شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم کارکردگی
شہباز شریف کا یہ دور اتنے بڑے اتحاد کے باوجود کسی بھی بڑے چھوٹے اسکینڈل سے پاک تھا
حکومت گھر چلی گئی ہے۔ نگران حکومت آرہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کیسے وزیر اعظم رہے۔ بطور وزیر اعظم ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ کارکردگی کے تو سب معترف رہے ہیں۔
ان کے مخالفین کے پاس بھی بطور وزیر اعلیٰ ان کی کارکردگی کا کوئی جواب نہیں رہا۔ بلکہ ان کے بعد آنے والے وزیر اعلیٰ لوگوں کو یہی بتاتے رہے کہ میں پنجاب میں نیا شہباز شریف لگ گیا ہوں۔ شہباز شریف نے وزارت اعلیٰ کے معیار کو اتنا بلند کر دیا کہ اب سب کواس تک پہنچنا مشکل نظر آتا ہے۔
ایسے میں سب کے ذہن میں یہ سوال اہم ہے وزارت اعلیٰ کے بعد اب شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم کارکردگی کیسے رہی ہے۔ ان کی بطور وزیر اعظم کارکردگی کا احاطہ بھی اہم ہوگا۔
شہباز شریف بطور وزیر اعظم کیسے رہے۔ اس سوال کا جواب سب اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق دیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ہم کوئی آئیڈیل صورتحال میں نہیں ہیں۔ اس لیے آئیڈیل صورتحال سے موازنہ درست نہیں۔ موجودہ صورتحال میں ان کی کارکردگی کا جائزہ اور موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
شہباز شریف کی حکومت ایک مخلوط حکومت تھی۔ اتنے بڑے اتحاد کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ شہباز شریف کے بارے میں عمومی رائے یہی تھی کہ وہ سولو فلائٹ کے کھلاڑی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے کام کرنے کے عادی ہیں۔
ان کے بارے میں تو یہ رائے تھی کہ بطور وزیر اعلیٰ وہ بھی ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے وہاں سولو فلائٹ ہی ان کی پہچان تھی، لیکن بطور وزیر اعظم انھوں نے ایک بڑے اتحاد کو چلانے کی کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ کیسے سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کیسے اتفاق رائے سے فیصلے کرنے ہیں۔ شہباز شریف کا یہ دور بطور وزیر اعظم اس کی بہترین مثال کے طور پر دیکھا جا سکے گا۔ ان کی سیاسی معاملہ فہمی نے ایک مشکل دور کو کافی آسان دکھایا ہے۔
شہباز شریف کا یہ دور اتنے بڑے اتحاد کے باوجود کسی بھی بڑے چھوٹے اسکینڈل سے پاک تھا۔ ان سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر اقتدار میں آئے لیکن ان کے دور میں چینی گندم سے لے کر بہت سے کرپشن اسکینڈل آئے۔
لیکن شہباز شریف کا دور وزارت عظمیٰ کسی بھی اسکینڈل سے پاک رہا ہے۔ حکومت کی کرپشن کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ انھوں نے ایک کرپشن سے پاک حکومت چلا کر دکھائی ہے۔ ویسے تو ان کی وزارت اعلیٰ کا دور بھی کسی بڑے اسکینڈل سے پاک ہی تھا۔ وہ بار بار عدالت میں جج سے سوال کرتے تھے کہ اگر میں نے حکومت کی ایک پائی کی بھی کرپشن کی ہے تو مجھے پھانسی دے دیں۔ تاہم وہ وقت اور تھا۔ انھیں لمبی جیل کاٹنی تھی۔
لیکن پھر بطور وزیر اعظم بھی انھوں نے کسی بھی اسکینڈل سے پاک ایک حکومت چلا کر دکھائی ہے۔ اتنے بڑے اتحاد میں ایک کرپشن سے پاک اسکینڈل سے پاک حکومت چلانا ایک بڑا کام ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ پر بہت سیاست کی۔ وہ سابقہ وزیر اعظم کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف لینے کو سیاسی بیانیہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ شہباز شریف نے توشہ خانہ سے کوئی تحفہ نہیں لیا بلکہ ان کو عوام کے دیکھنے کے لیے رکھ دیا۔
بعد میں توشہ خانہ کے حوالے سے مضبوط قانون سازی بھی کر دی ہے۔ اب آنے والا کوئی حکمران بھی توشہ خانہ سے تحائف نہیں لے سکے گا۔ شہباز شریف نے تو بطور وزیر اعلیٰ بھی کبھی توشہ خانہ سے تحائف نہیں لیے تھے۔ لیکن انھوں نے اس کا راستہ بند کر کے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت کام کیا ہے۔ انھوں نے نہ تو کوئی گھڑی لی ہے نہ کوئی ہیرے کی انگوٹھی لی ہے۔
