اعلان بالفور فلسطینیوں سے برطانوی خیانت
دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے یہودیوں کے ساتھ ہمدردی دلوانے کے لیے ہولو کاسٹ کے افسانے کا پراپیگنڈا کیا گیا
Arthur James Balfourبرطانیہ سرکار کا سیکریٹری خارجہ تھا جس نے 1917ء میں ایک ایسا اعلان جاری کیا جس کے نتیجے میں سر زمین فلسطین پر بسنے والے مظلوم انسان آج تک اس اعلان کے باعث صیہونی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں اورگزشتہ پینسٹھ برسوں میں لاکھوں فلسطینی موت کی آغوش میں جا چکے ہیں اور اسی طرح لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کو ان کے ملک سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ James Balfour نے ایک اعلان نامے کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ سر زمین فلسطین پر یہودیوں کے لیے ایک ریاست بنائی جائے جس میں یہودیوں کا الگ وطن ہو، اس اعلان کو تاریخ میں ''اعلان بالفور'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جہاں اس اعلان کو یاد رکھا گیا ہے وہاں برطانوی حکومت کی فلسطینیوں کے ساتھ کی جانے والی اس عظیم خیانت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو James Balfour کے اعلان کے نتیجے میں کی گئی۔1917ء میں 2 نومبر کو اعلان بالفور سامنے آیا جس میں ایک قوم کی نہ صرف سر زمین پر ڈاکا ڈالا گیا بلکہ انسانی حقوق کی بھی بری طرح پائمالی کی گئی، ایک ایسی ملت و قوم جو سر زمین فلسطین پر موجود تھی اس کے حقوق کو غصب کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اس مقام پر ایک یہودی ریاست کا وجود بنایا جائے جب کہ اگر اعداد و شمار ہی دیکھے جاتے تو ا س وقت کے مطابق بھی یہودیوں کی تعداد 6 فیصد سے زائد نہ تھی جب کہ فلسطین میں بسنے والے عربوں کی تعداد 94 چورانوے فیصد تھی، بہر حال 6 فیصد کو 94 فیصد پر قابض کرنے کی برطانوی منصوبہ بندی کامیاب ہو گئی اور بالآخر اسی اعلان بالفور کے نتیجے میں 14 مئی 1948ء کو سر زمین فلسطین پر ایک غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود قیام عمل میں لایا گیا۔
اعلان بالفور میں یہودیوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے لیے فلسطین میں ایک الگ ریاست کا قیام کیا جائے گا اور آخر کار بالفور نے اپنے اعلان کے مطابق برطانوی سامراج کی سرپرستی میں اس عظیم خیانت کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔
برطانوی سامراج کی جانب سے کی جانے والی اس خیانت کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو مشکلات اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا، برطانوی سامراج کی ایک بہت بڑی نا انصافی اور ظلم کی تاریخ اپنے نشان چھوڑ گئی اور آج تک یہ نشانات موجود ہیں، برطانیہ کو اعلان بالفور پر عالمی برادری اور فلسطین کے عوام سے معذرت طلب کر کے اپنی ماضی کی خیانت کو مستقبل میں درست کرنے کی جانب قدم بڑھانا ہو گا ورنہ تاریخ کبھی برطانوی سامراج کو معاف نہیں کرے گی۔
عجب بات ہے کہ آج تک برطانوی سامراج کی جانب سے فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف مذمت تک سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ گیارہ ملین فلسطینی صرف برطانوی خیانت اور اعلان بالفور کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اپنی زندگی کی دشواری کو گزار رہے ہیں۔ برطانوی خیانت کے نتیجے میں نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہوئی، بلکہ فلسطین میں لاکھوں انسانی جانوں کا زیاں ہوا، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، غرض یہ کہ ظلم کی ایسی داستانیں رقم ہوئی ہیں جن کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی اور یہ سب کچھ برطانوی گناہ کے باعث ہو اہے جو اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست کے ناپاک وجود کے قیام کی صورت میں دنیا میں سامنے آیا۔ حتیٰ کہ بالفور اعلان کو اب ایک سو سال ہونے کو ہیں لیکن برطانوی سامراج نے کبھی اس جانب توجہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے اس گناہ کا کفارہ کس طرح ادا کیا جائے۔
