سبسڈی نہیں بہبود
دوسرے نے چونی لے کر رومال کے نیچے رکھ لی اوراسے چونی کی جلیبیاں دیدیں
لگتا ہے ہم پر خوش خبریوں کی برسات شروع ہوگئی ، الو سوار بین الاقوامی لکشمی دیوی کیا مہربان ہوگئی کہ ہر طرف سے اوپر والے ہاتھ ، ہمارے نیچے والے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ رکھے جارہے ہیں، سو چھیدوں والی جھولی میں کچھ نہ کچھ پھینک رہے ہیں اور ٹوٹے پھوٹے کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈال رہے ہیں۔
وہ جو ایک بہت بڑا خطرہ ہمارا دل دھڑ کائے جا رہا تھا وہ بھی ٹل گیا، خطرہ یہ تھا کہ کہیںآئی ایم ایف اپنے شرائطی پیکیج میں بینظیر انکم سپورٹ اوردوسرے دستر خوانوں پر قدغن لگانے کی شرط نہ شامل کردے، اس نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی جس میں فضول اخراجات کم کرنے کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہو بلکہ لگتا ہے۔
اس نے کہیں خفیہ طور پر اوربغیرلکھے کوئی شرط بھی منوائی ہے کہ اس قسم کی اسکیم اور بھی چلاؤ کیوں کہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ بے نظیرانکم سپورٹ سمیت ''بہبود'' فنڈزاور بڑھائے جائیں گے البتہ توانائی پر سبسڈی کم کی جائے گی تاکہ عوام کی ریڑھ کی ہڈی کا اچھی طرح ستیا ناس کیا جائے۔
توانائی پر عام سبسڈی دینے سے تو ان الوؤں کو بھی فائدہ ہوجائے گا جو صرف الو ہیں جب کہ فائدہ ان الوؤں کو پہنچانا ہے جو ساتھ الو کے پٹھے بھی ہیں یعنی ان اصل الوؤں کو زندہ باد اور مردہ باد کرتے ہیں جو خاص لکشمی بائی کی سواری ہیں۔
وہ بجلی وغیرہ کے بل تو عام کالانعام الوؤں کی طرح دے دیںگے ، ہاتھ گھما کر کسی انکم سپورٹ یا بہبود فنڈ سے گڑ نکال کر حلوہ اور میٹھا کردیںگے۔ یہی فرق ہے سبسڈی اور بہبود فنڈ میں کہ بہبود فنڈ کے دسترخوان پر عام نہیں بلکہ خاص الو بٹھائے جاتے ہیں جو ووٹ بٹورنے کے لے ''بلارے'' کے بٹیر ہوتے ہیں۔
کہیں ہمارا بھی وہی حال نہ ہو جائے جو دو دیہاتیوں کا شہرمیں ہوا تھا، وہ گاؤں سے روزگارکی تلاش میں شہرآئے تھے ، کہیں نوکری مزدوری نہیں ملی تو دونوں نے فیصلہ کیا کہ ''کاروبار'' کیاجائے کہ یہ شہرکے لوگ کاروبار کرکے ہی اتنے امیر کبیر ہوتے ہیں۔
دونوں نے اپنے اپنے اندوختوں کاجائزہ لیا تو ایک کے پاس پانچ روپے نکلے اوردوسرے کے پاس ایک چونی، دونوں نے ایک حلوائیے سے جلیبیاں خریدیں، ایک تھال میں رکھ کر اوپر رومال بچھا دیا اورشہر کے ایک بازار میں بیٹھ کر آوازیں لگانے لگے جلیبیاں، میٹھی میٹھی جلیبیاں ، کافی دیر کے بعد بھی کوئی خریدار نہیں آیا، تو جس کے پاس چونی تھی اس نے دوسرے سے کہا کہ گاہک تو آتا نہیں ، تم مجھے اس چونی کی جلیبیاں دے دو، میں کھاؤں گا تو شاید خریدار بھی لگنا شروع ہوجائیں۔