شہباز شریف نے جتنا کام کیا ہے انھیں اتنا کریڈٹ نہیں ملا ہے۔ ان کا دور وزارت عظمیٰ ایک مشکل دور تھا۔ شاید ان کی جگہ کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو شاید مدت مکمل نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن شہباز شریف نے ہر سیاسی بحران کا سامنے سے مقابلہ کیا اور مدت مکمل کی ہے۔
انھوں نے ایک مثال قائم کی ہے ۔ ان کے ناقدین بھی اس بات پر حیران ہیں کہ انھوں نے کیسے یہ مدت مکمل کی ہے ۔ جب یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہیں انھوں نے ایک مضبوط وزیر اعظم بن کر دکھایا۔
شہباز شریف کے دور میں پاکستان فیٹف سے نکلا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کپتان اور ان کی ٹیم شدید کوشش کے باوجود بھی پاکستان کو فیٹٖف سے نہیں نکلوا سکے تھے۔
ہر بار یہی کہہ دیا جاتا تھا کہ ہمارا کام تو مکمل ہے لیکن بھارت کی لابی نے ہمیں فیٹف سے نہیں نکلنے دیا۔ لیکن شہباز شریف کی کامیاب سفارتکاری سے پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ تا ہم آج ہم اس کو یاد بھی نہیں کر رہے۔
شہباز شریف نے چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کو نہ صرف ختم کیا بلکہ سی پیک کو دوبارہ زندہ بھی کیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں پاکستان کے نہ صرف چین سے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے بلکہ سی پیک تو بند ہی تھا۔ آج سی پیک دوبارہ زندہ نظر آرہا ہے۔ ان پندرہ ماہ میں شہباز شریف نے گوادر میں بجلی اور پانی جیسے مسائل کا حل کیا ہے۔
ایران سے بجلی لے کر گوادر کو دی گئی ہے ورنہ اس سے پہلے گوادر میں بجلی اور پانی کا شدید بحران تھا ۔ ہم کیسے بجلی اور پانی بغیر کوئی پورٹ سٹی بنانے کا تصور بھی کر سکتے ہیں۔ ان پندرہ ماہ میں گوادر اب تیار ہے، بند رگاہ بند تھی وہاں بڑے جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتے تھے ان پندرہ ماہ میں گوادر کی بندر گاہ بحال ہو گئی ہے۔
شہباز شریف کو پاکستان کوئی بہترین معاشی حالات میں نہیں ملا تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی معاشی طور پر گہری کھائیاں کھود کر گئے تھے۔ آئی ایم ایف سے پہلے ایک غلط معاہدہ کیا تھا۔ اس کو توڑ کر گئے۔ امپورٹس بڑھ گئی تھیں۔ تجارتی خسارہ بڑھا کر گئے تھے۔ تمام معاشی جن بوتل سے نکال کر گئے تھے تا کہ آنے والی حکومت ناکام ہو جائے۔
شہباز شریف نے تمام جن بوتل میں بند کیے ہیں۔ ان کی کارکردگی کو صرف مہنگائی کے تناظر میں دیکھنا جائز نہیں۔ جب چیئرمین پی ٹی آئی پر مہنگائی کی تنقید کی جاتی تھی تو پاکستان ایسے معاشی مسائل کا شکار نہیں تھا۔ تب کوئی روس یوکرین جنگ بھی نہیں تھی۔ عالمی سطح پر بھی مہنگائی نہیں تھی۔ آج دنیا میں جنگ کا ماحول ہے۔
عالمی سطح پر مہنگائی ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی کو صرف مہنگائی کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مشکل معاشی حالات میں ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ انھوں نے مشکل حالات میں ملک کیسے چلایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان حالات میں کسی اور سے ملک ایسے نہیں چل سکتا تھا، انھوں نے شدید مشکل حالات میں ملک چلا کر دکھایا ہے۔ باجوڑ میں شہدا کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے، سیکڑوں زخمی ابھی تک باجوڑ، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
جے یو آئی کے کنونشن میں ہونے والے اس خودکش دھماکے میں مرنے والے تو شہادت کے درجے پر فائز ہوچکے اور وہ اللہ کریم کی جنت میں مست و مگن ہوں گے کیوں انھوں نے جام شہادت اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے پیا، پاکستان کو مادر پدر آزاد مملکت بنانے، ناچ گانے یا بیہودہ مخلوط جلسوں کے لیے نہیں۔ ان کی شہادت اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہے۔
