میری فطرت ہی بے قاعدگی سے عبارت ہے الطاف فاطمہ
آنکھ خراب ہونے پروالدہ نے پڑھنے سے منع کیا تولکھنا شروع کردیااورفکشن نگاربن گئی، الطاف فاطمہ
قویٰ مضمحل ضرور ہیں مگر ذہن کی براقی برقرار اورقلم رواں ہے۔
چند دن قبل ہی ایلسامارسٹن کی مشرق وسطیٰ سے متعلق کہانیوں کا مجموعہ ان کے قلم سے ترجمہ ہو کر ''زیتون کے جھنڈ''کے عنوان سے چھپا ہے۔علی برادران سے متعلق ایک انگریزی کتاب کو اردو میں منتقل کررہی ہیں۔ادبی رسالوں میں افسانے بھی گاہے گاہے شائع ہوتے رہتے ہیں۔بیتے دنوں کو سپرد قلم کرنے کے خیال کو پہلے توانھوں نے پذیرائی نہیں بخشی کہ فطری منکسرالمزاجی کے باعث ان کا خیال تھا ''میری فطرت ہی بے قاعدگی سے عبارت ہے کہ مجھے اپنے بارے میں کسی قسم کے حساب کتاب اورایک ناچیزسی غیراہم زندگی کے لمحے لمحے کوقلم بند کرنافضول سی بات معلوم ہوتی ۔''
خیر اچھی بات یہ ہے کہ اپنی رائے سے رجوع کرلینے کے بعد وہ یادداشتیں لکھنے پر آمادہ ہوئی ہیں۔ہم نے انھیں یاد دلایا کہ ان کی خالہ زاد بہن حمیدہ اخترحسین رائے پوری نے ادیب نہ ہونے کے باوجود ''ہمسفر'' کے نام سے کمال کی آپ بیتی لکھی، تواب ان سے بھی ایسی توقع کی جانی چاہیے۔ اس پرکہنے لگیں ''حمیدہ باجی کی کیا بات ہے۔ ان کی زندگی میں آرام اور سکون بھی بہت تھا۔ بڑی عمدہ کتاب انھوں نے لکھی۔ وہ بہت خوبصورت گفتگو کرتی تھیں، اس لیے میں ان پرزوردیتی تھی کہ حمیدہ باجی! آپ جو باتیں کرتی ہیں انھیں لکھ ڈالیں۔ میرے کہنے پرتو نہیں، بعد میں البتہ ڈاکٹرجمیل جالبی کے اصرار کرنے پرانھوں نے اپنی یادوں کو قلمبند کیا۔بہت نستعلیق،باوقار اورنفیس خاتون تھیں۔''
مطالعہ کی کمک کے بغیر اچھی تحریروجود میں نہیں آتی، یہ وہ نکتہ ہے، جس کو ہمارے اکثر لکھنے والے فراموش کربیٹھے ہیں مگر 85 برس کی الطاف فاطمہ کا معاملہ یہ نہیں۔وہ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی تحریروں کو پڑھتی ہیں۔انھوں نے چند دن قبل ہی ایلف شفق کا ناول "The Forty Rules of Love" پڑھا اور پسند کیا۔کتابوںکے ساتھ ادبی رسائل سے بھی اعتنا کرتی ہیں۔ معروف ادبی جریدے''دنیا زاد'' کے گذشتہ شمارے میں ذکیہ مشہدی کی کہانی'' انگوٹھی'' اور آصف فرخی کا سفرنامہ پسند آیاتو ان نگارشات کے بارے میں تاثرات کو مدیر کے نام خط لکھ کر ظاہر کیا۔
حالات حاضرہ پربھی گہری نظرہے۔ نوماہ کے معصوم بچے کو مقدمے میں ملوث کرنے کی خبرپڑھ کر بھی کڑھتی ہیں اور اہل سیاست کی بوالعجبیوں پربھی دلگرفتہ ہیں۔ سوال اٹھاتی ہیں کہ آخرہماری حکومتیں پولیس کو ٹھیک کیوں نہیں کرتیں؟میڈیا کے رویے سے ناخوش اوراس کے سدھارکی متمنی ہیں۔ صحافت کو بہت اہم پیشہ گردانتی ہیں اور اس پیشے سے وابستہ افراد سے عرض کرتی ہیں کہ وہ اس کے تقدس اورمتانت کو ملحوظ رکھیں۔
مطالعہ کا شوق مرض کی طرح بچپن میں ہی انھیں لگ گیا اور یہ اس ماحول کی دین تھاجس کے زیراثروہ پروان چڑھیں۔اجداد میں علامہ فضل حق خیرآبادی جیسا عالم گزرا۔ہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھے جانے والے پہلے ناول'' نشتر ''کے مصنف حسین شاہ حقیقت بھی ان کے خاندان سے تھے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں، جو الطاف فاطمہ کی پیدائش سے کہیں پہلے گزرگئیں اور ان کا علمی وادبی کام ہی انھیں ورثے میں ملا۔خوش قسمتی ان کی یہ رہی کہ سن شعورکو پہنچیں توناموران ادب کو گرد پایا۔ اردو کے ممتازاور فراموش کردہ افسانہ نگاررفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے۔ پڑوس میں ممتازمحقق مسعود حسن رضوی کی رہائش گاہ تھی، جن کے خانوادے سے الطاف فاطمہ کے گھرانے کا بہت ربط ضبط تھا۔ الطاف فاطمہ سے مسعود حسن رضوی بہت لاڈ پیار کرتے اور یہ ان سے اردو کا سبق بھی لیتیں۔
