آزادی صحافت کا تحفظ…

سیاسی منظر پر نظر ڈالیں تو ماضی میں لنگڑی لولی سیاسی حکومتوں اور فوجی آمرانہ حکومتوں کے ادوار میں میڈیا کو ...

صحافت کے لیے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک خطرناک ترین ملک قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا آج بھی آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے پُر عزم ہے، حالانکہ ملک میں پیشہ ورانہ ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے شہید ہو جانے والے صحافیوں کی تعداد اب ایک سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر پر نظر ڈالیں تو ماضی میں لنگڑی لولی سیاسی حکومتوں اور فوجی آمرانہ حکومتوں کے ادوار میں میڈیا کو سب سے زیادہ ریاستی جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن میں پریس کو دبانے کے لیے پریس اینڈ پبلیکیشنز کے سیاہ قوانین، سنسر کی پابندیاں، حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم میں ڈکلئریشن کی منسوخی، صحافیوں کی گرفتاریاں، قید و بندکی صعوبتیں، کوڑے لگانے اور دیگر سختیاں شامل تھی لیکن پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ولولہ انگیز قیادت اور اخباری کارکنوں و صحافیوں کے اتحاد، جوش اور آزادی صحافت کے پرچم کو ہر حال میں بلند رکھنے کے عزم کی بنا پر قومی میڈیا نے پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے جس پر پوری قوم ریاست کے ایک انتہائی اہم اور چوتھے ستون کی قربانیوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال میں جب کہ پوری قوم ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی و لاقانونیت، کرپشن، مہنگائی، غربت، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، تعلیم و صحت عامہ کی سہولتیں اور سماجی انصاف کی عدم دستیابی جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ میڈیا کی تنقید نہ صرف حکمرانوں اور کچھ ریاستی اداروں کی نا گواری کا باعث بنتی ہے بلکہ اب نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی جن میں کالعدم مذہبی انتہا پسند گروپس، سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز، کرپٹ عناصر، لینڈ، ڈرگ اور ناجائز اسلحہ فروخت کرنے کے مافیاز شامل ہیں ان کے خلاف خبروں کی اشاعت پر میڈیا کو ہراساں کرنے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔

خوش قسمتی سے پاکستانی میڈیا کے لیے یہ امر بڑے اطمینان کا باعث ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ، قانون کی حکمرانی، جمہوری اقدار کی پاسداری، امن عامہ کی بحالی اور آزادیٔ صحافت و اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے جد وجہد جاری ہے اس کے لیے نہ صرف تمام اہم عالمی صحافتی تنظیموں بلکہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی رائے عامہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں عالمی صحافتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے باضابطہ طور پر حکومت پاکستان کو خطوط لکھ کر پاکستان میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور شہید صحافیوں کے قاتلوں کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لائے اور انھیں جلد از جلد سزائیں دلوا کر ان کے ورثاء کو انصاف دلوایا جائے۔

گزشتہ ماہ امریکا کی ممتاز میڈیا تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلٹس (CPJ) نے پاکستان کا دورہ کیا اور تمام اہم صحافتی تنظیموں سے ملاقات کر کے ان کی سیکیورٹی کے معاملات پر بات کر کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ انھوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ پاکستان کی حکومت صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے میکسیکو اور کولمبیا کی حکومتوں کے تجربات سے استفادہ کرے جنہوں نے صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر قابو پانے کے لیے پو لیس کے محکمہ میں اسپیشل پرا سیکیوٹرز تقرر کر کے صحافیوں کے قتل میں ملوث افراد کا اسپیڈی ٹرائل شروع کیا اور انھیں جلد از جلد سزائیں دلوائیں جس پر وہاں میڈیا کے خلاف کرائمز کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔

سی پی جے کے وفد نے اپنے دورہ پاکستان کے موقعے پر امریکا کے خصوصی نمایندے کیٹی ہالبروک کی قیادت میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے بھی ملاقات کی اور انھیں پاکستان میں میڈیا کے خلاف دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ وزیر اعظم پاکستان نے وفد کو صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس موقعے پر انھوں نے صحافیوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کی نگرانی کے لیے ایک کمیشن بھی بنانے کا اعلان کیا۔

میڈیا کی ایک اور عالمی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ ) کی دعوت پر اس ماہ پاکستان کا دورہ کیا۔ وفد میں آئی ایف جے کے قائم مقام ڈائیریکٹر جین ور ٹھنگن اور ڈائریکٹر برائے ایشیاء اجل اچاریاپا شامل تھے۔ آئی ایف جے اور پی ایف یو جے کے اشتراک سے اس موقعے پر صحافیوں کے لیے ایک تربیتی ورکشاپ کا بھی انعقاد کیا گیا ۔


