معاشرتی تضادات کینوس پر پینٹ کرتا ہوں عامر کھتری
آرٹ ہی سماج کا حقیقی عکس ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ بے قیمت ہوگیا، عامر کھتری
منظر نہیں، خیال رنگوں میں سموتے ہیں۔ مشاہدات سے کوئی احساس جنم لیتا ہے۔ موقلم میں جنبش ہوتی ہے۔ کینوس کہانی بیان کرنے لگتا ہے۔ اور کہانی فقط ایک کینوس تک محدود نہیں رہتی، یہ تو پھیلتی جاتی ہے!
عامر کھتری کی مصوری سماجی بگاڑ پر ایک کاٹ دار تبصرہ ہے۔ معاشرتی خلفشار اور تضادات بگڑے ہوئے، مٹتے ہوئے، منقسم چہروں کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔ فن پاروں پر چھائی لکیریں انتشار کی علامت ہیں۔ انداز نیم تجریدی، نیم علامتی ہے۔ Impressionism (تاثریت) بھی اُن کے ہاں ملتا ہے۔
عامر کھتری نے فن کو پیشہ نہیں بنایا۔ اِس سفر میں دھیرے دھیرے خود کو شناخت کیا۔ اپنا اسلوب، اپنا انداز دریافت کیا۔ عورت کے کرب کی عکاسی کرتی "Women's Feelings" پہلی سیریز تھی۔ اِس کے تحت لگ بھگ پچاس پینٹنگز بنائیں۔ ہر تصویر عورت کتھا تھی۔ ایسی کتھا، جس نے اُن کے دل کو چھو لیا۔ "Dead Lives" اگلی سیریز تھی، جو تجسس سے بھرپور ثابت ہوئی۔ 30 سے زاید فن پارے اِس خیال کے تحت تخلیق کیے، جو منفی انسانی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ بے چہرگی عیاں کرتے ہیں۔ "Thirst for Peace" تیسرا منصوبہ تھا، جس میں نہ صرف ریاستی، بلکہ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی جنگی، پُرتشدد صورت حال پر ضرب کی۔ امن کی علامت، یعنی کبوتروں کو اپنے انداز میں کینوس پر پیش کیا۔ 35 کے قریب پینٹنگز بنا چکے ہیں اِس سیریز پر۔
گذشتہ تین عشروں سے اِس شعبے میں ہیں۔ 40 کے قریب ایگزیبیشنز ہوچکی ہیں۔ پانچ ایگزیبیشنز ''سولو'' تھیں۔ فن پاروں کی پہلی نمایش 86ء میں آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی۔ اولین ''سولو'' نمایش 90ء میں آرٹ ویو گیلری، کراچی میں ہوئی۔ بیرون ملک بھی فن پاروں نے توجہ حاصل کی۔ 2012 اور 2013 میں لندن میں فن پاروں کی نمایش ہوئی۔ آخر الذکر ''سولو'' ایگزیبیشن تھی، جو پاکستانی سفارت خانے میں ہوئی۔ اِس کے علاوہ میامی (امریکا)، میلان (اٹلی) اور گرناڈا (اسپین) کی گیلریز میں اُن کی پینٹنگز سج چکی ہیں۔
عامر کھتری کے اجداد کا تعلق جونا گڑھ سے ہے۔ تقسیم کے بعد کراچی کو مرکز بنایا۔ یہیں 1968 میں وہ پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، عبدالرحیم کھتری لاسٹک انڈسٹری سے منسلک تھے۔ مزاج میں اُن کے شفقت نمایاں تھی۔ جب اُنھیں پتا چلا کہ بیٹے کو مصوری کا شوق ہے، تو خوب حوصلہ افزائی کی۔ دو کتابیں تحفے میں دیں۔ ایک پکاسو کے فن پاروں پر مشتمل تھی، دوسری میں صادقین کی کیلی گرافی کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اُن کتب نے شوق کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ اوائل عمری میں پکاسو اور صادقین کے نقوش پا کا تعاقب کرتے رہے۔