اس وقت کس کو خبر تھی کہ کہ یہ بچی آگے چل کرفکشن میں نام پیدا کرے گی اور مسعود حسن رضوی کا جو بیٹااسے شموباجی کہہ کربلاتا ہے وہ ایک روز خود بھی اردو فکشن کا معتبرحوالہ بن جائے گا اور دنیا اسے نیرمسعود کے نام سے جانے گی۔ نیرمسعود نے اس گھرانے سے جڑی ایک یادکو جو کتابوں سے متعلق ہے اسے اپنے ایک خط میں یوں تازہ کیا۔ ''بچوں کی کتابیں مجھے پڑوس میں بہن الطاف فاطمہ صاحبہ کے یہاں پڑھنے کو ملتی تھیں۔شیشے لگی ہوئی ایک چھوٹی سے الماری میں دارالاشاعت پنجاب کی کتابیں اور بچوں کی دوسری کتابیں سلیقے سے سجی رہتی تھیں اورکبھی کبھی میرا پورا دن ان کتابوں کی سیرمیں نکل جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ خاندان پاکستان چلا گیا، جس کے کچھ دن بعد اس گھر کا سامان نیلام ہوا۔ نیلام کی صبح یہ سامان باہرنکال کررکھا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میزوں کرسیوں اور پلنگوں کے ساتھ کتابوں کے خزانے سے بھری ہوئی یہ محبوب الماری بھی رکھی ہوئی ہے۔
دوڑا ہوا والدہ کے پاس پہنچا کہ اس کی بولی میرے نام چھڑوائی جائے۔ مشکل یہ تھی والد صاحب (پرانا سامان خریدنے کا شوق رکھنے کے باوجود) ایسا سامان کبھی نہیں خریدتے تھے جوان کے کسی عزیزیا واقف کار کو مجبوراً فروخت کرنا پڑ جاتا ہو۔ میری خود ان سے کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ والدہ کو وکیل بنایا۔انھوں نے وکالت کا حق ادا کردیا لیکن مقدمہ جیت نہ سکیں۔ ایک دیوار پر بیٹھ کرمیں نے نیلامی کا منظر دیکھا۔ الماری کی باری آئی اور بالآخر 'چار روپے ایک، چار روپے دو، چار روپے تین، بلکہ، چار روپے (کھٹ) تین کی آواز سنتے ہی میں نے خود کو دیوار سے نیچے گرادیا(یہ گویاخودکشی فرمائی تھی) '' تویہ وہ علم پرور فضا تھی، جس میں الطاف فاطمہ نے اپنی زندگی کے پہلے اٹھارہ برس گزارے۔ ان کی نسل کے کئی معروف ادیبوں نے اس زمانے میں واشنگٹن ارونگ کی کتاب "Tales of the Alhambra" کے دارالاشاعت پنجاب سے شائع ہونے والے اردو ترجمے کو پڑھ کر ہونے والی مسرت کا ذکر کیا ہے۔ الطاف فاطمہ کو بھی اس کتاب نے مسحورکیا۔
انھوں نے یہ کتاب مگر غلام عباس کے ترجمے کی بجائے براہ راست انگریزی میں پڑھی۔ رفیق حسین کے بیٹے شاہد حامد جو پاک فوج میں اعلیٰ عہدوں پررہے، تقسیم سے قبل سینڈھرسٹ پڑھنے گئے توواپسی پران کے لیے واشنگٹن ارونگ کی کتاب بھی لائے، جانتے تھے کہ الطاف فاطمہ پڑھنے کی رسیا ہے۔ الحمرا کی کہانیوں کے سوا جو دوسری کتاب ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ہے وہ عظیم بیگ چغتائی کی ''قصرصحر'' ہے۔ الطاف فاطمہ کے لکھنے پڑھنے کے عمل کو والدہ کی تائید حاصل رہی جن کے بارے میں انھوں نے ''دستک نہ دو'' معنون کرتے ہوئے لکھا ''اپنی اماں کے نام، جومیری ہرتحریراور شوق کا سرچشمہ تھیں اور اب بھی ہیں۔'' اس ناول کا ذکر ہوا ہے تولگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ یہ ناول مصنفہ کا سب سے معروف تخلیقی کارنامہ ہے۔ یہ ناول نصاب کا حصہ ہے۔ اس کا انگریزی میں رخسانہ احمد نے ترجمہ کیا۔ ناول کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹی وی پر دکھایا گیا۔ ممتازادیب عبداللہ حسین بھی ''دستک نہ دو'' کے قائل ہیں۔
