاعی جیسے کچھ پرانے آفیشلز بھی واپسی کیلیے کوشاں ہیں۔
البتہ سنا ہے کہ ہر چیئرمین کی آنکھ کا تارا بن جانے والے سی او او سلمان نصیر ان دنوں کچھ پریشان سے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کسی کے آنے پر خوش نہیں یا پھر انھیں بھی واپسی کا پروانہ جاری ہونے کا امکان ہے، ویسے سلمان کے جتنے تعلقات ہیں ان کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا، اگر گئے بھی تو وکالت تو کرتے رہیں گے۔
وہاں تو فی منٹ کے حساب سے ادائیگیاں ہوتی ہیں، جو بھی ہو اگر پاکستان کرکٹ کی بہتری ہو گی تو اچھی بات ہے، ابھی پی سی بی کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، ایشیا کپ کے چار میچز ہی ملک میں ہونے ہیں لیکن بااحسن انداز میں انعقاد ضروری ہے،امید ہے ذکا اشرف اس امتحان میں سرخرو ہوں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اس پر مجھے کسی نے بتایا کہ وہ خود کو لیجنڈ نہیں کہتے بلکہ ان کی ایک برانڈ کے نام پر سوشل میڈیا ہینڈل بنایا گیا، خیر کرکٹ میں انضمام الحق کے جتنے کارنامے تھے بطور چیف سلیکٹر وہ ویسا کام نہیں کر پائے، امام الحق کو وقت سے قبل ٹیم میں لانے، عابد علی کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنے،فواد عالم کو ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے پر بھی نہ کھلانے جیسے اقدامات پر وہ تنقید کی زد میں رہے۔
یہ درست ہے کہ ان کے دور میں ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی لیکن اس کا اصل کریڈٹ تو مکی آرتھر اور سرفراز احمد کو جاتا ہے، خیر انضمام الحق کا ٹویٹر ہینڈل اسی وقت تبدیل ہو گیا تھا شاید بطور چیف سلیکٹر دوسرا موقع پانے پر وہ بھی تبدیل شدہ روپ میں نظر آئیں، اب میدان صاف ہے، پاکستان کی زبردست ٹیم بن چکی، بابر اعظم کی قیادت میں کھلاڑی بہترین پرفارم کر رہے ہیں، شاہین شاہ آفریدی اور محمد رضوان بھی سپراسٹارز بن چکے، اگر آپ کسی عام کرکٹ شائق سے بھی کہیں تو وہ ورلڈکپ اسکواڈ کے 14،15 ارکان کی درست نشاندہی کر دے گا،صرف 2،3 کھلاڑیوں پر ہی بحث ہونی ہے۔
امام الحق اب سیٹ ہو چکے، انھیں چچا کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں رہی، بیچارے فواد عالم کو ہم نے اتنا مایوس کر دیا کہ اب وہ امریکا میں کیریئر بنانے کا سوچ رہے ہیں،عابد علی کی بیماری نے انھیں سائیڈ لائن کیا، اب وہ صحتیاب ہو چکے لیکن کوئی انھیں نہیں پوچھ رہا،البتہ ماضی میں جو ان پلیئرز کے ساتھ ہوا موجودہ اسکواڈ کے کسی کرکٹر کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے، بابر اب 2016 والا بچہ نہیں بلکہ دنیا کا نمبر ون بیٹر بن چکا، وہ بھی ٹویٹر ہینڈل بابر دی لیجنڈ رکھ سکتے ہیں، انھیں تو بالکل نہیں چھیڑنا چاہیے۔
اسکواڈ منتخب کرتے ہوئے کپتان کی رائے کو ضرور اہمیت دیں، وہ جس کھلاڑی کو چاہیں اسے منتخب کریں،مکی آرتھر اور بریڈ برن سے بھی رابطہ رکھیں، اسی صورت میں ورلڈکپ کا متوازن اسکواڈ بن سکے گا،آغاز افغانستان کیخلاف سیریز سے ہونا ہے، اب تجربات کا وقت نہیں رہا، انہی کھلاڑیوں کو پھر ایشیا کپ اور آخر میں ورلڈکپ میں بھی حصہ لینا ہوگا،انضمام اب کرکٹ ٹیکنیکل کمیٹی کا حصہ نہیں رہے، ویسے بھی اس میں شاید اعزازی طور پر کام کرنا پڑتا یہاں کئی ملین روپے ہر ماہ ملنے ہیں،خیر ہر پروفیشنل کو اپنی محنت کا معاوضہ ضرور ملنا چاہیے، پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کی یہ خوبی ہے کہ وہ کرکٹ کے فیصلے کرکٹرز پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