تربیتی ورکشاپ میں دنیا بھر کے ساتھ ساتھ خاص طور پر پاکستان میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں انتہائی حساس رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو خطرات سے نمٹنے کے طریقوں سے آگاہ کیا گیا۔ آئی ایف جے کے قائم مقام ڈائریکٹر نے ورکشاپ کے شرکاء کو بتایا کہ موجودہ حالات میں حقائق تک رسائی کے ساتھ ساتھ اپنے جان و مال کا تحفظ بھی صحافیوں کی ترجیح ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں صحافتی امور انجام دینا خطرہ سے خالی نہیں۔

کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے میڈیا سیل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال چھ صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی اور پانچ صحافی اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے بم دھماکوں کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ رواں سال کے چار ماہ کے دوران اب تک تین صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے ۔

جنوری کے مہینے میں اب تک ٹی وی چینل کے بیورو چیف شان ڈاہر کو لاڑکانہ میں قتل کیا گیا۔ فروری کے مہینہ میں اوستہ محمد (بلوچستان) میں ڈاکوئوں کی فائرنگ سے سینئر صحافی خواجہ محمد انور اور ان کا ڈرائیور جاں بحق ہو گئے۔ مارچ کے مہینہ میں کے پی کے شہر مانسہرہ میں پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ابرار تنولی کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اپریل کے مہینہ میں سینئر صحافی اور ممتاز ٹی اینکر حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس سے کچھ دن قبل ایکسپریس نیوز کے اینکر پر سن رضا رومی پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا مگر وہ تو محفوظ رہے جب کہ ان کا ڈرائیور جاں بحق ہو گیا۔

ایک خاص بات جو نوٹ کی گئی ہے وہ یہ کہ دہشتگرد عناصر کی جانب سے گزشتہ دو برس کے دوران سب سے زیادہ ٹارگٹ ایکسپریس میڈیا گروپ کو کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال کراچی میں ایکسپریس گروپ کے دفتر پر تین بار کریکرز پھینکے گئے، فائرنگ کر کے عملے کو زخمی کیا گیا اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ پھر اس سال کے آغاز پر کراچی میں ایکسپریس گروپ کی ایک ڈی ایس ایل وین پر فائرنگ کر کے تین ورکرز محمد خالد، وقاص عزیز اور محمد اشرف کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پشاور میں ایکسپریس نیوز کے بیورو چیف جمشید باغوان کے گھر کو بم نصب کر کے اڑا دینے کی کوشش کی گئی تھی جو ناکام بنا دی گئی تھی۔

اس سے قبل حیدر آباد میں بھی کوریج کے لیے جانے والی ایکسپریس نیوز کی ٹیم پر حملہ کر کے نیوز ٹیم کو زد و کوب کیا گیا تھا۔ ایکسپریس گروپ کے ساتھ ساتھ آج نیوز اور وقت ٹی وی چینلز پربھی کریکرز کے حملے کر کے عملے کو زخمی اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ اسی طرح کراچی ہی میں اے آر وائی ٹی وی کے دفتر کو بھی بم دھماکے سے اڑا دینے کی کوشش کی گئی تھی جو ناکام بنا دی گئی۔ ایک اور نجی ٹی کے رپورٹر محمد عمران اغواء کر لیا گیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کو دہشتگردی کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا کے سینئر صحافیوں کو دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس صورتحال میں پاکستان کا قومی پریس اپنی ذمے داری کا احساس کرے۔

میڈیا کی اس تقسیم سے نہ صرف آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی تحریک پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں بلکہ میڈیا کی وجہ سے سول سوسائٹی کے تقسیم ہو جانے کی وجہ سے ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے ورنہ پھر افسوس کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے گا۔

اس نازک صورتحال میں میڈیا کی تمام اہم جماعتوں اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے اور پی ایف یو جے کی قیادت کو ان حالات سے نکلنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا تا کہ اس مشکل صورتحال کا کوئی وے آئوٹ تلاش کیا جا سکے اور ملک کی تمام اہم سیاسی و مذہبی جماعتوں، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی انجمنوں اور سول سوسائٹی کے اشتراک و تعاون سے میڈیا کے خلاف کی جانے والی دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اختیار کی جا سکے تا کہ پاکستان کا میڈیا بلا کسی خوف و خطر کے اپنی صحافتی ذمے داریاں آزادانہ و غیر جانبدارانہ طور پر انجام دے سکے۔
Load Next Story