تین بہن، دو بھائیوں میں وہ دوسرے ہیں۔ بچپن میں شمار کم گو بچوں میں ہوتا تھا۔ لوگوں میں گھلنا ملنا پسند نہیں تھا۔ کرکٹ کے دل دادہ تھے۔ گنتی اچھے طالب علموں میں ہوتی۔ 86ء میں سائنس سے میٹرک کیا۔ انجینئر بننے کا ارادہ تھا، مگر کیمسٹری سے نبھ نہیں سکی۔ بہ مشکل انٹر کیا۔ اب پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں آگئے۔ اس میدان میں جم کر کام کیا۔ بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے بھی ڈیزائننگ کرچکے ہیں۔ مصوری کا تجربہ بھی خوب کام آیا۔
رنگوں کی لت تو بچپن ہی میں پڑ گئی تھی۔ پینسل کلر، مارکر اور واٹر کلر استعمال کیا کرتے تھے اس زمانے میں۔ 84-85 میں اقبال مہدی کی سرپرستی میسر آئی۔ ''پورٹریٹ'' اور''لینڈ اسکیپ'' توجہ کا مرکز تھے۔ رنگوں اور لکیروں کو گھوڑوں اور چیتوں کی صورت دی۔ کیلی گرافی بھی کرتے رہے۔ خطاطی کے نمونے ہی پہلی نمایش میں ظاہر ہوئے۔ کچھ عرصے کیلی گرافی توجہ کا مرکز رہی۔ آہستہ آہستہ مزاج بدلتا گیا۔ تجربات اور مشاہدات نئی سمتوں میں لے گئے۔ لکیریں پینٹنگز میں نمایاں ہونے لگیں۔
اِس وقت "Dead Lives" سیریز اُن کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اِس بابت کہتے ہیں،''لوگوں نے گھوڑے بھی پینٹ کیے، کبوتر بھی بنائے، لیکن یہ میرا اپنا آئیدیا ہے، جو منفی انسانی رویوں کے خلاف ہے۔ اِس سیریز کے ذریعے میں نے معاشرتی تضادات کی عکاسی کی۔ ہم زندہ تو ہیں، مگر یہ زندگی موت سے بدتر ہے۔ ہمیں خود کو تبدیل کرنا پڑے گا۔''
فن پاروں کی فروخت کا معاملہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''پینٹنگز کم ہی فروخت ہوتی ہیں۔ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے۔ میرے فن پارے سماج کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اب آئینہ کون دیکھنا چاہے گا؟ صادقین صاحب نے ایک بار کہا تھا؛ لوگ میری پینٹنگز اپنے گھر میں نہیں لگانا چاہتے، کیوں کہ وہ سچ سننے کو تیار نہیں۔ میرا بھی یہی معاملہ ہے۔''
آرٹ کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''فائن آرٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آرٹ بے قیمت ہوگیا ہے۔ اگر اِسے پیسے کے لیے کیا جائے، تو معاملہ کمرشل ہوجائے گا۔ اور کمرشل کام میں فائن آرٹ کی روح مر جاتی ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے ہاں ہے۔ میں ڈیمانڈ پر کام نہیں کرتا۔ اپنی خوشی کے لیے، اپنے نظریے کے تحت پینٹنگ کرتا ہوں۔ اگر اس کے عوض پیسے مل جائیں، تو ٹھیک ہے، ورنہ کوئی بات نہیں۔ جنھیں میرا آرٹ پسند ہے، وہ خریدتے ہیں۔ مگر نوجوانوں کو میں یہی مشورہ دوں گا کہ اِسے پیشہ نہ بنائیں۔''
صلاحیت کی، اُن کے مطابق، ہمارے ہاں کمی نہیں۔ معیاری کام سامنے آرہا ہے، اور سوشل میڈیا اِس کام کی تشہیر میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ ''آرٹسٹ اپنے فن پارے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر 'شیئر' کر رہے ہیں۔ لوکل سے زیادہ انٹرنیشنل مارکیٹ سے اُنھیں ردعمل مل رہا ہے۔ میلان میں ہونے والی میری نمایش بھی سوشل میڈیا ہی کے طفیل ممکن ہوئی۔ 'فیس بک' کے ذریعے میرا کام اس ایگزیبیشن کے منتظمین تک پہنچا۔ انھوں نے اسے پسند کیا۔ یوں میلان کے Torre Branca ٹاور میں میری پینٹنگز آویزاں ہوئیں۔''