بیشک وہ شہید ہیں لیکن اپنوں کے بچھڑنے کا غم تو ہوتا ہے اور سب سے زیادہ غم بچھڑنے والوں سے جڑے رشتے داروں کو ہوا کرتا ہے۔ مگر جو دکھ اور کرب مولانا کے چہرے پر دیکھا وہ باپ کے درد سے کم نہیں۔اس دھماکے کے بعد مولانا فضل الرحمن کے طرز عمل نے حیران کرکے رکھ دیا۔ ہمارے ہاں سیاست صرف مفادات کا نام ہے، سیاستدانوں کو اپنے مفادات کے علاوہ کسی شے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
جمعیت علماء اسلام پہلی جماعت نہیں ہے جو دہشت گردی کا شکار ہوئی، اس ملک میں اس سے پہلے کئی چھوٹی بڑی جماعتیں دہشت گردی کا شکار ہوچکی ہیں، لیکن باجوڑ دھماکے کے بعد مولانا نے جیسے گزرے حادثات کے مواقع چاہے وہ صوابی انٹرچینج ہو یا اگلے دن چارسدہ میں ان پر خود کش حملہ ہو، مولانا نے جو انداز اپنایا ایک بار پھر اپنے ہم عصر سیاستدانوں کے لیے بہت بڑا معیار مقرر کر دیا۔
اس ملک میں ان کے ہم عصر لیڈران پر پٹاخہ بھی چلا ہے تو انھوں نے بلٹ پروف بالٹی سر پر رکھ لی اور گھر میں گھس گئے، مگر ایسے مواقعے پے جو طرز عمل مولانا کا دیکھا گیا پاکستانی سیاست میں وہ اپنی مثال آپ ہے' کوئی ثانی نہیں کوئی مد مقابل نہیں۔ ہم نے بہت سنا کہ مولانا سیاست کو سیاست نہیں بلکہ عبادت سمجھتے ہیں لیکن مولانا باجوڑ میں شہید ہونے والے اپنے کارکنوں کے اہل خانہ، یتیم بچوں اور زخمیوں کے ساتھ جس پدرانہ شفقت کے ساتھ کھڑے ہوئے، اس بات کا یقین کامل ہوگیا کہ مولانا کی سیاست غیرت و بہادری کے ساتھ عبادت بھی ہے۔
دھماکے سے قبل قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اپنے وفد کے ہمراہ انتہائی اہم میٹنگز کے لیے اتوار کی صبح دبئی کے دورے پر روانہ ہوئے تھے۔
اسی دن انھیں باجوڑ میں جمعیت کے کنونشن پر خود کش دھماکے کی اطلاع ملی۔ اپنے کارکنوں پر یہ قیامت صغریٰ دیکھ کر ان سے رہا نہیں گیا، فوراً پہلی دستیاب فلائٹ سے وطن واپس پہنچ گئے تاکہ شہیدوں کے جنازوں کو سنبھالیں اور بم دھماکے میں شدید متاثر اور زخمی ہونے والے اپنے جان سے پیارے کارکنوں کی عیادت کی ساتھ ساتھ علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرسکیں، جو کارکن شہید ہوئے ان کے بچوں کے سروں پر دست شفقت رکھ کر دلجوئی کرسکیں۔
اسلام آباد پہنچنے پر سب سے پہلے اسپتالوں میں زیر علاج شدید زخمیوں کی عیادت کرنے پہنچے۔ بعد ازاں پوری دنیا کے مختلف ممالک کے سفیروں کا تعزیت کے لیے مولانا کے گھر میں آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن شدید مضطرب تھے، کبھی وہ زخمیوں کو دیکھتے، کبھی شہداء کے بارے معلومات لیتے، کبھی تعزیت کے لیے آنے والوں کو وقت دیتے، تو کبھی اس واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم پاکستان، لا اینڈ آرڈر سیکیورٹی ایجنسز اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کے ساتھ رابطوں میں رہتے۔
دوسری طرف ایک مخصوص جماعت کے ''شہد''کے شوقین گنڈاپور جیسے قائدین اس خود کش دھماکے پر خوش نظر آرہے تھے، بجائے اس کے وہ اپنے بالٹی بردار لیڈر کا موازنہ مولانا کی جرات اور بہادری سے کرتے انھوں نے سوشل میڈیا پر بہتان طرازی کی مہم شروع کردی۔
یہ کیسی مخلوق ہے جو بے گناہ مسلمانوں کی مظلومانہ شہادت پر خوش ہوتی ہے، الزام تراشیاں کرتی ہے۔ اس موقع پر بھی مولانا نے اپنے رد عمل میں کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ مولانا باجوڑ جا پہنچے تو شہید ہونے والے ایک ایک کارکن کے گھر گئے، ان کے لواحقین کی اس انداز میں دلجوئی کی جیسے شہید ہونے والے ان کے نہیں بلکہ مولانا کے اپنے بچے ہیں اور مولانا ایک خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں دلاسے دے رہے ہیں، سینے سے لگا رہے ہیں، ان کے ماتھے چوم رہے ہیں، زخمیوں کے ہاتھ چوم رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ایک ایک منظر وائرل کیا، ہر منظر دل دہلانے والا، رولا دینے والا تھا۔ مولانا فضل الرحمان کی کسی گھر میں تعزیت کی وڈیو دیکھی تو دل بھر آیا جب جب یہ وڈیو دیکھی آنکھیں نمناک ہوگئیں، دل مضطرب ہو گیا۔
