بجلی کا بحران
رینٹل پاور پلانٹ بھی ایک فوری عارضی شفاء فراہم کرنے والا نسخہ تھا مگر ہمارے میڈیا کی مستعدی ...
پچھلے برس جون میں جب نواز شریف صاحب پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انھوں نے سب سے زیادہ وقت ان اجلاسوں کی صدارت میں صرف کیا جن کا مقصد لوڈشیڈنگ کے عذاب پر قابو پانا تھا۔ بہت سارے طویل اجلاسوں کے اختتام پر نتیجہ یہ نکالا گیا کہ نجی اداروں کی فراہم کردہ بجلی کے جمع شدہ قرضے یکمشت ادا کردیے جائیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اسحاق ڈار صاحب نے اپنی ذہانت سے اِدھر اُدھر کی مد سے پیسے نکال کر 480 ارب روپے کی خطیر رقم اکٹھا کرلی۔ گردشی قرضہ یکمشت ادا کردیا گیا اور پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کا عذاب کافی حد تک قابل برداشت نظر آنے لگا۔
وزیر اعظم جن دنوں بجلی کے بحران کے حل کی تلاش میں دل وجان سے مصروف تھے تو ہمارے کئی ماہرینِ معاشیات نے بہت سارے سوالات اٹھائے۔ اسلام آباد اور لاہور کے ان خوش حال گھرانوں میں جہاں کاروباری افراد بڑے سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام رات گئے تک خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں سو طرح کی کہانیاں بھی گردش کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو ان کہانیوں کی بنیاد پر ہمارے اخبارات کے پہلے صفحوں پر کئی دنوں تک سنسنی خیز خبریں پڑھنے کو ملتیں۔ ان خبروں کا تواتر ''عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد ہوئی عدلیہ'' کو بھی پریشان کردیتا۔ پھر سوموٹو ہوتا اور اس حوالے سے عدالتی پیشیاں جو ٹی وی خبروں اور ٹاک شوز کو بھی چٹخارے دار بنائے رکھتیں۔
ہمہ وقت چوکس اور مستعد رہنے کا دعوے دار بنا ہمارا میڈیا مگر پیپلز پارٹی کے سوا دیگر جماعتوں کے بارے میں اکثر ''ذمے دار'' بن جاتا ہے۔ بجلی کے بحران کے ضمن میں ہمارے میڈیا کا ذمے دارانہ کردار نواز حکومت کے آنے کے بعد کچھ اس لیے بھی جائز نظر آیا کہ گردشی قرضوں کی یکمشت ادائیگی کے بعد کم از کم پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں لوڈشیڈنگ والے گھنٹے متاثر کن حد تک کم ہوگئے۔
متاثر کن دِکھنے والی اس کمی کو سراہتے ہوئے ہم یہ بھی بھول گئے کہ سردیوں کے موسم میں پنکھے اور ایئرکنڈیشنرز نہیں چلائے جاتے۔ بجلی کی طلب اور رسد میں فرق مناسب سطح تک محدود رہتا ہے۔ موسم گرما نے آنے اور اپنے جوبن پر پہنچنے میں بھی اب کے برس کافی دیر لگائی۔ پھر آیا مئی کا مہینہ اور بہنے لگا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ۔ بجلی ہر گھنٹے بعد غائب ہونا شروع ہوگئی۔ لوگ بلبلا اٹھے اور وزیر اعظم کو ایک بار پھر بجلی کے بحران کا حل ڈھونڈنے کے لیے اجلاسوں کی صدارت کرنا پڑرہی ہے۔ گردشی قرضے بھی دوبارہ جمع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
اس سارے ماحول میں مولاجٹ بن کر چوہدری عابد شیر علی میدان میں اترے ہیں۔ ''بجلی چوروں'' کو تاریں کاٹنے والا گنڈاسہ دکھاکر سلطان راہی کی طرح گرج رہے ہیں۔ ان کی بدولت لوڈشیڈنگ تو کم نہیں ہوئی میرے اور آپ جیسے صارف کو البتہ یہ ضرور سمجھ آرہی ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر سمیت اس ملک کے کئی طاقت ور ادارے بجلی کے بل ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ گویا اپنا حق سمجھتے ہوئے بجلی کو اس کے بل ادا کیے بغیر بے دریغ خرچ کیے جاتے ہیں۔ عابد شیر علی کے اندر سے بڑھکوں کے ساتھ نمودار ہونے والے سلطان راہی کو میں گوارا کرنے پر مجبور ہوں کہ اس کی بدولت بالآخر خلقِ خدا کو پتہ چل رہا ہے کہ Line Lossesکہلانے والی ناقابل فہم سمجھی جانے والی بیماری اصل میں کیا بلاہے۔ ہمارے علم میں یہ اضافہ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات پھر بھی نہیں دلاتا۔