دوسرے نے چونی لے کر رومال کے نیچے رکھ لی اوراسے چونی کی جلیبیاں دیدیں ، دوسرا کھانے لگا تو اس کا بھی جی للچایا بولا، یارایک چونی کی مجھے بھی دے دو ، دوسرے ساجھے دارنے جلیبیاں لے کر کھاناشروع کیں، کافی دیر بعد دوسرے کادل پھر چاہا اورپھر چونی کی خریدیں، اسی طرح دونوں لین دین کرنے لگے ، بہت دیر بعد ایک خریدار آیا لیکن جب رومال کے نیچے ٹٹولا تو کچھ بھی نہ تھا، نفع نقصان کاپتہ رومال اٹھنے کے بعد لگے گا۔لیکن ایک اور کہانی اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
ایک سائنس دان اپنی لیبارٹری میں روح کو جسم سے الگ کرنے کاتجربہ کر رہاتھا، کئی دن میں لیبارٹری سے نہیں نکلا تو لوگوں نے پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن لیبارٹری میں کوئی نہ تھا البتہ ایک ٹائپ کیاہوا پیغام موجود تھا ،لکھاتھا۔ میراتجربہ کامیاب ہوگیا، میں نے روح کوجسم سے الگ کرلیا، خوشی سے کمرے میں چکر لگارہاتھا، ہوا میں اڑ رہاتھا پھر مجھے بھوک کااحساس ہوا دیکھاتو کمرے میں گوشت کا ایک ڈھیر پڑا ہوا تھا۔
میں نے کھانا شروع کیا، بڑا لذیذ گوشت تھا اس لیے سارا چٹ کرلیا، پھر میں نے چاہا کہ پھر روح کو اپنے جسم میں ڈال دو لیکن کمرے میں میرا جسم نہ تھا پھر مجھے سنگین حالت کااحساس ہوا وہ جو گوشت کاڈھیر تھا، وہ میں خود تھا ،اپنے جسم کو میں نے خود کھا لیا تھا ۔ اگر کہانی آپ کی سمجھ میں نہیں آئی ہے تو ہماری سمجھ میں بھی یہ معاملہ نہیں آرہاہے جو چل رہاہے ۔
وہ جو ایک بہت بڑا خطرہ ہمارا دل دھڑ کائے جا رہا تھا وہ بھی ٹل گیا، خطرہ یہ تھا کہ کہیںآئی ایم ایف اپنے شرائطی پیکیج میں بینظیر انکم سپورٹ اوردوسرے دستر خوانوں پر قدغن لگانے کی شرط نہ شامل کردے، اس نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی جس میں فضول اخراجات کم کرنے کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہو بلکہ لگتا ہے۔
اس نے کہیں خفیہ طور پر اوربغیرلکھے کوئی شرط بھی منوائی ہے کہ اس قسم کی اسکیم اور بھی چلاؤ کیوں کہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ بے نظیرانکم سپورٹ سمیت ''بہبود'' فنڈزاور بڑھائے جائیں گے البتہ توانائی پر سبسڈی کم کی جائے گی تاکہ عوام کی ریڑھ کی ہڈی کا اچھی طرح ستیا ناس کیا جائے۔
توانائی پر عام سبسڈی دینے سے تو ان الوؤں کو بھی فائدہ ہوجائے گا جو صرف الو ہیں جب کہ فائدہ ان الوؤں کو پہنچانا ہے جو ساتھ الو کے پٹھے بھی ہیں یعنی ان اصل الوؤں کو زندہ باد اور مردہ باد کرتے ہیں جو خاص لکشمی بائی کی سواری ہیں۔