مولانا ایک شہید کے گھر پہنچے، شہید کے یتیم چھوٹے بچے کو گلے سے لگایا تو مولانا بھی فرط جذبات میں بہہ گئے، آنکھوں سے آنسو چھلک رہے ہیں، شہید کا کمسن بیٹا بھی مولانا سے لپٹ کر زارو قطار رو رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر دل کٹ گیا۔ کارکنان اپنے لیڈران کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے بیٹھے ہوتے ہیں، اور پھر جان ہار بھی دیتے ہیں تو ایسے میں لیڈر کا فرض تو بنتا ہے کہ زخمی دلوں پر جا کر پھاہے رکھیں۔
باجوڑ حادثہ میں بہت سی قیمتی جانیں چلی گئیں اور بہت سے معذور و زخمی ہوئے، بچے یتیم ہوئے، عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے، ماؤں کی گود اجڑ گئی اور کتنے ہی باپ جو عمر بھر کندھوں پر جوان لاشوں کا بوجھ لیے جئیں گے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر رکھے ہوئے جوان بیٹے کی لاش کا ہوتا ہے۔
یہی وہ بوجھ ہے جو باپ کی کمر توڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ باپ کا دکھ کوئی باپ ہی سمجھ سکتاہے، بیٹا نہیں، وہ جب انجانے راستوں پر بہت دور نکل کر وہاں چلا جاتاہے جہاں سے صدا بھی پلٹ کر نہیں آتی، تو درد کے بھیڑیے باپ کے سینے کو چیرنے لگتے ہیں۔
جوان بیٹے کو قبر میں اتارنے کے لیے جگر نہیں چٹان چاہیے، مگر یہی زندگی کا دستور ہے۔ باجوڑ میں سو کے قریب شہدا کو منوں مٹی تلے اتارا گیا ان کے والدین، ان کے بچے، ان کے اہل خانہ، عزیز و اقارب، دوست احباب سب کے سب اپنے پیاروں کو کھو دینے کے باجود مولانا کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں انھیں اپنا رہبر و رہنما مانتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مولانا روایتی سیاستدان جیسے نہیں ہیں، مولانا گفتار ہی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں، ان کی جان کو خطرہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ باجوڑ گئے، اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوئے، نہ انھوں نے سیکیورٹی کا خیال کیا، نہ سر پربالٹی پہنی، نہ کارکنوں سے فاصلہ رکھا۔ ہمارے ہاں تو سیاستدان مشکل وقت میں اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
دور نا جائیں ابھی نو مئی کے واقعات کو ہی دیکھ لیں، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کی ایماء پر جس طرح حساس تنصیبات پر حملے کیے، شہداء کی یادگاروں کو جلایا اس کے بعد ان واقعات میں ملوث کرداروں کے خلاف ریاست نے ایکشن لیا انھیں پکڑا تو خان صاحب بجائے اس کے کہ اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوتے اس نے اپنے کارکنوں کو پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے ایک مجذوب کارکن ظل شاہ کا قتل ہوا۔
کپتان ان کے گھر تعزیت کے لیے گئے نہ اس کے جنازے میں شریک ہوئے بلکہ الٹا مقتول کے باپ کو اپنے گھر بلایا اور جس باپ کے کندھوں پر جوان بیٹے کی لاش تھی اس کی دلجوئی کرنے کے بجائے متکبرانہ انداز میں ''مبینہ ٹوٹی ہوئی '' ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جس میں کپتان نے اپنے ساتھیوں کی جدائی پر ان کے پسماندگان کے گھر جا کر افسوس کرنے کے بجائے اپنے گھر بلایا اور فاتحہ پڑھی۔
یہ موازنہ صرف اس لیے کیا کہ صرف تحریک انصاف کے نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان ذرا سوچیں کہ جب کبھی ان پرسخت وقت آیا تو ان کے لیڈران کہاں تھے اور ان کا رویہ کیا تھا اور اگر ان کا دل مطمئن ہوجائے کہ مولانا کا ثانی نہیں تو پھر غیرت مند اور جرات مند کردار کے غازی کے دست و بازوبنیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین بھی خود سوچیں کہ اس کی گرفتاری پر کراچی سے خیبر تک کیوں ایک بھی کارکن نہیں نکلا؟ کاغذی لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مولانا جیسے حقیقی لیڈروں کو اللہ ہمیشہ عزتوں اور کارکنان کی محبتوں سے نوازتے ہیں۔
