11 مئی ایک اور تاریخی تاریخ
عمران خان اسلام آباد میں مظاہرین اکٹھے کرکے کیا ایسا کر پائیں گے کہ جو وہ اس سے پہلے چاہنے کے باوجود نہ کر پائے؟
سیاسی میدان جنگی میدان کی طرح ہوتا ہے جہاں پر ہر ایک معرکہ محض اپنی خصوصی اہمیت کی بنیاد پر ہی نہیں لڑا جاتا بلکہ دوسرے معرکوں پر اُس کے ممکنہ اثرات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ قول کہ آپ معرکے جیت کر بھی جنگ ہار سکتے ہیں دنیا بھر میں قیادت کے اُن زریں اصولوں کی مانند ہے جن پر عمل درآمد کیے بغیر کوئی کمانڈر حتمی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ عمران خان کی طرف سے 11مئی کو احتجاج کا اعلان قیادت کے اس اصول کے بالکل برعکس نظر آتا ہے جو کھری اور سیاسی راہ نمائی کے لیے یکساں مفید جانا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں احتجاج کے ذریعے وہ اُن تمام شکایتوں کا ازالہ چاہتے ہیں جن کی فہرست انھوں نے پچھلے سال ہونے والے انتخابات کے بعد وقفے وقفے سے تیار کی ہے۔
اگرچہ اُن کی طرف سے جاری کیے جانے والے شکوے بیسیوں ہیں مگر اُن سب کا مخرج ایک ہی ہے۔ پچھلے سال عمران خان یہ اپنا ذہن بنا چکے تھے کہ ان کی جماعت اس ملک میں وفاق سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کر یگی۔ ان کے اردگرد پائے جانے والے جانثاروں اور وقتی دوستوں کے ہجوم نے بھی اس خیال کو تقویت دی۔ یہ خیال شاید کچھ اتنا خام بھی نہیں تھا۔ اُس وقت کے رجحانات کو دیکھیں تو محسوس یہی ہو رہا تھا کہ شائد عمران خان کے لیے وہ گھڑی آن پہنچی ہے جس کا ان کو شدت سے انتظار اور پھر انتخابات کے بالکل قریب اتنی شدت سے یقین تھا۔ مگر نتائج کسی بھی وجہ سے مختلف نکلے۔وہ عظیم گھڑی کچا گھڑا ثابت ہوئی۔ اسلام آباد اور لاہور ہاتھ نہ آیا پشاور پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
اگرچہ کسی ایسی جماعت کے لیے جس نے پہلا انتخاب لڑا ہو تحریک انصاف کی کارکردگی قابل ستائش بلکہ ایک طرح سے تاریخ ساز تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد وہ پہلی جماعت تھی جس نے پہلے ہلے میں ریکارڈ توڑ ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ کا سب سے مضبوط قلعہ پنجاب ایک طویل عرصے کے بعد بری طرح ڈولتا ہوا نظر آیا۔ بلوچستان اور اندرون سندھ جن کو تحریک انصاف نے نظر انداز کر دیا تھا، اس کے علاوہ ملک کے ہر گوشے میں اس جماعت کی آواز ایک متبادل سیاسی قوت میں تبدیل ہو گئی۔ مگر ان فائدوں کو گننے کے بجائے عمران خان نے صرف اس امر پر توجہ مرکوز کیے رکھی کہ مرکز ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔11مئی کا احتجاج اس احساس زیاں کی ایک کڑی ہے جس پر عمران خان قابو پانے میں ناکام صرف اس وجہ سے رہے ہیں کہ وہ اس پر قابو پانا چاہتے ہی نہیں ہیں۔ان کی نظر میں پاکستان اس وقت تک نامکمل سیاسی اکائی کے طور جانا جاتا رہے گا جب تک وہ وزیراعظم ہائوس تک نہیں جا پہنچتے۔