الطاف فاطمہ نے فکشن لکھنے کا باقاعدہ آغاز بی اے کے دوران اس وقت کیا جب ان کی آنکھ خراب ہوئی۔اس عالم میں پڑھنے پروالدہ ڈانٹ ڈپٹ کرتیں تواس کے ردعمل میں انھوں نے مطالعہ ترک کرکے قلم چلانا شروع کر دیا۔ والدہ کی نظرسے تحریرگزری توانھیں اچھی لگی اوربیٹی کو اسے مکمل کرنے کو کہا اور ہوتے ہوتے یہ''نشانِ محفل'' بن گیا اور یہ فکشن نگار بن گئیں۔اب وہ اس ناول کو زیادہ گانٹھتی نہیں اور اسے امیچور تحریر قرار دیتی ہیں۔ ذاتی طور پر اپنے ناولوں میں ''چلتامسافر''انھیں سب سے بڑھ کرپسند ہے۔ اس ناول کے لیے مصنفہ نے برصغیرکی سیاسی تاریخ کا ڈوب کرمطالعہ کیاتاکہ حالات و واقعات کا تناظرٹھیک طریقے سے بیان کرسکیں۔ ''خواب گھر''ان کا شائع ہونے والا آخری ناول ہے۔
''وہ جسے چاہا گیا''،''جب دیواریں گریہ کرتی ہیں'' اور ''تارعنکبوت'' افسانوں کے مجموعے ہیں۔ محمد سلیم الرحمن نے اردو کے بارہ افسانوں کو انگریزی میں ترجمہ کرکے کتابی صورت میں چھپوایا تو نہ صرف الطاف فاطمہ کا افسانہ ''ننگی مرغیاں'' اس میں شامل تھا بلکہ اس افسانے کا ترجمہ شدہ نام "The naked Hens" ہی کتاب کا عنوان ٹھہرا۔رسالوں میں چھپے دس بارہ افسانوں کو ترتیب دے کرمستقبل قریب میں افسانوں کا چوتھا مجموعہ سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ الطاف فاطمہ کے ادبی سفر کا ایک پڑاؤ ترجمہ نگاری بھی ہے۔ ہارپرلی کے ناول"To Kill a Mocking bird" کا نغمے کا قتل کے عنوان سے ترجمہ کیا، جس کو ممتازمترجم اجمل کمال اردو میں ہونے والے بہترین ترجموں میں سے ایک قراردیتے ہیں۔ رمامہتہ کے ناول "Inside the Haveli" کو ''حویلی کے اندر'' کے عنوان سے اردو میں منتقل کیا۔ سچ کہانیاں ہندوستان کی مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والی چھ خواتین کے افسانوں کے ترجموں پرمشتمل کتاب ہے۔
بیسویں صدی کی جاپانی خواتین افسانہ نگاروں کے انتخاب پرمبنی کتاب جس کی تالیف نوریکو میزوٹالپٹ اور کیو کواریے سیلڈن نے کی اسے بھی اردو قالب میں ڈھالا۔ الطاف فاطمہ کو یادنگاری میں بڑی قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے کم ہی خاکے لکھے مگرجب بھی قلم اٹھایا سچی بات ہے حق ادا کر دیا۔ اس کی ایک مثال رفیق حسین پر''خزاں کے رنگ''کے عنوان سے خاکہ ہے تو دوسری مثال ''شاہد صاحب۔ ساقی والے'' ہے۔ ادب سے ہٹ کران کی ایک کتاب ''روزمرہ آداب'' ہے۔ ایک کتاب انھوں نے گائے بھینسوں کے بارے میں بھی لکھی۔ اس کے بارے میں ایک بیان ممتازادیب انتظارحسین کا بھی پڑھ لیں۔''ماموں نے جانوروں کے افسانے لکھے تھے،بھانجی نے گائے بھینسوں پرایک معلوماتی کتاب لکھ ڈالی۔۔۔۔۔۔باقی یہ کہ جانوروں سے انھیں دلچسپی تو ہے بلکہ ایک زمانے تک وہ خود اسی زمرے میں شمار ہوتی رہیں۔سب گھروالے انھیں گھوڑی کہتے تھے۔ الطاف فاطمہ گھوڑی۔''
الطاف فاطمہ نے 1929 ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ والد فضل امین نے علی گڑھ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔وہ ریاست جاورہ میں بڑے سرکاری عہدے پر تھے۔ 34 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ الطاف فاطمہ کے بقول، مولانا حسرت موہانی کے اخبارمیں خافی خاں کے فرضی نام سے شائع ہونے والا وہ مضمون جس پرمولانا کو قید ہوئی وہ ان کے والد کے قلم سے تھا۔الطاف فاطمہ کے داداریاست پٹیالہ میں جج تھے۔