ان کے مخالفین کے پاس بھی بطور وزیر اعلیٰ ان کی کارکردگی کا کوئی جواب نہیں رہا۔ بلکہ ان کے بعد آنے والے وزیر اعلیٰ لوگوں کو یہی بتاتے رہے کہ میں پنجاب میں نیا شہباز شریف لگ گیا ہوں۔ شہباز شریف نے وزارت اعلیٰ کے معیار کو اتنا بلند کر دیا کہ اب سب کواس تک پہنچنا مشکل نظر آتا ہے۔
ایسے میں سب کے ذہن میں یہ سوال اہم ہے وزارت اعلیٰ کے بعد اب شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم کارکردگی کیسے رہی ہے۔ ان کی بطور وزیر اعظم کارکردگی کا احاطہ بھی اہم ہوگا۔
شہباز شریف بطور وزیر اعظم کیسے رہے۔ اس سوال کا جواب سب اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق دیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ہم کوئی آئیڈیل صورتحال میں نہیں ہیں۔ اس لیے آئیڈیل صورتحال سے موازنہ درست نہیں۔ موجودہ صورتحال میں ان کی کارکردگی کا جائزہ اور موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
شہباز شریف کی حکومت ایک مخلوط حکومت تھی۔ اتنے بڑے اتحاد کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ شہباز شریف کے بارے میں عمومی رائے یہی تھی کہ وہ سولو فلائٹ کے کھلاڑی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے کام کرنے کے عادی ہیں۔
ان کے بارے میں تو یہ رائے تھی کہ بطور وزیر اعلیٰ وہ بھی ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے وہاں سولو فلائٹ ہی ان کی پہچان تھی، لیکن بطور وزیر اعظم انھوں نے ایک بڑے اتحاد کو چلانے کی کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ کیسے سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کیسے اتفاق رائے سے فیصلے کرنے ہیں۔ شہباز شریف کا یہ دور بطور وزیر اعظم اس کی بہترین مثال کے طور پر دیکھا جا سکے گا۔ ان کی سیاسی معاملہ فہمی نے ایک مشکل دور کو کافی آسان دکھایا ہے۔
شہباز شریف کا یہ دور اتنے بڑے اتحاد کے باوجود کسی بھی بڑے چھوٹے اسکینڈل سے پاک تھا۔ ان سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر اقتدار میں آئے لیکن ان کے دور میں چینی گندم سے لے کر بہت سے کرپشن اسکینڈل آئے۔
لیکن شہباز شریف کا دور وزارت عظمیٰ کسی بھی اسکینڈل سے پاک رہا ہے۔ حکومت کی کرپشن کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ انھوں نے ایک کرپشن سے پاک حکومت چلا کر دکھائی ہے۔ ویسے تو ان کی وزارت اعلیٰ کا دور بھی کسی بڑے اسکینڈل سے پاک ہی تھا۔ وہ بار بار عدالت میں جج سے سوال کرتے تھے کہ اگر میں نے حکومت کی ایک پائی کی بھی کرپشن کی ہے تو مجھے پھانسی دے دیں۔ تاہم وہ وقت اور تھا۔ انھیں لمبی جیل کاٹنی تھی۔
لیکن پھر بطور وزیر اعظم بھی انھوں نے کسی بھی اسکینڈل سے پاک ایک حکومت چلا کر دکھائی ہے۔ اتنے بڑے اتحاد میں ایک کرپشن سے پاک اسکینڈل سے پاک حکومت چلانا ایک بڑا کام ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ پر بہت سیاست کی۔ وہ سابقہ وزیر اعظم کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف لینے کو سیاسی بیانیہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ شہباز شریف نے توشہ خانہ سے کوئی تحفہ نہیں لیا بلکہ ان کو عوام کے دیکھنے کے لیے رکھ دیا۔
بعد میں توشہ خانہ کے حوالے سے مضبوط قانون سازی بھی کر دی ہے۔ اب آنے والا کوئی حکمران بھی توشہ خانہ سے تحائف نہیں لے سکے گا۔ شہباز شریف نے تو بطور وزیر اعلیٰ بھی کبھی توشہ خانہ سے تحائف نہیں لیے تھے۔ لیکن انھوں نے اس کا راستہ بند کر کے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت کام کیا ہے۔ انھوں نے نہ تو کوئی گھڑی لی ہے نہ کوئی ہیرے کی انگوٹھی لی ہے۔