کیا جماعت اسلامی، طاہر القادری، تحریک انصاف کا قافلہ عمران خان کی مراد پوری کروا پائے گا اس کے بارے میں پیشن گوئی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم تحریک انصاف کے ارادے کے بارے میں کوئی بااعتماد رائے قائم کر سکتے ہوں۔ دعوؤں کی حد تک عمران خان اٹل بارش کی طرح برسنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر 11مئی کو انصاف نہ ملا تو وہ ملک بند کر دیں گے۔ مگر ان کی طرف سے مصمم ارادوں کے اس طرح کے اظہار پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔کبھی کراچی میں اپنے کارکنان کے قتل کے معاملے پر اور کبھی بجلی کی مصیبت کے پیش نظر،کبھی ڈرون حملوں اور کبھی بس ویسے ہی ہیں۔
عمران خان کی احتجاجی سیاست ہر دوسرے ہفتے ایک نیا ماڈل پیش کرتی ہے۔ مگر ماضی میں اٹھایا ہوئے ان تمام طوفانوں میں سے کوئی بھی اپنی تندی وتیزی زیادہ برقرار نہ رکھ سکا اور چٹانوں کو شکست دینے سے پہلے ہی کمزور ہوکر ریڈار پر سے غائب ہوگیا۔ پچھلے سالوں میں ہونے والے سیاسی احتجاجوں میں کامیاب ترین احتجاج تحریک انصاف کی طرف سے نہیں بلکہ مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے کیا۔اس دور میں تحریک انصاف کی قیادت مخمصے کا شکار رہی اور جناب مولانا اکیلے خاموشی سے جہاز میں بیٹھ کرواپس تشریف لے گئے ۔ نیٹو رسد کو روکنے کے لیے کیے جانے والا دھرنا شاید تحریک انصاف کی واحد مگر جزوی کامیابی گردانی جا سکتی ہے۔
اس مر تبہ عمران خان اسلام آباد میں مظاہرین اکٹھے کرکے کیا ایسا کر پائیں گے کہ جو وہ اس سے پہلے چاہنے کے باوجود نہ کر پائے؟کیا وہ طا ہر القادری کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑیں گے ؟ یوکرائن کی حزب اختلاف کی طرح عمارتوں پر قبضہ کرکے اپنی پسند کا انصاف حاصل کریں گے؟دھرنا ایک ہفتے تک جاری رکھیں گے؟یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اسلام آباد میں سے حاصل شدہ سیاسی فائدہ(جس کی مقدار جو بھی ہو) خیبرپختونخوا میں استعمال کریں۔ وہاں پر اسمبلی تحلیل کروانے کے بعد ہر جگہ یہ مطالبہ منوانے کے لیے کمر باندھ لیں۔ مگر فی الحال ان کی اپنی جماعت میں سے اٹک کے اس پار کوئی اس تجربے کی افادیت پر نہ قائل ہے اور نہ مائل بلکہ وہ اس کو دیوانگی سے تشبہیہ دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں دھاندلی الزامات اور غیر یقینی سیاسی صورت حال نے صوبائی حکومت کو ابھی سے کافی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ تمام وزراء اور ممبران جو 2013ء کے انتخابات کے ریلے سے مستفید ہوئے ہیں اب طاقت کے ایوان سے 5سال سے پہلے نکلنے کا ذکر بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ اور کیوں کریں گے۔ انتخابات لڑنا کروڑوں کا کھیل ہے۔اب ہر کوئی اتنا خوش قسمت تو نہیں ہوتا کہ اپنی فیس بھی خود ادا کرنی پڑے۔ویسے بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مجھے بتایا کہ ان کی جماعت اپنی حکومت کی مدت پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔اور احتجاج کے ذریعے سیاسی بازار گرم کر نے کو قبل ازوقت کوشش گردانتی ہے۔
