خورشید بجھ گیا‘ کبھی مہتاب …
ہر لمحہ وہ وقت دھیان میں رہنا چاہیے کہ جب آج سے 43 سال پہلے 1971ء میں ہم نے 56 فیصد ملک گنوا دیا تھا ...
تاخیر سے کالم لکھنے کی دو وجوہات تھیں، ایک تو حبیب جالبؔ صاحب کا 21 واں یادگاری جلسہ جو ہر سال کی طرح مزدوروں کی شام یعنی 30 اپریل شام 7 بجے آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوا اور روایت کے عین مطابق میں نے مقررہ وقت پر جلسہ شروع کر دیا۔ یہ جلسہ گئے کئی سال سے اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوتا ہے۔ سال 2014ء کا حبیب جالبؔ امن ایوارڈ معروف صحافی جناب عبدالحمید چھاپرا صاحب کو دیا گیا۔ صحافت کے میدان میں نمایاں کارکردگی، تحریکیں اور جیلیں، مگر چھاپرا صاحب کہیں بھی ڈگمگائے نہیں۔ جلسے کی صدارت ظفراللہ پوشنی صاحب نے کی اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کے ساتھ مل کر ایوارڈ عبدالحمید چھاپرا صاحب کو پیش کیا۔ دوسری وجہ طبیعت کی خرابی، مسلسل اور شدید کھانسی۔ جس نے انجر پنجر ہلا کے رکھ دیا۔
خیر چھوڑیے اور اصل بات کی طرف چلتے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں! ملک کدھر جا رہا ہے اور سدھار کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، بلوچستان کے صوبے کو لگتا ہے جان بوجھ کر مسائلستان بنا دیا گیا ہے۔ گمبھیرتا کا آغاز 84 سالہ نواب اکبر خان بگٹی کے قتل سے ہوا۔ اور نوجوان بلوچ اسلحہ اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ پھر لوگ غائب ہونے لگے، اسی دوران ہزارہ برادری کے تین بڑے واقعات ہوئے جن میں سیکڑوں لوگ مارے گئے۔ بلوچستان بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی زد میں رہا۔ پھر مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔ ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا۔ راستے میں چھوٹے بڑے شہر آتے رہے۔ مگر کسی نے لانگ مارچ والوں سے آنکھ تک نہیں ملائی، اسلام آباد میں کچھ لفٹ ملی، بلوچستان کا پڑوسی شہر کراچی بھی عرصہ ہوا تباہی و بربادی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
شہر کے ایک علاقے لیاری میں گینگ وار کے نتیجے میں علاقہ تباہ ہو چکا ہے اور لوگ برباد ہو چکے۔ شہر کراچی کے دیگر علاقوں میں جدید اسلحہ بردار مذہبی و لسانی تنظیمیں بھی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کھلم کھلا مصروف ہیں ۔ اور نہتے عوام کو ان دہشت گردوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کراچی میں ناکام نظر آتی ہے بے شمار تباہی و بربادی کے بعد پچھلے چند ماہ سے آپریشن شروع کیا گیا ہے جس کے خاصے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔ مگر اب بھی ''نامعلوم'' دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ 19 اپریل کی دوپہر ساڑھے تین بجے کراچی ایئرپورٹ سے سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر روانہ ہوئے اور شارع فیصل پر آنے کے لیے ان کی کار نے موڑ کاٹا۔ وہیں ایک ''نامعلوم'' حملہ آور کار پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
واقعے کی تفصیل میں، میں قصداً نہیں جاؤں گا کہ یہ معاملہ اب حکومت کے قائم کردہ عدالتی کمیشن کے رو برو ہے۔ اب گفتگو کا یہ سلسلہ روک دیا جائے اور عدالتی کمیشن کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ عدالت درست فیصلہ کرے گی۔
ملک میں داخلی انتشار عروج پر ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے معاملات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔ ہماری فوج بھی اس مسئلے میں حکومت کے ساتھ شامل ہے۔ آئے دن کور کمانڈرز کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ بیرونی دشمن بھی چھری چاقو تیز کیے تیار بیٹھے ہیں کہ موقع ملتے ہی کود پڑیں۔ ان حالات میں (اندرونی اور بیرونی) افواج پاکستان بہت تدبر سے کام لے رہی ہیں۔ ہماری ذرا سی غلطی بھس میں آگ لگا سکتی ہے۔ عمران خان کا تازہ ترین بیان کہ تحریک انصاف کے ساتھ ایک چینل نے دھاندلی میں حصہ دار بن کر انھیں ہرایا ہے۔