وہ بجلی وغیرہ کے بل تو عام کالانعام الوؤں کی طرح دے دیںگے ، ہاتھ گھما کر کسی انکم سپورٹ یا بہبود فنڈ سے گڑ نکال کر حلوہ اور میٹھا کردیںگے۔ یہی فرق ہے سبسڈی اور بہبود فنڈ میں کہ بہبود فنڈ کے دسترخوان پر عام نہیں بلکہ خاص الو بٹھائے جاتے ہیں جو ووٹ بٹورنے کے لے ''بلارے'' کے بٹیر ہوتے ہیں۔
کہیں ہمارا بھی وہی حال نہ ہو جائے جو دو دیہاتیوں کا شہرمیں ہوا تھا، وہ گاؤں سے روزگارکی تلاش میں شہرآئے تھے ، کہیں نوکری مزدوری نہیں ملی تو دونوں نے فیصلہ کیا کہ ''کاروبار'' کیاجائے کہ یہ شہرکے لوگ کاروبار کرکے ہی اتنے امیر کبیر ہوتے ہیں۔
دونوں نے اپنے اپنے اندوختوں کاجائزہ لیا تو ایک کے پاس پانچ روپے نکلے اوردوسرے کے پاس ایک چونی، دونوں نے ایک حلوائیے سے جلیبیاں خریدیں، ایک تھال میں رکھ کر اوپر رومال بچھا دیا اورشہر کے ایک بازار میں بیٹھ کر آوازیں لگانے لگے جلیبیاں، میٹھی میٹھی جلیبیاں ، کافی دیر کے بعد بھی کوئی خریدار نہیں آیا، تو جس کے پاس چونی تھی اس نے دوسرے سے کہا کہ گاہک تو آتا نہیں ، تم مجھے اس چونی کی جلیبیاں دے دو، میں کھاؤں گا تو شاید خریدار بھی لگنا شروع ہوجائیں۔
دوسرے نے چونی لے کر رومال کے نیچے رکھ لی اوراسے چونی کی جلیبیاں دیدیں ، دوسرا کھانے لگا تو اس کا بھی جی للچایا بولا، یارایک چونی کی مجھے بھی دے دو ، دوسرے ساجھے دارنے جلیبیاں لے کر کھاناشروع کیں، کافی دیر بعد دوسرے کادل پھر چاہا اورپھر چونی کی خریدیں، اسی طرح دونوں لین دین کرنے لگے ، بہت دیر بعد ایک خریدار آیا لیکن جب رومال کے نیچے ٹٹولا تو کچھ بھی نہ تھا، نفع نقصان کاپتہ رومال اٹھنے کے بعد لگے گا۔لیکن ایک اور کہانی اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
ایک سائنس دان اپنی لیبارٹری میں روح کو جسم سے الگ کرنے کاتجربہ کر رہاتھا، کئی دن میں لیبارٹری سے نہیں نکلا تو لوگوں نے پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن لیبارٹری میں کوئی نہ تھا البتہ ایک ٹائپ کیاہوا پیغام موجود تھا ،لکھاتھا۔ میراتجربہ کامیاب ہوگیا، میں نے روح کوجسم سے الگ کرلیا، خوشی سے کمرے میں چکر لگارہاتھا، ہوا میں اڑ رہاتھا پھر مجھے بھوک کااحساس ہوا دیکھاتو کمرے میں گوشت کا ایک ڈھیر پڑا ہوا تھا۔
میں نے کھانا شروع کیا، بڑا لذیذ گوشت تھا اس لیے سارا چٹ کرلیا، پھر میں نے چاہا کہ پھر روح کو اپنے جسم میں ڈال دو لیکن کمرے میں میرا جسم نہ تھا پھر مجھے سنگین حالت کااحساس ہوا وہ جو گوشت کاڈھیر تھا، وہ میں خود تھا ،اپنے جسم کو میں نے خود کھا لیا تھا ۔ اگر کہانی آپ کی سمجھ میں نہیں آئی ہے تو ہماری سمجھ میں بھی یہ معاملہ نہیں آرہاہے جو چل رہاہے ۔