تو پھر اسلام آباد میں گھوڑے دوڑانے کے بعد دھول اُڑنے کے سوا کوئی اور نتیجہ نکلتا ہوا نظر آرہا تو عمران خان نے اس وجہ سے ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کو تیاری کا حکم صادر کر دیا ہے؟ میری معلومات کے مطابق تیسری قوت کی طرف سے 'اشارہ'ایک فرضی داستان ہے جو دوستوں نے ماحول گرم رکھنے کے لیے گھڑی ہوئی ہے۔ یوم شہداء پرآرمی سربراہ جنرل راحیل شریف کی تقریر جو کافی پرکھ اور جانچ کے تیار ہوئی تھی، اس افواہوں کے خاتمے کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر کوئی خوفناک واقعہ یا حادثہ ہوجائے جس سے اسلام آباد کے گردونواح میں تباہ کن افراتفری پھیل رہی ہو تو صورت حال کو قابو کرنے کے انتظامات تو یقینا موجود ہیں۔مگر ایسی پیش بندی تو ہمیشہ سے تیار ہوتی ہے۔اس کا تعلق 11مئی سے نہیں ہے۔ عمران خان اتوار کو اسلام آباد احتجاج سے کیا حاصل کریں گے اس کا جواب خان صا حب کے قریبی حلقوں میں کسی کے پاس نہیں ہے۔
اگرچہ اُن کی طرف سے جاری کیے جانے والے شکوے بیسیوں ہیں مگر اُن سب کا مخرج ایک ہی ہے۔ پچھلے سال عمران خان یہ اپنا ذہن بنا چکے تھے کہ ان کی جماعت اس ملک میں وفاق سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کر یگی۔ ان کے اردگرد پائے جانے والے جانثاروں اور وقتی دوستوں کے ہجوم نے بھی اس خیال کو تقویت دی۔ یہ خیال شاید کچھ اتنا خام بھی نہیں تھا۔ اُس وقت کے رجحانات کو دیکھیں تو محسوس یہی ہو رہا تھا کہ شائد عمران خان کے لیے وہ گھڑی آن پہنچی ہے جس کا ان کو شدت سے انتظار اور پھر انتخابات کے بالکل قریب اتنی شدت سے یقین تھا۔ مگر نتائج کسی بھی وجہ سے مختلف نکلے۔وہ عظیم گھڑی کچا گھڑا ثابت ہوئی۔ اسلام آباد اور لاہور ہاتھ نہ آیا پشاور پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
اگرچہ کسی ایسی جماعت کے لیے جس نے پہلا انتخاب لڑا ہو تحریک انصاف کی کارکردگی قابل ستائش بلکہ ایک طرح سے تاریخ ساز تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد وہ پہلی جماعت تھی جس نے پہلے ہلے میں ریکارڈ توڑ ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ کا سب سے مضبوط قلعہ پنجاب ایک طویل عرصے کے بعد بری طرح ڈولتا ہوا نظر آیا۔ بلوچستان اور اندرون سندھ جن کو تحریک انصاف نے نظر انداز کر دیا تھا، اس کے علاوہ ملک کے ہر گوشے میں اس جماعت کی آواز ایک متبادل سیاسی قوت میں تبدیل ہو گئی۔ مگر ان فائدوں کو گننے کے بجائے عمران خان نے صرف اس امر پر توجہ مرکوز کیے رکھی کہ مرکز ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔11مئی کا احتجاج اس احساس زیاں کی ایک کڑی ہے جس پر عمران خان قابو پانے میں ناکام صرف اس وجہ سے رہے ہیں کہ وہ اس پر قابو پانا چاہتے ہی نہیں ہیں۔ان کی نظر میں پاکستان اس وقت تک نامکمل سیاسی اکائی کے طور جانا جاتا رہے گا جب تک وہ وزیراعظم ہائوس تک نہیں جا پہنچتے۔
کیا جماعت اسلامی، طاہر القادری، تحریک انصاف کا قافلہ عمران خان کی مراد پوری کروا پائے گا اس کے بارے میں پیشن گوئی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم تحریک انصاف کے ارادے کے بارے میں کوئی بااعتماد رائے قائم کر سکتے ہوں۔ دعوؤں کی حد تک عمران خان اٹل بارش کی طرح برسنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر 11مئی کو انصاف نہ ملا تو وہ ملک بند کر دیں گے۔ مگر ان کی طرف سے مصمم ارادوں کے اس طرح کے اظہار پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔کبھی کراچی میں اپنے کارکنان کے قتل کے معاملے پر اور کبھی بجلی کی مصیبت کے پیش نظر،کبھی ڈرون حملوں اور کبھی بس ویسے ہی ہیں۔