انھوں نے اسی لیے مصباح الحق کو کرکٹ کمیٹی کا سربراہ بنایا اور مکمل اختیارات بھی سونپ دیے، اب انضی دی لیجنڈ سوری انضمام الحق کو ایسا چیف سلیکٹر بنایا جس کی کمیٹی کے فی الحال ارکان ہی نہیں ہیں، میرا چیئرمین صاحب کو یہی مشورہ ہے کہ کرکٹ کمیٹی میں محمد حفیظ جیسے کئی اور بڑے نام بھی شامل کریں جو مصباح کے سامنے اپنی رائے دے سکیں،پھر ان کی تجاویز سن کر فیصلے کریں،اسی طرح سلیکشن کمیٹی میں بھی بڑے سابق کرکٹرز کو رکھنے کی کوشش کریں جو جی انضی بھائی کی ہی گردان نہ کرتے پھریں، کرکٹرز کھیلتے وقت تو صفر سے چڑتے ہیں مگر بعد میں چیک میں جتنے زیادہ صفر ہوں اتنا ہی ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔
اچھا معاوضہ ملنے پر کوئی بھی آ جائے گا، بابر،آرتھر اور بریڈ برن سے مشاورت اچھی بات ہے مگر باقاعدہ سلیکشن کمیٹی بھی ضروری ہوگی،میں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ محمد وسیم کو دوبارہ ذمہ داری نہیں سونپی گئی، وہ ایپل کا لیپ ٹاپ سامنے رکھ کر خود کو ڈان بریڈ مین جیسا کھلاڑی سمجھتے، ان کے چاہنے والوں نے انھیں دوبارہ لانے کیلیے سوشل میڈیا پر بڑی مہم چلائی لیکن ناکام رہے،آپ یہ سمجھیں کہ بس یہ نہیں کہا کہ بابر اعظم کی دریافت محمد وسیم نے کی تھی باقی سب کا کریڈٹ ان کو دے دیا، حالانکہ ان کے دور میں بھی جو کھلاڑی سامنے آئے وہ سب بیچارے ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کا انبار لگا چکے تھے، ان کو تو چانس ملنا ہی تھا، پھر اچھا پرفارم کیا تو جگہ بھی مستقل ہو گئی۔
ذکا اشرف کی آمد کے بعد بہتری کیلیے اقدامات تو جاری ہیں مگر عدالتی کیسز وغیرہ سے ان کی توجہ بھی بھٹکانے کی کوشش ہو رہی ہے، وہ نرم گو انسان ضرور ہیں لیکن جہاں بات اصولوں کی ہو کسی دباؤ میں نہیں آتے، کئی ''ریٹائرڈ بزرگ'' انھیں فون کرتے رہے،مصروفیت کی وجہ سے کال وصول نہ کی تو ناراض ہو گئے مگر ذکا اشرف نے کوئی اثر نہ لیا، وہ میرٹ کو ترجیح دیتے ہیں، پی سی بی میں بھی ان دنوں تبدیلیوں کی لہر جاری ہے، مستقبل کے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلیے نئی تقرریاں کی جا رہی ہیں، بابر حمید،صہیب شیخ اور بدر رفاعی جیسے کچھ پرانے آفیشلز بھی واپسی کیلیے کوشاں ہیں۔
البتہ سنا ہے کہ ہر چیئرمین کی آنکھ کا تارا بن جانے والے سی او او سلمان نصیر ان دنوں کچھ پریشان سے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کسی کے آنے پر خوش نہیں یا پھر انھیں بھی واپسی کا پروانہ جاری ہونے کا امکان ہے، ویسے سلمان کے جتنے تعلقات ہیں ان کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا، اگر گئے بھی تو وکالت تو کرتے رہیں گے۔
وہاں تو فی منٹ کے حساب سے ادائیگیاں ہوتی ہیں، جو بھی ہو اگر پاکستان کرکٹ کی بہتری ہو گی تو اچھی بات ہے، ابھی پی سی بی کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، ایشیا کپ کے چار میچز ہی ملک میں ہونے ہیں لیکن بااحسن انداز میں انعقاد ضروری ہے،امید ہے ذکا اشرف اس امتحان میں سرخرو ہوں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)