اس سفر میں مشکل مراحل بھی آئے۔ نہ صرف نظرانداز، بلکہ رد کیا گیا، مگر رکے نہیں، چلتے رہے۔ بہ قول اُن کے،''آرٹسٹ اُس وقت مایوسی کا شکار ہوتا ہے، جب اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے۔ اس ضمن میں ہماری حکومت اور اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آرٹ ہی معاشرے کا حقیقی عکس ہے۔''
اپنے فنّی سفر سے مطمئن ہیں۔ کہنا ہے، اُنھوں نے معاشی تقاضوں کے باعث کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ تینوں سیریز کا ماخذ اُن کا اپنا ذہن ہے۔ ''یہ میرا اپنا اسٹائل ہے۔ میری شناخت ہے۔ مجھے اپنی پینٹنگز پر دست خط کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور مجھے اِس بات کا اطمینان ہے کہ اگر میں مر بھی گیا، تب بھی میرا کام باقی رہے گا۔''
اُن کی کسی پینٹنگ میں چہرے ہیں، کسی میں کبوتر، کسی میں گھوڑے، مگر ایک عنصر ہر فن پارے میں یک ساں ہے، لکیریں۔ کہیں نمایاں، کہیں مدھم، مگر ہر تصویر میں موجود۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''معاشرے کی جو امیج مجھے ملتی ہے، وہ ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہے۔ کیوں کہ معاشرے انتشار کا شکار ہے۔ یہی انتشار، یہی تضادات میں کینوس پر منتقل ہوتا ہے۔''
یوں تو ہر قسم کے رنگ برتے، مگر Acrylic رنگ زیادہ بھاتے ہیں۔ میلان کے Torre Branca ٹاور میں ہونے والی نمایش سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ والد کے انتقال کے سمے گہرے کرب سے گزرے۔ یہ سانحہ 91ء میں پیش آیا۔
مصوروں میں پکاسو اور صادقین کو سراہتے ہیں۔ "Dead Lives" سیریز میں جب چہرے پینٹ کرنے شروع کیے، تو اُن میں پکاسو کی جھلک نظر آتی تھی، مگر جلد اپنا رنگ دریافت کر لیا۔ جمیل نقش اور مشکور رضا کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ بیش تر آرٹ گیلریز، اُن کے مطابق کمرشل بنیادوں پر کام کررہی ہیں، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں، جو نئے آرٹسٹوں کو پرموٹ کرتی ہیں۔ گھر ہی اُن کا اسٹوڈیو ہے۔ وہیں پینٹنگ کرتے ہیں۔
عامر کھتری پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ لتا اور کشور کی گائیکی اچھی لگی۔ تیز موسیقی کبھی اچھی نہیں لگی۔ فلمیں کم ہی دیکھتے ہیں، البتہ شاہ رخ خان اور کرینہ کپور کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ 2003 میں شادی ہوئی۔ تین بیٹیاں، ایک بیٹا ہے۔ خاصے مصروف رہتے ہیں، دن میں دفتر، شام میں مصوری؛ مگر گھر والوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی۔ بیگم کا بھی اِس ضمن میں تعاون حاصل رہا۔ خواہش ہے کہ مستقبل میں بیوہ اور یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کریں۔
عامر کھتری کی مصوری سماجی بگاڑ پر ایک کاٹ دار تبصرہ ہے۔ معاشرتی خلفشار اور تضادات بگڑے ہوئے، مٹتے ہوئے، منقسم چہروں کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔ فن پاروں پر چھائی لکیریں انتشار کی علامت ہیں۔ انداز نیم تجریدی، نیم علامتی ہے۔ Impressionism (تاثریت) بھی اُن کے ہاں ملتا ہے۔