شہباز شریف نے جتنا کام کیا ہے انھیں اتنا کریڈٹ نہیں ملا ہے۔ ان کا دور وزارت عظمیٰ ایک مشکل دور تھا۔ شاید ان کی جگہ کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو شاید مدت مکمل نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن شہباز شریف نے ہر سیاسی بحران کا سامنے سے مقابلہ کیا اور مدت مکمل کی ہے۔
انھوں نے ایک مثال قائم کی ہے ۔ ان کے ناقدین بھی اس بات پر حیران ہیں کہ انھوں نے کیسے یہ مدت مکمل کی ہے ۔ جب یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہیں انھوں نے ایک مضبوط وزیر اعظم بن کر دکھایا۔
شہباز شریف کے دور میں پاکستان فیٹف سے نکلا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کپتان اور ان کی ٹیم شدید کوشش کے باوجود بھی پاکستان کو فیٹٖف سے نہیں نکلوا سکے تھے۔
ہر بار یہی کہہ دیا جاتا تھا کہ ہمارا کام تو مکمل ہے لیکن بھارت کی لابی نے ہمیں فیٹف سے نہیں نکلنے دیا۔ لیکن شہباز شریف کی کامیاب سفارتکاری سے پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ تا ہم آج ہم اس کو یاد بھی نہیں کر رہے۔
شہباز شریف نے چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کو نہ صرف ختم کیا بلکہ سی پیک کو دوبارہ زندہ بھی کیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں پاکستان کے نہ صرف چین سے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے بلکہ سی پیک تو بند ہی تھا۔ آج سی پیک دوبارہ زندہ نظر آرہا ہے۔ ان پندرہ ماہ میں شہباز شریف نے گوادر میں بجلی اور پانی جیسے مسائل کا حل کیا ہے۔
ایران سے بجلی لے کر گوادر کو دی گئی ہے ورنہ اس سے پہلے گوادر میں بجلی اور پانی کا شدید بحران تھا ۔ ہم کیسے بجلی اور پانی بغیر کوئی پورٹ سٹی بنانے کا تصور بھی کر سکتے ہیں۔ ان پندرہ ماہ میں گوادر اب تیار ہے، بند رگاہ بند تھی وہاں بڑے جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتے تھے ان پندرہ ماہ میں گوادر کی بندر گاہ بحال ہو گئی ہے۔
شہباز شریف کو پاکستان کوئی بہترین معاشی حالات میں نہیں ملا تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی معاشی طور پر گہری کھائیاں کھود کر گئے تھے۔ آئی ایم ایف سے پہلے ایک غلط معاہدہ کیا تھا۔ اس کو توڑ کر گئے۔ امپورٹس بڑھ گئی تھیں۔ تجارتی خسارہ بڑھا کر گئے تھے۔ تمام معاشی جن بوتل سے نکال کر گئے تھے تا کہ آنے والی حکومت ناکام ہو جائے۔
شہباز شریف نے تمام جن بوتل میں بند کیے ہیں۔ ان کی کارکردگی کو صرف مہنگائی کے تناظر میں دیکھنا جائز نہیں۔ جب چیئرمین پی ٹی آئی پر مہنگائی کی تنقید کی جاتی تھی تو پاکستان ایسے معاشی مسائل کا شکار نہیں تھا۔ تب کوئی روس یوکرین جنگ بھی نہیں تھی۔ عالمی سطح پر بھی مہنگائی نہیں تھی۔ آج دنیا میں جنگ کا ماحول ہے۔
عالمی سطح پر مہنگائی ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی کو صرف مہنگائی کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مشکل معاشی حالات میں ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ انھوں نے مشکل حالات میں ملک کیسے چلایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان حالات میں کسی اور سے ملک ایسے نہیں چل سکتا تھا، انھوں نے شدید مشکل حالات میں ملک چلا کر دکھایا ہے۔ باجوڑ میں شہدا کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے، سیکڑوں زخمی ابھی تک باجوڑ، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
جے یو آئی کے کنونشن میں ہونے والے اس خودکش دھماکے میں مرنے والے تو شہادت کے درجے پر فائز ہوچکے اور وہ اللہ کریم کی جنت میں مست و مگن ہوں گے کیوں انھوں نے جام شہادت اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے پیا، پاکستان کو مادر پدر آزاد مملکت بنانے، ناچ گانے یا بیہودہ مخلوط جلسوں کے لیے نہیں۔ ان کی شہادت اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہے۔