اس ریاست میں سنیورکے مقام پران کے باپ دادا کی جو زمینیںتھیں اس کی آمدن سے گزربسر ہوتی۔ تقسیم کے بعد یافت کا یہ ذریعہ بند ہوگیا ۔اس مشکل گھڑی میںان کے ماموں زاد بھائی جو پاکستان جانے کا فیصلہ کرچکے تھے، ان کی والدہ کے پاس آئے اورکہا کہ رخت سفرباندھیں اور میرے ساتھ ہولیں، کیونکہ اکیلے ادھرآپ کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ بھتیجے کی بات پھوپھی نے مان لی اور یہ گھرانہ سپیشل ٹرین میں بیٹھ کرلاہورپہنچ گیا۔ فسادات کی حشرسامانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ کربڑی رنجیدہ ہوئیں۔ شقاوت کے وہ وہ مناظردیکھے کہ آج بھی بھولتے نہیں۔
تقسیم اوربعد ازاں مشرقی پاکستان کی علیحدگی یہ دو واقعات ایسے ہیں، جنھوں نے ان کوہندوستان سے اس قدرمتنفرکردیا ہے کہ اس ملک کا ذکر آتے ہی ،ان کا لہجہ تلخ ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ان کوتھوڑی مشکل ضرور پیش آئی لیکن رفتہ رفتہ ان کے قدم جم گئے توپھرتعلیم کا ٹوٹا سلسلہ بھی بحال ہوگیااورباعزت روزگاربھی مل گیا۔ بھائی فضل قدیر کے ساتھ مل کرامریکن سینٹر کے لیے پمفلٹس کے ترجمے کئے۔اردو کے معروف نقاد ڈاکٹرسید عبداللہ نے اپنی ہونہار شاگردہ کو ریڈیوپرکام کرنے کی تحریک دی اوراس کام کی اجازت کے لیے بیوی کے ہم راہ بنفس نفیس ان کے ہاں گئے اور ان کی والدہ کو اس بات پرقائل کیا کہ وہ بیٹی کو ریڈیو کے لیے کام کرنے کی اجازت دیں۔ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کرلینے کے بعد پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کیا۔ 1964ء میں اسلامیہ کالج کوپرروڈ میں پڑھانا شروع کیا،اور پھراپنی ریٹائرمنٹ تک اسی تعلیمی ادارے سے متعلق رہیں۔بعد ازاں اپوا میں چاربرس پڑھایا۔
الطاف فاطمہ کی بہن نشاط فاطمہ بھی ان ہی کی طرح فکشن نگاراورکئی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ بھائی فضل قدیر ''ماہ نو''کے ایڈیٹر اور مترجم کی حیثیت سے علمی حلقوں میں جانے گئے۔مجرد زندگی بسر کرنے والی یہ ادیبہ بہن اور بھائی کے گزرجانے کے بعد خود کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ بھانجوں بھتیجوں کو یہ، اور وہ انھیں بہت عزیز جانتے ہیں۔ ان کو زندگی میں ملنے والی کامیابیوں کا ذکر بڑے فخرسے کرتی ہیں۔ تنہائی کے بارے میں ہر انسان کی اپنی ایک تعریف ہے۔ اس حوالے سے ان کا اپنا کہا مستند جانتے ہوئے ہم دہرائے دیتے ہیں ''۔۔۔اوربعضی بعضی تنہائیاں کتنی آباد اور معمور ہوتی ہیں۔ گزرے ہوئے کارروانوں اور وقت کی اجاڑ بستیوں سے معمورتنہائیاں بہت آباد اور پررونق ہوتی ہیں۔''
زمانے کی ناقدری اورتسلیم نہ کئے جانے کا رنج ان کے ہاں بھی ہے لیکن اس کا بڑا دبا دبا اظہارکرتی ہیں، اس معاشرے میں جہاں ڈھنڈورچیوں کو زیادہ وقعت دی جاتی ہے، اور ٹی وی کا سہارا ادب میں مقبولیت کی باعث بن جائے وہاں ان جیسی صرف اورصرف اپنی تحریر کے بوتے پراپنے کو منوانے پریقین رکھنے والی الطاف فاطمہ گھاٹے میں تو رہیں گی لیکن یہ خسارہ عارضی ہے، جعلی پیروں کی طرح جعلی ادیبوں کا سورج بھی جلد غروب ہوجاتا ہے۔گمنامی کا پردہ جب ہٹتا ہے تو ادیب کو شناخت کرلیا جاتا ہے، اس کی مثال ڈھونڈنے کے لیے انھیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیںرفیق حسین کی مثال سامنے کی ہے، جن کا کام اب اردو کے دائرے سے نکل کر انگریزی قارئین تک پہنچ گیا ہے۔ اپنے ہاں کے ادبی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تولگتا ہے کہ اس ملک میں دو چار خواتین ہی شاعری کرتی ہیں اور دو چار ہی کا فکشن سے ناتا ہے۔