عمران خان کی احتجاجی سیاست ہر دوسرے ہفتے ایک نیا ماڈل پیش کرتی ہے۔ مگر ماضی میں اٹھایا ہوئے ان تمام طوفانوں میں سے کوئی بھی اپنی تندی وتیزی زیادہ برقرار نہ رکھ سکا اور چٹانوں کو شکست دینے سے پہلے ہی کمزور ہوکر ریڈار پر سے غائب ہوگیا۔ پچھلے سالوں میں ہونے والے سیاسی احتجاجوں میں کامیاب ترین احتجاج تحریک انصاف کی طرف سے نہیں بلکہ مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے کیا۔اس دور میں تحریک انصاف کی قیادت مخمصے کا شکار رہی اور جناب مولانا اکیلے خاموشی سے جہاز میں بیٹھ کرواپس تشریف لے گئے ۔ نیٹو رسد کو روکنے کے لیے کیے جانے والا دھرنا شاید تحریک انصاف کی واحد مگر جزوی کامیابی گردانی جا سکتی ہے۔
اس مر تبہ عمران خان اسلام آباد میں مظاہرین اکٹھے کرکے کیا ایسا کر پائیں گے کہ جو وہ اس سے پہلے چاہنے کے باوجود نہ کر پائے؟کیا وہ طا ہر القادری کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑیں گے ؟ یوکرائن کی حزب اختلاف کی طرح عمارتوں پر قبضہ کرکے اپنی پسند کا انصاف حاصل کریں گے؟دھرنا ایک ہفتے تک جاری رکھیں گے؟یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اسلام آباد میں سے حاصل شدہ سیاسی فائدہ(جس کی مقدار جو بھی ہو) خیبرپختونخوا میں استعمال کریں۔ وہاں پر اسمبلی تحلیل کروانے کے بعد ہر جگہ یہ مطالبہ منوانے کے لیے کمر باندھ لیں۔ مگر فی الحال ان کی اپنی جماعت میں سے اٹک کے اس پار کوئی اس تجربے کی افادیت پر نہ قائل ہے اور نہ مائل بلکہ وہ اس کو دیوانگی سے تشبہیہ دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں دھاندلی الزامات اور غیر یقینی سیاسی صورت حال نے صوبائی حکومت کو ابھی سے کافی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ تمام وزراء اور ممبران جو 2013ء کے انتخابات کے ریلے سے مستفید ہوئے ہیں اب طاقت کے ایوان سے 5سال سے پہلے نکلنے کا ذکر بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ اور کیوں کریں گے۔ انتخابات لڑنا کروڑوں کا کھیل ہے۔اب ہر کوئی اتنا خوش قسمت تو نہیں ہوتا کہ اپنی فیس بھی خود ادا کرنی پڑے۔ویسے بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مجھے بتایا کہ ان کی جماعت اپنی حکومت کی مدت پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔اور احتجاج کے ذریعے سیاسی بازار گرم کر نے کو قبل ازوقت کوشش گردانتی ہے۔
تو پھر اسلام آباد میں گھوڑے دوڑانے کے بعد دھول اُڑنے کے سوا کوئی اور نتیجہ نکلتا ہوا نظر آرہا تو عمران خان نے اس وجہ سے ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کو تیاری کا حکم صادر کر دیا ہے؟ میری معلومات کے مطابق تیسری قوت کی طرف سے 'اشارہ'ایک فرضی داستان ہے جو دوستوں نے ماحول گرم رکھنے کے لیے گھڑی ہوئی ہے۔ یوم شہداء پرآرمی سربراہ جنرل راحیل شریف کی تقریر جو کافی پرکھ اور جانچ کے تیار ہوئی تھی، اس افواہوں کے خاتمے کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر کوئی خوفناک واقعہ یا حادثہ ہوجائے جس سے اسلام آباد کے گردونواح میں تباہ کن افراتفری پھیل رہی ہو تو صورت حال کو قابو کرنے کے انتظامات تو یقینا موجود ہیں۔مگر ایسی پیش بندی تو ہمیشہ سے تیار ہوتی ہے۔اس کا تعلق 11مئی سے نہیں ہے۔ عمران خان اتوار کو اسلام آباد احتجاج سے کیا حاصل کریں گے اس کا جواب خان صا حب کے قریبی حلقوں میں کسی کے پاس نہیں ہے۔