فلسطینی ریٹرن سینٹر حال ہی میں ایک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرنے کا خواہاں ہے جس کے نتیجے میں وہ بالفور اعلان کے سو سال مکمل ہونے پر دنیا کو جھنجھوڑنے کے لیے پروگرام ترتیب دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے تا کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ برطانوی سامراج کی جانب سے فلسطینیوں کی ساتھ کی جانے والی خیانت کو ایک سو سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اور اس اعلان کے نتیجے میں آج فلسطینیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا اور ان سب کا ذمے دار یقینا برطانوی سامراج ہے اور اس وقت کا امریکی صدر ولسن جو آپس میں دوست تھے اور دوستی نبھانے کی خاطر مظلوم انسانوں کی جانوں کی بلی چڑھائی گئی۔ اور ایک ایسے سرطان کو وجود عطا کیا گیا جو نہ صرف فلسطین، مشرق وسطیٰ، بلکہ خود یورپ اور اب امریکا سمیت افریقا بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔
دنیا کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے کہ بالفور اعلان میں اس وقت کے امریکی صدر Woodrow Wilson کی بھی بھرپور معاونت موجود تھی کیونکہ ولسن خود امریکی صیہونی رہنما اور سپریم کورٹ کے سربراہ Louis Brandeis کا قریبی دوست تھا اور ان کی معاونت سے اعلان بالفور کو تیار کیا گیا تھا کیونکہ جنگ عظیم اول میں ہی برطانیہ کو امریکا نے یہ باور کروا دیا تھا کہ برطانیہ امریکا کی مدد کے بغیر جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا اور یہی وجہ ہے کہ دونوں سامراجی شیطانی قوتوں نے مل کر فلسطینیوں کے ساتھ ایک ایسی خیانت انجام دی جس کا ازالہ آج تک نہیں کیا جا سکا ہے۔
برازیل کے ایک مصنف Doreen Ingrams کی جانب سے جاری کیے جانے والے فلسطین سے متعلق ایک Document میں فلسطین میں صیہونیوں کے وجود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ صیہونیوں کا فلسطین میں وجود کیا نام و نشان تک نہ تھا، یہ تحقیق 1973ء میں سامنے آئی جس میں Doreen Ingrams,نے لکھا ہے کہ اعلان بالفور سے قبل ہی Lloyd George نے صیہونیوں کے اس منصوبے کی مذمت کی تھی لیکن بالفور نے چند ماہ کے اندر ہی صیہونیوں کے ساتھ اور برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ یہودیوں کے حقوق کے لیے ایک الگ ریاست کا وجود بنایا جائے اورا س کے لیے انھوںنے فلسطین کا انتخاب کیا جو برطانوی سامراج کی سب سے بڑی غلطی اور انسانیت کے ساتھ خیانت کے مترادف تھی۔ اور پھر وہی ہوا کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت صیہونیوں کو دنیا کے مختلف مقامات سے1939ء میں ہی ہجرت کروانا شروع کر دی اور لا کر سر زمین فلسطین پر بسانا شروع کر دیا۔
دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے یہودیوں کے ساتھ ہمدردی دلوانے کے لیے ہولو کاسٹ کے افسانے کا پراپیگنڈا کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ یہودیوں کو عالمی سطح پر ہمدردی فراہم کی جائے تا کہ ان کے لیے اعلان بالفور کے مطابق یہودی ریاست کی راہیں ہموار کی جائیں۔ تاہم ہولو کاسٹ جو خود ایک افسانہ ہے اور جس میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ، اور اگر ہولو کاسٹ کو تھوڑی دیر کے لیے سچ مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہولوکاسٹ تو یورپ میں جرمنی میں ہوا تو پھر یہودیوں کے لیے ریاست کا قیام ایشیاء میں کیوں؟