بیشک وہ شہید ہیں لیکن اپنوں کے بچھڑنے کا غم تو ہوتا ہے اور سب سے زیادہ غم بچھڑنے والوں سے جڑے رشتے داروں کو ہوا کرتا ہے۔ مگر جو دکھ اور کرب مولانا کے چہرے پر دیکھا وہ باپ کے درد سے کم نہیں۔اس دھماکے کے بعد مولانا فضل الرحمن کے طرز عمل نے حیران کرکے رکھ دیا۔ ہمارے ہاں سیاست صرف مفادات کا نام ہے، سیاستدانوں کو اپنے مفادات کے علاوہ کسی شے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
جمعیت علماء اسلام پہلی جماعت نہیں ہے جو دہشت گردی کا شکار ہوئی، اس ملک میں اس سے پہلے کئی چھوٹی بڑی جماعتیں دہشت گردی کا شکار ہوچکی ہیں، لیکن باجوڑ دھماکے کے بعد مولانا نے جیسے گزرے حادثات کے مواقع چاہے وہ صوابی انٹرچینج ہو یا اگلے دن چارسدہ میں ان پر خود کش حملہ ہو، مولانا نے جو انداز اپنایا ایک بار پھر اپنے ہم عصر سیاستدانوں کے لیے بہت بڑا معیار مقرر کر دیا۔
اس ملک میں ان کے ہم عصر لیڈران پر پٹاخہ بھی چلا ہے تو انھوں نے بلٹ پروف بالٹی سر پر رکھ لی اور گھر میں گھس گئے، مگر ایسے مواقعے پے جو طرز عمل مولانا کا دیکھا گیا پاکستانی سیاست میں وہ اپنی مثال آپ ہے' کوئی ثانی نہیں کوئی مد مقابل نہیں۔ ہم نے بہت سنا کہ مولانا سیاست کو سیاست نہیں بلکہ عبادت سمجھتے ہیں لیکن مولانا باجوڑ میں شہید ہونے والے اپنے کارکنوں کے اہل خانہ، یتیم بچوں اور زخمیوں کے ساتھ جس پدرانہ شفقت کے ساتھ کھڑے ہوئے، اس بات کا یقین کامل ہوگیا کہ مولانا کی سیاست غیرت و بہادری کے ساتھ عبادت بھی ہے۔
دھماکے سے قبل قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اپنے وفد کے ہمراہ انتہائی اہم میٹنگز کے لیے اتوار کی صبح دبئی کے دورے پر روانہ ہوئے تھے۔
اسی دن انھیں باجوڑ میں جمعیت کے کنونشن پر خود کش دھماکے کی اطلاع ملی۔ اپنے کارکنوں پر یہ قیامت صغریٰ دیکھ کر ان سے رہا نہیں گیا، فوراً پہلی دستیاب فلائٹ سے وطن واپس پہنچ گئے تاکہ شہیدوں کے جنازوں کو سنبھالیں اور بم دھماکے میں شدید متاثر اور زخمی ہونے والے اپنے جان سے پیارے کارکنوں کی عیادت کی ساتھ ساتھ علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرسکیں، جو کارکن شہید ہوئے ان کے بچوں کے سروں پر دست شفقت رکھ کر دلجوئی کرسکیں۔
اسلام آباد پہنچنے پر سب سے پہلے اسپتالوں میں زیر علاج شدید زخمیوں کی عیادت کرنے پہنچے۔ بعد ازاں پوری دنیا کے مختلف ممالک کے سفیروں کا تعزیت کے لیے مولانا کے گھر میں آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن شدید مضطرب تھے، کبھی وہ زخمیوں کو دیکھتے، کبھی شہداء کے بارے معلومات لیتے، کبھی تعزیت کے لیے آنے والوں کو وقت دیتے، تو کبھی اس واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم پاکستان، لا اینڈ آرڈر سیکیورٹی ایجنسز اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کے ساتھ رابطوں میں رہتے۔
دوسری طرف ایک مخصوص جماعت کے ''شہد''کے شوقین گنڈاپور جیسے قائدین اس خود کش دھماکے پر خوش نظر آرہے تھے، بجائے اس کے وہ اپنے بالٹی بردار لیڈر کا موازنہ مولانا کی جرات اور بہادری سے کرتے انھوں نے سوشل میڈیا پر بہتان طرازی کی مہم شروع کردی۔
یہ کیسی مخلوق ہے جو بے گناہ مسلمانوں کی مظلومانہ شہادت پر خوش ہوتی ہے، الزام تراشیاں کرتی ہے۔ اس موقع پر بھی مولانا نے اپنے رد عمل میں کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ مولانا باجوڑ جا پہنچے تو شہید ہونے والے ایک ایک کارکن کے گھر گئے، ان کے لواحقین کی اس انداز میں دلجوئی کی جیسے شہید ہونے والے ان کے نہیں بلکہ مولانا کے اپنے بچے ہیں اور مولانا ایک خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں دلاسے دے رہے ہیں، سینے سے لگا رہے ہیں، ان کے ماتھے چوم رہے ہیں، زخمیوں کے ہاتھ چوم رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ایک ایک منظر وائرل کیا، ہر منظر دل دہلانے والا، رولا دینے والا تھا۔ مولانا فضل الرحمان کی کسی گھر میں تعزیت کی وڈیو دیکھی تو دل بھر آیا جب جب یہ وڈیو دیکھی آنکھیں نمناک ہوگئیں، دل مضطرب ہو گیا۔