نہایت معذرت کے ساتھ عمران خان کا یہ بیان بے وقت کی راگنی ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے تھا کہ ملک بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ پہلے سے موجود ''دہکتے مسائل'' ذرا ٹھنڈے ہو جائیں تو آگے بڑھا جائے۔ اسی میں بہتری ہے۔ خیر عمران خان سیاست میں نو آموز ہیں۔ اب سیاست کے سینئر کھلاڑیوں کا فرض بنتا ہے کہ ایک جونیئر کے ''غلط پاس'' کو ''صحیح'' میں بدلتے ہوئے کھیل کو اپنے حق میں کر لیں۔ یہ ہاکی کے کھیل میں ہوتا ہے کہ کسی جونیئر کھلاڑی کے غلط پاس کو سینئر کھلاڑی کور کر لیتے ہیں۔ یا کوئی مسلسل بائونسر مارنے پر تلا ہو تو اسے منع کرے۔
ہر لمحہ وہ وقت دھیان میں رہنا چاہیے کہ جب آج سے 43 سال پہلے 1971ء میں ہم نے 56 فیصد ملک گنوا دیا تھا۔ ہمارے اس وقت کے حکمران، سیاست دان اور افواج سے کیا غلطیاں ہوئیں، اب انھیں دہرانے کی گنجائش نہیں ہے۔ تدبر ہی سے کام لینا ہو گا۔ خان عبدالولی خان نے جنرل یحییٰ خان سے کہا تھا ''سیاسی مسئلہ ہے گفتگو سے حل کیا جائے'' مگر جنرل صاحب نے مشورے پر دھیان ہی نہیں دیا۔ میں یہاں بھی تفصیل سے پرہیز کروں گا کہ تفصیل بہت تلخ ہے اور ہمیں اس وقت تلخی نہیں ''مٹھاس'' کی ضرورت ہے۔ سندھ کے شربت کی ضرورت ہے جو شدت اور تلخی دونوں کو مٹا دے۔ مسائلستان کا پہاڑ سا کھڑا ہے، کہتے ہیں بلند ہمت دشواریوں پر غالب آتے ہیں اور بے ہمت ہر روز نئی دشواریاں پیدا کرتے ہیں۔ عمران ان میں شامل نہ ہوں۔ ان سے وفا کی امید ہے!
خصوصاً صوبہ بلوچستان اور اس کا سرحدی شہر کراچی بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔ ذرا سی چنگاری ہی کافی ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں اب رہا ہی کیا ہے۔ وہاں لوگ پہاڑوں پر ہیں یا باہر چلے گئے ہیں یہاں کراچی کا بہت سا سرمایہ باہر جا چکا ہے۔ اس شہر کے قابل ڈاکٹرز، انجینئرز، استاد، ماہرین باہر چلے گئے ہیں۔ اب تو یہ بانکا شہر ہونک رہا ہے۔
بہت ہو چکا، بہت ہوچکا، اب ''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے'' (فیضؔ کا مصرعہ)
سب جانتے ہیں اس شہر کے گلی کوچے، محلے، سڑکیں اب چپے چپے شہدا کی یادگاریں ہیں، کچھ انھوں نے مارے ہیں، کچھ انھوں نے مارے ہیں، ابھی تین دن پہلے حبیب جالبؔ کے یادگاری جلسے میں شاعر صابر ظفر نے جالبؔ کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا ۔
عوام چوکنے رہیں، یہ ملک (جو رہ گیا ہے) دراصل ہمارا ہے، ہمارا جینا مرنا یہیں ہے اسی زمین کا رزق ہمیں بنتا ہے۔ لہٰذا اس ملک کو بچانے میں سب سے پہلی ذمے داری ہماری اور آخری بھی ہماری ہے۔ اب مسلسل جاگتے رہنے کا وقت ہے۔ 1971ء میں بنگالیوں نے ہم سے آزادی حاصل کی اور سڑکوں پر نکلتے رہے۔ اب ہم نے بھی موجودہ پاکستان کو قائم اور ظالموں جابروں سے آزاد کرانے کے لیے آخری جنگ لڑنا ہے۔1971ء میں صرف چند لوگ تھے جو ادھر مغربی پاکستان میں بنگالیوں پر فوج کشی کے خلاف تھے۔ یہی حبیب جالبؔ، فیض احمد فیضؔ، شیخ ایاز، ملک غلام جیلانی، نسیم شمیم اشرف ملک و دیگر اور لوگ ان کو غدار کہتے تھے۔ مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ چند درست تھے۔ جنھیں غلط سمجھا گیا۔ جالبؔ نے 1971ء کے حوالے سے لکھا تھا:
بہتے لہو میں سب ترا مفہوم بہہ گیا
14 اگست صرف ترا نام رہ گیا
جلنا ہے غم کی آگ میں ہم کو تمام عمر
بجھتا ہوا چراغ' سر شام کہہ گیا
ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کے سہہ گیا
گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روز و شب
خورشید بجھ گیا' کبھی مہتاب گہہ گیا
مجھ سے خفیف ہیں' مرے ہمعصر اس لیے
میں داستان عہد ستم کھل کے کہہ گیا