اور ایک ایسی سر زمین پر جسے انبیاء علیہم السلام کی سر زمین کہا جاتا ہے جس پر مسلمانوں کے مقدس مقامات موجود ہیں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں پھر کیوں سر زمین فلسطین کو یہودیوں کے لیے اختیار کیا گیا؟ اگر یہودی ریاست کا وجود اتنا ہی نا گزیر تھا تو پھر اس ریاست کو برطانیہ میں، امریکا میں، یا پھر یورپ میں کیوں نہیں بنایا گیا؟بہر حال برطانو ی سامراج اور امریکا کی فلسطینیوں کے ساتھ کی جانے والی اس خیانت کو فلسطینی عوام کی قیامت تک آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور اس خیانت کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔
جہاں اس اعلان کو یاد رکھا گیا ہے وہاں برطانوی حکومت کی فلسطینیوں کے ساتھ کی جانے والی اس عظیم خیانت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو James Balfour کے اعلان کے نتیجے میں کی گئی۔1917ء میں 2 نومبر کو اعلان بالفور سامنے آیا جس میں ایک قوم کی نہ صرف سر زمین پر ڈاکا ڈالا گیا بلکہ انسانی حقوق کی بھی بری طرح پائمالی کی گئی، ایک ایسی ملت و قوم جو سر زمین فلسطین پر موجود تھی اس کے حقوق کو غصب کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اس مقام پر ایک یہودی ریاست کا وجود بنایا جائے جب کہ اگر اعداد و شمار ہی دیکھے جاتے تو ا س وقت کے مطابق بھی یہودیوں کی تعداد 6 فیصد سے زائد نہ تھی جب کہ فلسطین میں بسنے والے عربوں کی تعداد 94 چورانوے فیصد تھی، بہر حال 6 فیصد کو 94 فیصد پر قابض کرنے کی برطانوی منصوبہ بندی کامیاب ہو گئی اور بالآخر اسی اعلان بالفور کے نتیجے میں 14 مئی 1948ء کو سر زمین فلسطین پر ایک غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود قیام عمل میں لایا گیا۔
اعلان بالفور میں یہودیوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے لیے فلسطین میں ایک الگ ریاست کا قیام کیا جائے گا اور آخر کار بالفور نے اپنے اعلان کے مطابق برطانوی سامراج کی سرپرستی میں اس عظیم خیانت کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔
برطانوی سامراج کی جانب سے کی جانے والی اس خیانت کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو مشکلات اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا، برطانوی سامراج کی ایک بہت بڑی نا انصافی اور ظلم کی تاریخ اپنے نشان چھوڑ گئی اور آج تک یہ نشانات موجود ہیں، برطانیہ کو اعلان بالفور پر عالمی برادری اور فلسطین کے عوام سے معذرت طلب کر کے اپنی ماضی کی خیانت کو مستقبل میں درست کرنے کی جانب قدم بڑھانا ہو گا ورنہ تاریخ کبھی برطانوی سامراج کو معاف نہیں کرے گی۔
عجب بات ہے کہ آج تک برطانوی سامراج کی جانب سے فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف مذمت تک سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ گیارہ ملین فلسطینی صرف برطانوی خیانت اور اعلان بالفور کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اپنی زندگی کی دشواری کو گزار رہے ہیں۔ برطانوی خیانت کے نتیجے میں نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہوئی، بلکہ فلسطین میں لاکھوں انسانی جانوں کا زیاں ہوا، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، غرض یہ کہ ظلم کی ایسی داستانیں رقم ہوئی ہیں جن کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی اور یہ سب کچھ برطانوی گناہ کے باعث ہو اہے جو اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست کے ناپاک وجود کے قیام کی صورت میں دنیا میں سامنے آیا۔ حتیٰ کہ بالفور اعلان کو اب ایک سو سال ہونے کو ہیں لیکن برطانوی سامراج نے کبھی اس جانب توجہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے اس گناہ کا کفارہ کس طرح ادا کیا جائے۔