چند دن قبل ہی ایلسامارسٹن کی مشرق وسطیٰ سے متعلق کہانیوں کا مجموعہ ان کے قلم سے ترجمہ ہو کر ''زیتون کے جھنڈ''کے عنوان سے چھپا ہے۔علی برادران سے متعلق ایک انگریزی کتاب کو اردو میں منتقل کررہی ہیں۔ادبی رسالوں میں افسانے بھی گاہے گاہے شائع ہوتے رہتے ہیں۔بیتے دنوں کو سپرد قلم کرنے کے خیال کو پہلے توانھوں نے پذیرائی نہیں بخشی کہ فطری منکسرالمزاجی کے باعث ان کا خیال تھا ''میری فطرت ہی بے قاعدگی سے عبارت ہے کہ مجھے اپنے بارے میں کسی قسم کے حساب کتاب اورایک ناچیزسی غیراہم زندگی کے لمحے لمحے کوقلم بند کرنافضول سی بات معلوم ہوتی ۔''
خیر اچھی بات یہ ہے کہ اپنی رائے سے رجوع کرلینے کے بعد وہ یادداشتیں لکھنے پر آمادہ ہوئی ہیں۔ہم نے انھیں یاد دلایا کہ ان کی خالہ زاد بہن حمیدہ اخترحسین رائے پوری نے ادیب نہ ہونے کے باوجود ''ہمسفر'' کے نام سے کمال کی آپ بیتی لکھی، تواب ان سے بھی ایسی توقع کی جانی چاہیے۔ اس پرکہنے لگیں ''حمیدہ باجی کی کیا بات ہے۔ ان کی زندگی میں آرام اور سکون بھی بہت تھا۔ بڑی عمدہ کتاب انھوں نے لکھی۔ وہ بہت خوبصورت گفتگو کرتی تھیں، اس لیے میں ان پرزوردیتی تھی کہ حمیدہ باجی! آپ جو باتیں کرتی ہیں انھیں لکھ ڈالیں۔ میرے کہنے پرتو نہیں، بعد میں البتہ ڈاکٹرجمیل جالبی کے اصرار کرنے پرانھوں نے اپنی یادوں کو قلمبند کیا۔بہت نستعلیق،باوقار اورنفیس خاتون تھیں۔''
مطالعہ کی کمک کے بغیر اچھی تحریروجود میں نہیں آتی، یہ وہ نکتہ ہے، جس کو ہمارے اکثر لکھنے والے فراموش کربیٹھے ہیں مگر 85 برس کی الطاف فاطمہ کا معاملہ یہ نہیں۔وہ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی تحریروں کو پڑھتی ہیں۔انھوں نے چند دن قبل ہی ایلف شفق کا ناول "The Forty Rules of Love" پڑھا اور پسند کیا۔کتابوںکے ساتھ ادبی رسائل سے بھی اعتنا کرتی ہیں۔ معروف ادبی جریدے''دنیا زاد'' کے گذشتہ شمارے میں ذکیہ مشہدی کی کہانی'' انگوٹھی'' اور آصف فرخی کا سفرنامہ پسند آیاتو ان نگارشات کے بارے میں تاثرات کو مدیر کے نام خط لکھ کر ظاہر کیا۔
حالات حاضرہ پربھی گہری نظرہے۔ نوماہ کے معصوم بچے کو مقدمے میں ملوث کرنے کی خبرپڑھ کر بھی کڑھتی ہیں اور اہل سیاست کی بوالعجبیوں پربھی دلگرفتہ ہیں۔ سوال اٹھاتی ہیں کہ آخرہماری حکومتیں پولیس کو ٹھیک کیوں نہیں کرتیں؟میڈیا کے رویے سے ناخوش اوراس کے سدھارکی متمنی ہیں۔ صحافت کو بہت اہم پیشہ گردانتی ہیں اور اس پیشے سے وابستہ افراد سے عرض کرتی ہیں کہ وہ اس کے تقدس اورمتانت کو ملحوظ رکھیں۔
مطالعہ کا شوق مرض کی طرح بچپن میں ہی انھیں لگ گیا اور یہ اس ماحول کی دین تھاجس کے زیراثروہ پروان چڑھیں۔اجداد میں علامہ فضل حق خیرآبادی جیسا عالم گزرا۔ہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھے جانے والے پہلے ناول'' نشتر ''کے مصنف حسین شاہ حقیقت بھی ان کے خاندان سے تھے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں، جو الطاف فاطمہ کی پیدائش سے کہیں پہلے گزرگئیں اور ان کا علمی وادبی کام ہی انھیں ورثے میں ملا۔خوش قسمتی ان کی یہ رہی کہ سن شعورکو پہنچیں توناموران ادب کو گرد پایا۔ اردو کے ممتازاور فراموش کردہ افسانہ نگاررفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے۔ پڑوس میں ممتازمحقق مسعود حسن رضوی کی رہائش گاہ تھی، جن کے خانوادے سے الطاف فاطمہ کے گھرانے کا بہت ربط ضبط تھا۔ الطاف فاطمہ سے مسعود حسن رضوی بہت لاڈ پیار کرتے اور یہ ان سے اردو کا سبق بھی لیتیں۔