نواز شریف اوران کے ''بحرانوں سے نمٹنے والے شیروں'' کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ بحرانوں کے دوران کمال کی آنیوں جانیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ان کی پھرتیوں کی بدولت کھینچ کھانچ اور مانگنے تانگنے کے بعد مسائل کا کوئی وقتی حل کہیں نہ کہیں سے نمودار ہوجاتا ہے۔ ہم ماضی اور خاص کر پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی ''بے حسی'' سے ان آنیوں جانیوں کا تقابل کرتے ہوئے ''مردانِ بحران'' کو گڈگورننس کی علامت ٹھہرانا شروع ہوجاتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں اب کئی بار دہرائیOpticsاور Gimmicksکا زمانہ لدچکا۔ وقت آگیا ہے کہ سچ اور صرف سچ خواہ وہ کتنا ہی کڑوا اور ناقابلِ ہضم نظر آتا ہو بولنے کی عادت اپنائی جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ بجلی کے صارف کو بالآخر وہ قیمت ہر سو ادا کرنا ہوگی جو اس کی پیداوار پر صرف ہوتی ہے۔ حکومتیں 16روپے کی بجلی خرید کر صارف کو 8روپے میں بیچتی رہیں گی تو گردشی قرضہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ سستی ترین پن بجلی ہوا کرتی ہے۔ اس کا حل شاید کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت مل سکتا تھا۔ مگر 1986ء سے اس ڈیم کی شدید مخالفت شروع ہوئی۔
غازی ضیاء الحق نے اس دوران افغانستان کو سوویت یونین سے آزاد تو کروالیا مگر اپنے ملک میں یہ ڈیم کو تعمیر نہ کرپائے۔ جنرل مشرف صاحب بھی اپنے پورے جاہ وجلال کے دنوں میں اس حوالے سے ایک قدم نہ آگے بڑھ پائے۔ اب کالا باغ کو بھول کر دوسرے ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دیں۔ ارادہ باندھ لیں تو تعمیر کے لیے رقم اکٹھا کرنے میں عالمی ''سودخوروں'' سے رجوع کرنا پڑے گا۔ سود کے خلاف اپنے پارسائی فروشوں کے غم وغصے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہم عالمی اداروں سے رقوم اکٹھا کر بھی لیں تو ڈیموں کی تعمیر کے لیے کئی برس درکار ہوتے ہیں۔ فی الوقت بجلی IPPsسے ہی لینا ہوگی۔
رینٹل پاور پلانٹ بھی ایک فوری عارضی شفاء فراہم کرنے والا نسخہ تھا مگر ہمارے میڈیا کی مستعدی اور افتخار چوہدری کی ''آزاد'' عدلیہ نے اسے بدعنوانی کی علامت بنا دیا ہے۔ گردشی قرضوں کی یکمشت ادائیگی اپنے تئیں کوئی برا کام نہیں۔ مگر IPPsکے مالکوں سے کوئی اتنا تو پوچھے کہ وہ بجلی کے ایک یونٹ کو پیدا کرنے کے لیے کتنا تیل یا گیس استعمال کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہی جیسے دوسرے کئی ممالک میں بجلی کا ایک یونٹ پیدا کرنے کے لیے اس سے کہیں کم تیل اور گیس کیوں خرچ ہوتا ہے۔
یہ سوالات اٹھانے کے بعد حساب کتاب ہو۔ جسے اپنا قرضہ یکمشت لینا ہے وہ کم از کم یہ ضمانتیں تو فراہم کرے کہ اپنے منافع میں سے کم از کم کچھ مخصوص رقم وہ ایسے آلات کی درآمد کے لیے استعمال کرے گا جو بجلی کے ایک یونٹ کو پیدا کرنے کے لیے کم از کم تیل یا گیس خرچ کرے۔ لوڈشیڈنگ کے بحران کے حل کے لیے ہمیں وزیر اعظم کو اجلاس کے بعد اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی میڈیا کی سیاپا فروشی اس ضمن میں زیادہ کارآمد ہوسکتی ہے۔ ان سب سے اب جی اُکتا گیا ہے۔ ضرورت ہے تو ایسے قابل اور ہنر مند منتظمین کی جنھیں بجلی پیدا کرنے کے دھندے کی تمام باریکیوں کی پوری طرح سمجھ ہو اور وہ حکومت کے دیے مکمل اختیار کے ساتھ IPPsکے تمام معاملات کو پیشہ وارانہ بے رحمی اور بے گانگی کے ساتھ Regulateکریں۔