فلسطینی ریٹرن سینٹر حال ہی میں ایک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرنے کا خواہاں ہے جس کے نتیجے میں وہ بالفور اعلان کے سو سال مکمل ہونے پر دنیا کو جھنجھوڑنے کے لیے پروگرام ترتیب دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے تا کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ برطانوی سامراج کی جانب سے فلسطینیوں کی ساتھ کی جانے والی خیانت کو ایک سو سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اور اس اعلان کے نتیجے میں آج فلسطینیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا اور ان سب کا ذمے دار یقینا برطانوی سامراج ہے اور اس وقت کا امریکی صدر ولسن جو آپس میں دوست تھے اور دوستی نبھانے کی خاطر مظلوم انسانوں کی جانوں کی بلی چڑھائی گئی۔ اور ایک ایسے سرطان کو وجود عطا کیا گیا جو نہ صرف فلسطین، مشرق وسطیٰ، بلکہ خود یورپ اور اب امریکا سمیت افریقا بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔
دنیا کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے کہ بالفور اعلان میں اس وقت کے امریکی صدر Woodrow Wilson کی بھی بھرپور معاونت موجود تھی کیونکہ ولسن خود امریکی صیہونی رہنما اور سپریم کورٹ کے سربراہ Louis Brandeis کا قریبی دوست تھا اور ان کی معاونت سے اعلان بالفور کو تیار کیا گیا تھا کیونکہ جنگ عظیم اول میں ہی برطانیہ کو امریکا نے یہ باور کروا دیا تھا کہ برطانیہ امریکا کی مدد کے بغیر جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا اور یہی وجہ ہے کہ دونوں سامراجی شیطانی قوتوں نے مل کر فلسطینیوں کے ساتھ ایک ایسی خیانت انجام دی جس کا ازالہ آج تک نہیں کیا جا سکا ہے۔
برازیل کے ایک مصنف Doreen Ingrams کی جانب سے جاری کیے جانے والے فلسطین سے متعلق ایک Document میں فلسطین میں صیہونیوں کے وجود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ صیہونیوں کا فلسطین میں وجود کیا نام و نشان تک نہ تھا، یہ تحقیق 1973ء میں سامنے آئی جس میں Doreen Ingrams,نے لکھا ہے کہ اعلان بالفور سے قبل ہی Lloyd George نے صیہونیوں کے اس منصوبے کی مذمت کی تھی لیکن بالفور نے چند ماہ کے اندر ہی صیہونیوں کے ساتھ اور برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ یہودیوں کے حقوق کے لیے ایک الگ ریاست کا وجود بنایا جائے اورا س کے لیے انھوںنے فلسطین کا انتخاب کیا جو برطانوی سامراج کی سب سے بڑی غلطی اور انسانیت کے ساتھ خیانت کے مترادف تھی۔ اور پھر وہی ہوا کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت صیہونیوں کو دنیا کے مختلف مقامات سے1939ء میں ہی ہجرت کروانا شروع کر دی اور لا کر سر زمین فلسطین پر بسانا شروع کر دیا۔
دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے یہودیوں کے ساتھ ہمدردی دلوانے کے لیے ہولو کاسٹ کے افسانے کا پراپیگنڈا کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ یہودیوں کو عالمی سطح پر ہمدردی فراہم کی جائے تا کہ ان کے لیے اعلان بالفور کے مطابق یہودی ریاست کی راہیں ہموار کی جائیں۔ تاہم ہولو کاسٹ جو خود ایک افسانہ ہے اور جس میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ، اور اگر ہولو کاسٹ کو تھوڑی دیر کے لیے سچ مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہولوکاسٹ تو یورپ میں جرمنی میں ہوا تو پھر یہودیوں کے لیے ریاست کا قیام ایشیاء میں کیوں؟
اور ایک ایسی سر زمین پر جسے انبیاء علیہم السلام کی سر زمین کہا جاتا ہے جس پر مسلمانوں کے مقدس مقامات موجود ہیں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں پھر کیوں سر زمین فلسطین کو یہودیوں کے لیے اختیار کیا گیا؟ اگر یہودی ریاست کا وجود اتنا ہی نا گزیر تھا تو پھر اس ریاست کو برطانیہ میں، امریکا میں، یا پھر یورپ میں کیوں نہیں بنایا گیا؟بہر حال برطانو ی سامراج اور امریکا کی فلسطینیوں کے ساتھ کی جانے والی اس خیانت کو فلسطینی عوام کی قیامت تک آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور اس خیانت کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