اس وقت کس کو خبر تھی کہ کہ یہ بچی آگے چل کرفکشن میں نام پیدا کرے گی اور مسعود حسن رضوی کا جو بیٹااسے شموباجی کہہ کربلاتا ہے وہ ایک روز خود بھی اردو فکشن کا معتبرحوالہ بن جائے گا اور دنیا اسے نیرمسعود کے نام سے جانے گی۔ نیرمسعود نے اس گھرانے سے جڑی ایک یادکو جو کتابوں سے متعلق ہے اسے اپنے ایک خط میں یوں تازہ کیا۔ ''بچوں کی کتابیں مجھے پڑوس میں بہن الطاف فاطمہ صاحبہ کے یہاں پڑھنے کو ملتی تھیں۔شیشے لگی ہوئی ایک چھوٹی سے الماری میں دارالاشاعت پنجاب کی کتابیں اور بچوں کی دوسری کتابیں سلیقے سے سجی رہتی تھیں اورکبھی کبھی میرا پورا دن ان کتابوں کی سیرمیں نکل جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ خاندان پاکستان چلا گیا، جس کے کچھ دن بعد اس گھر کا سامان نیلام ہوا۔ نیلام کی صبح یہ سامان باہرنکال کررکھا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میزوں کرسیوں اور پلنگوں کے ساتھ کتابوں کے خزانے سے بھری ہوئی یہ محبوب الماری بھی رکھی ہوئی ہے۔
دوڑا ہوا والدہ کے پاس پہنچا کہ اس کی بولی میرے نام چھڑوائی جائے۔ مشکل یہ تھی والد صاحب (پرانا سامان خریدنے کا شوق رکھنے کے باوجود) ایسا سامان کبھی نہیں خریدتے تھے جوان کے کسی عزیزیا واقف کار کو مجبوراً فروخت کرنا پڑ جاتا ہو۔ میری خود ان سے کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ والدہ کو وکیل بنایا۔انھوں نے وکالت کا حق ادا کردیا لیکن مقدمہ جیت نہ سکیں۔ ایک دیوار پر بیٹھ کرمیں نے نیلامی کا منظر دیکھا۔ الماری کی باری آئی اور بالآخر 'چار روپے ایک، چار روپے دو، چار روپے تین، بلکہ، چار روپے (کھٹ) تین کی آواز سنتے ہی میں نے خود کو دیوار سے نیچے گرادیا(یہ گویاخودکشی فرمائی تھی) '' تویہ وہ علم پرور فضا تھی، جس میں الطاف فاطمہ نے اپنی زندگی کے پہلے اٹھارہ برس گزارے۔ ان کی نسل کے کئی معروف ادیبوں نے اس زمانے میں واشنگٹن ارونگ کی کتاب "Tales of the Alhambra" کے دارالاشاعت پنجاب سے شائع ہونے والے اردو ترجمے کو پڑھ کر ہونے والی مسرت کا ذکر کیا ہے۔ الطاف فاطمہ کو بھی اس کتاب نے مسحورکیا۔
انھوں نے یہ کتاب مگر غلام عباس کے ترجمے کی بجائے براہ راست انگریزی میں پڑھی۔ رفیق حسین کے بیٹے شاہد حامد جو پاک فوج میں اعلیٰ عہدوں پررہے، تقسیم سے قبل سینڈھرسٹ پڑھنے گئے توواپسی پران کے لیے واشنگٹن ارونگ کی کتاب بھی لائے، جانتے تھے کہ الطاف فاطمہ پڑھنے کی رسیا ہے۔ الحمرا کی کہانیوں کے سوا جو دوسری کتاب ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ہے وہ عظیم بیگ چغتائی کی ''قصرصحر'' ہے۔ الطاف فاطمہ کے لکھنے پڑھنے کے عمل کو والدہ کی تائید حاصل رہی جن کے بارے میں انھوں نے ''دستک نہ دو'' معنون کرتے ہوئے لکھا ''اپنی اماں کے نام، جومیری ہرتحریراور شوق کا سرچشمہ تھیں اور اب بھی ہیں۔'' اس ناول کا ذکر ہوا ہے تولگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ یہ ناول مصنفہ کا سب سے معروف تخلیقی کارنامہ ہے۔ یہ ناول نصاب کا حصہ ہے۔ اس کا انگریزی میں رخسانہ احمد نے ترجمہ کیا۔ ناول کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹی وی پر دکھایا گیا۔ ممتازادیب عبداللہ حسین بھی ''دستک نہ دو'' کے قائل ہیں۔