مولانا ایک شہید کے گھر پہنچے، شہید کے یتیم چھوٹے بچے کو گلے سے لگایا تو مولانا بھی فرط جذبات میں بہہ گئے، آنکھوں سے آنسو چھلک رہے ہیں، شہید کا کمسن بیٹا بھی مولانا سے لپٹ کر زارو قطار رو رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر دل کٹ گیا۔ کارکنان اپنے لیڈران کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے بیٹھے ہوتے ہیں، اور پھر جان ہار بھی دیتے ہیں تو ایسے میں لیڈر کا فرض تو بنتا ہے کہ زخمی دلوں پر جا کر پھاہے رکھیں۔
باجوڑ حادثہ میں بہت سی قیمتی جانیں چلی گئیں اور بہت سے معذور و زخمی ہوئے، بچے یتیم ہوئے، عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے، ماؤں کی گود اجڑ گئی اور کتنے ہی باپ جو عمر بھر کندھوں پر جوان لاشوں کا بوجھ لیے جئیں گے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر رکھے ہوئے جوان بیٹے کی لاش کا ہوتا ہے۔
یہی وہ بوجھ ہے جو باپ کی کمر توڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ باپ کا دکھ کوئی باپ ہی سمجھ سکتاہے، بیٹا نہیں، وہ جب انجانے راستوں پر بہت دور نکل کر وہاں چلا جاتاہے جہاں سے صدا بھی پلٹ کر نہیں آتی، تو درد کے بھیڑیے باپ کے سینے کو چیرنے لگتے ہیں۔
جوان بیٹے کو قبر میں اتارنے کے لیے جگر نہیں چٹان چاہیے، مگر یہی زندگی کا دستور ہے۔ باجوڑ میں سو کے قریب شہدا کو منوں مٹی تلے اتارا گیا ان کے والدین، ان کے بچے، ان کے اہل خانہ، عزیز و اقارب، دوست احباب سب کے سب اپنے پیاروں کو کھو دینے کے باجود مولانا کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں انھیں اپنا رہبر و رہنما مانتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مولانا روایتی سیاستدان جیسے نہیں ہیں، مولانا گفتار ہی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں، ان کی جان کو خطرہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ باجوڑ گئے، اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوئے، نہ انھوں نے سیکیورٹی کا خیال کیا، نہ سر پربالٹی پہنی، نہ کارکنوں سے فاصلہ رکھا۔ ہمارے ہاں تو سیاستدان مشکل وقت میں اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
دور نا جائیں ابھی نو مئی کے واقعات کو ہی دیکھ لیں، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کی ایماء پر جس طرح حساس تنصیبات پر حملے کیے، شہداء کی یادگاروں کو جلایا اس کے بعد ان واقعات میں ملوث کرداروں کے خلاف ریاست نے ایکشن لیا انھیں پکڑا تو خان صاحب بجائے اس کے کہ اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوتے اس نے اپنے کارکنوں کو پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے ایک مجذوب کارکن ظل شاہ کا قتل ہوا۔
کپتان ان کے گھر تعزیت کے لیے گئے نہ اس کے جنازے میں شریک ہوئے بلکہ الٹا مقتول کے باپ کو اپنے گھر بلایا اور جس باپ کے کندھوں پر جوان بیٹے کی لاش تھی اس کی دلجوئی کرنے کے بجائے متکبرانہ انداز میں ''مبینہ ٹوٹی ہوئی '' ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جس میں کپتان نے اپنے ساتھیوں کی جدائی پر ان کے پسماندگان کے گھر جا کر افسوس کرنے کے بجائے اپنے گھر بلایا اور فاتحہ پڑھی۔
یہ موازنہ صرف اس لیے کیا کہ صرف تحریک انصاف کے نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان ذرا سوچیں کہ جب کبھی ان پرسخت وقت آیا تو ان کے لیڈران کہاں تھے اور ان کا رویہ کیا تھا اور اگر ان کا دل مطمئن ہوجائے کہ مولانا کا ثانی نہیں تو پھر غیرت مند اور جرات مند کردار کے غازی کے دست و بازوبنیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین بھی خود سوچیں کہ اس کی گرفتاری پر کراچی سے خیبر تک کیوں ایک بھی کارکن نہیں نکلا؟ کاغذی لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مولانا جیسے حقیقی لیڈروں کو اللہ ہمیشہ عزتوں اور کارکنان کی محبتوں سے نوازتے ہیں۔