الطاف فاطمہ نے فکشن لکھنے کا باقاعدہ آغاز بی اے کے دوران اس وقت کیا جب ان کی آنکھ خراب ہوئی۔اس عالم میں پڑھنے پروالدہ ڈانٹ ڈپٹ کرتیں تواس کے ردعمل میں انھوں نے مطالعہ ترک کرکے قلم چلانا شروع کر دیا۔ والدہ کی نظرسے تحریرگزری توانھیں اچھی لگی اوربیٹی کو اسے مکمل کرنے کو کہا اور ہوتے ہوتے یہ''نشانِ محفل'' بن گیا اور یہ فکشن نگار بن گئیں۔اب وہ اس ناول کو زیادہ گانٹھتی نہیں اور اسے امیچور تحریر قرار دیتی ہیں۔ ذاتی طور پر اپنے ناولوں میں ''چلتامسافر''انھیں سب سے بڑھ کرپسند ہے۔ اس ناول کے لیے مصنفہ نے برصغیرکی سیاسی تاریخ کا ڈوب کرمطالعہ کیاتاکہ حالات و واقعات کا تناظرٹھیک طریقے سے بیان کرسکیں۔ ''خواب گھر''ان کا شائع ہونے والا آخری ناول ہے۔
''وہ جسے چاہا گیا''،''جب دیواریں گریہ کرتی ہیں'' اور ''تارعنکبوت'' افسانوں کے مجموعے ہیں۔ محمد سلیم الرحمن نے اردو کے بارہ افسانوں کو انگریزی میں ترجمہ کرکے کتابی صورت میں چھپوایا تو نہ صرف الطاف فاطمہ کا افسانہ ''ننگی مرغیاں'' اس میں شامل تھا بلکہ اس افسانے کا ترجمہ شدہ نام "The naked Hens" ہی کتاب کا عنوان ٹھہرا۔رسالوں میں چھپے دس بارہ افسانوں کو ترتیب دے کرمستقبل قریب میں افسانوں کا چوتھا مجموعہ سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ الطاف فاطمہ کے ادبی سفر کا ایک پڑاؤ ترجمہ نگاری بھی ہے۔ ہارپرلی کے ناول"To Kill a Mocking bird" کا نغمے کا قتل کے عنوان سے ترجمہ کیا، جس کو ممتازمترجم اجمل کمال اردو میں ہونے والے بہترین ترجموں میں سے ایک قراردیتے ہیں۔ رمامہتہ کے ناول "Inside the Haveli" کو ''حویلی کے اندر'' کے عنوان سے اردو میں منتقل کیا۔ سچ کہانیاں ہندوستان کی مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والی چھ خواتین کے افسانوں کے ترجموں پرمشتمل کتاب ہے۔
بیسویں صدی کی جاپانی خواتین افسانہ نگاروں کے انتخاب پرمبنی کتاب جس کی تالیف نوریکو میزوٹالپٹ اور کیو کواریے سیلڈن نے کی اسے بھی اردو قالب میں ڈھالا۔ الطاف فاطمہ کو یادنگاری میں بڑی قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے کم ہی خاکے لکھے مگرجب بھی قلم اٹھایا سچی بات ہے حق ادا کر دیا۔ اس کی ایک مثال رفیق حسین پر''خزاں کے رنگ''کے عنوان سے خاکہ ہے تو دوسری مثال ''شاہد صاحب۔ ساقی والے'' ہے۔ ادب سے ہٹ کران کی ایک کتاب ''روزمرہ آداب'' ہے۔ ایک کتاب انھوں نے گائے بھینسوں کے بارے میں بھی لکھی۔ اس کے بارے میں ایک بیان ممتازادیب انتظارحسین کا بھی پڑھ لیں۔''ماموں نے جانوروں کے افسانے لکھے تھے،بھانجی نے گائے بھینسوں پرایک معلوماتی کتاب لکھ ڈالی۔۔۔۔۔۔باقی یہ کہ جانوروں سے انھیں دلچسپی تو ہے بلکہ ایک زمانے تک وہ خود اسی زمرے میں شمار ہوتی رہیں۔سب گھروالے انھیں گھوڑی کہتے تھے۔ الطاف فاطمہ گھوڑی۔''
الطاف فاطمہ نے 1929 ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ والد فضل امین نے علی گڑھ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔وہ ریاست جاورہ میں بڑے سرکاری عہدے پر تھے۔ 34 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ الطاف فاطمہ کے بقول، مولانا حسرت موہانی کے اخبارمیں خافی خاں کے فرضی نام سے شائع ہونے والا وہ مضمون جس پرمولانا کو قید ہوئی وہ ان کے والد کے قلم سے تھا۔الطاف فاطمہ کے داداریاست پٹیالہ میں جج تھے۔اس ریاست میں سنیورکے مقام پران کے باپ دادا کی جو زمینیںتھیں اس کی آمدن سے گزربسر ہوتی۔ تقسیم کے بعد یافت کا یہ ذریعہ بند ہوگیا ۔اس مشکل گھڑی میںان کے ماموں زاد بھائی جو پاکستان جانے کا فیصلہ کرچکے تھے، ان کی والدہ کے پاس آئے اورکہا کہ رخت سفرباندھیں اور میرے ساتھ ہولیں، کیونکہ اکیلے ادھرآپ کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ بھتیجے کی بات پھوپھی نے مان لی اور یہ گھرانہ سپیشل ٹرین میں بیٹھ کرلاہورپہنچ گیا۔ فسادات کی حشرسامانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ کربڑی رنجیدہ ہوئیں۔ شقاوت کے وہ وہ مناظردیکھے کہ آج بھی بھولتے نہیں۔
تقسیم اوربعد ازاں مشرقی پاکستان کی علیحدگی یہ دو واقعات ایسے ہیں، جنھوں نے ان کوہندوستان سے اس قدرمتنفرکردیا ہے کہ اس ملک کا ذکر آتے ہی ،ان کا لہجہ تلخ ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ان کوتھوڑی مشکل ضرور پیش آئی لیکن رفتہ رفتہ ان کے قدم جم گئے توپھرتعلیم کا ٹوٹا سلسلہ بھی بحال ہوگیااورباعزت روزگاربھی مل گیا۔ بھائی فضل قدیر کے ساتھ مل کرامریکن سینٹر کے لیے پمفلٹس کے ترجمے کئے۔اردو کے معروف نقاد ڈاکٹرسید عبداللہ نے اپنی ہونہار شاگردہ کو ریڈیوپرکام کرنے کی تحریک دی اوراس کام کی اجازت کے لیے بیوی کے ہم راہ بنفس نفیس ان کے ہاں گئے اور ان کی والدہ کو اس بات پرقائل کیا کہ وہ بیٹی کو ریڈیو کے لیے کام کرنے کی اجازت دیں۔ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کرلینے کے بعد پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کیا۔ 1964ء میں اسلامیہ کالج کوپرروڈ میں پڑھانا شروع کیا،اور پھراپنی ریٹائرمنٹ تک اسی تعلیمی ادارے سے متعلق رہیں۔بعد ازاں اپوا میں چاربرس پڑھایا۔
الطاف فاطمہ کی بہن نشاط فاطمہ بھی ان ہی کی طرح فکشن نگاراورکئی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ بھائی فضل قدیر ''ماہ نو''کے ایڈیٹر اور مترجم کی حیثیت سے علمی حلقوں میں جانے گئے۔مجرد زندگی بسر کرنے والی یہ ادیبہ بہن اور بھائی کے گزرجانے کے بعد خود کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ بھانجوں بھتیجوں کو یہ، اور وہ انھیں بہت عزیز جانتے ہیں۔ ان کو زندگی میں ملنے والی کامیابیوں کا ذکر بڑے فخرسے کرتی ہیں۔ تنہائی کے بارے میں ہر انسان کی اپنی ایک تعریف ہے۔ اس حوالے سے ان کا اپنا کہا مستند جانتے ہوئے ہم دہرائے دیتے ہیں ''۔۔۔اوربعضی بعضی تنہائیاں کتنی آباد اور معمور ہوتی ہیں۔ گزرے ہوئے کارروانوں اور وقت کی اجاڑ بستیوں سے معمورتنہائیاں بہت آباد اور پررونق ہوتی ہیں۔''
زمانے کی ناقدری اورتسلیم نہ کئے جانے کا رنج ان کے ہاں بھی ہے لیکن اس کا بڑا دبا دبا اظہارکرتی ہیں، اس معاشرے میں جہاں ڈھنڈورچیوں کو زیادہ وقعت دی جاتی ہے، اور ٹی وی کا سہارا ادب میں مقبولیت کی باعث بن جائے وہاں ان جیسی صرف اورصرف اپنی تحریر کے بوتے پراپنے کو منوانے پریقین رکھنے والی الطاف فاطمہ گھاٹے میں تو رہیں گی لیکن یہ خسارہ عارضی ہے، جعلی پیروں کی طرح جعلی ادیبوں کا سورج بھی جلد غروب ہوجاتا ہے۔گمنامی کا پردہ جب ہٹتا ہے تو ادیب کو شناخت کرلیا جاتا ہے، اس کی مثال ڈھونڈنے کے لیے انھیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیںرفیق حسین کی مثال سامنے کی ہے، جن کا کام اب اردو کے دائرے سے نکل کر انگریزی قارئین تک پہنچ گیا ہے۔ اپنے ہاں کے ادبی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تولگتا ہے کہ اس ملک میں دو چار خواتین ہی شاعری کرتی ہیں اور دو چار ہی کا فکشن سے ناتا ہے۔