عامر کھتری نے فن کو پیشہ نہیں بنایا۔ اِس سفر میں دھیرے دھیرے خود کو شناخت کیا۔ اپنا اسلوب، اپنا انداز دریافت کیا۔ عورت کے کرب کی عکاسی کرتی "Women's Feelings" پہلی سیریز تھی۔ اِس کے تحت لگ بھگ پچاس پینٹنگز بنائیں۔ ہر تصویر عورت کتھا تھی۔ ایسی کتھا، جس نے اُن کے دل کو چھو لیا۔ "Dead Lives" اگلی سیریز تھی، جو تجسس سے بھرپور ثابت ہوئی۔ 30 سے زاید فن پارے اِس خیال کے تحت تخلیق کیے، جو منفی انسانی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ بے چہرگی عیاں کرتے ہیں۔ "Thirst for Peace" تیسرا منصوبہ تھا، جس میں نہ صرف ریاستی، بلکہ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی جنگی، پُرتشدد صورت حال پر ضرب کی۔ امن کی علامت، یعنی کبوتروں کو اپنے انداز میں کینوس پر پیش کیا۔ 35 کے قریب پینٹنگز بنا چکے ہیں اِس سیریز پر۔
گذشتہ تین عشروں سے اِس شعبے میں ہیں۔ 40 کے قریب ایگزیبیشنز ہوچکی ہیں۔ پانچ ایگزیبیشنز ''سولو'' تھیں۔ فن پاروں کی پہلی نمایش 86ء میں آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی۔ اولین ''سولو'' نمایش 90ء میں آرٹ ویو گیلری، کراچی میں ہوئی۔ بیرون ملک بھی فن پاروں نے توجہ حاصل کی۔ 2012 اور 2013 میں لندن میں فن پاروں کی نمایش ہوئی۔ آخر الذکر ''سولو'' ایگزیبیشن تھی، جو پاکستانی سفارت خانے میں ہوئی۔ اِس کے علاوہ میامی (امریکا)، میلان (اٹلی) اور گرناڈا (اسپین) کی گیلریز میں اُن کی پینٹنگز سج چکی ہیں۔
عامر کھتری کے اجداد کا تعلق جونا گڑھ سے ہے۔ تقسیم کے بعد کراچی کو مرکز بنایا۔ یہیں 1968 میں وہ پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، عبدالرحیم کھتری لاسٹک انڈسٹری سے منسلک تھے۔ مزاج میں اُن کے شفقت نمایاں تھی۔ جب اُنھیں پتا چلا کہ بیٹے کو مصوری کا شوق ہے، تو خوب حوصلہ افزائی کی۔ دو کتابیں تحفے میں دیں۔ ایک پکاسو کے فن پاروں پر مشتمل تھی، دوسری میں صادقین کی کیلی گرافی کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اُن کتب نے شوق کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ اوائل عمری میں پکاسو اور صادقین کے نقوش پا کا تعاقب کرتے رہے۔
تین بہن، دو بھائیوں میں وہ دوسرے ہیں۔ بچپن میں شمار کم گو بچوں میں ہوتا تھا۔ لوگوں میں گھلنا ملنا پسند نہیں تھا۔ کرکٹ کے دل دادہ تھے۔ گنتی اچھے طالب علموں میں ہوتی۔ 86ء میں سائنس سے میٹرک کیا۔ انجینئر بننے کا ارادہ تھا، مگر کیمسٹری سے نبھ نہیں سکی۔ بہ مشکل انٹر کیا۔ اب پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں آگئے۔ اس میدان میں جم کر کام کیا۔ بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے بھی ڈیزائننگ کرچکے ہیں۔ مصوری کا تجربہ بھی خوب کام آیا۔
رنگوں کی لت تو بچپن ہی میں پڑ گئی تھی۔ پینسل کلر، مارکر اور واٹر کلر استعمال کیا کرتے تھے اس زمانے میں۔ 84-85 میں اقبال مہدی کی سرپرستی میسر آئی۔ ''پورٹریٹ'' اور''لینڈ اسکیپ'' توجہ کا مرکز تھے۔ رنگوں اور لکیروں کو گھوڑوں اور چیتوں کی صورت دی۔ کیلی گرافی بھی کرتے رہے۔ خطاطی کے نمونے ہی پہلی نمایش میں ظاہر ہوئے۔ کچھ عرصے کیلی گرافی توجہ کا مرکز رہی۔ آہستہ آہستہ مزاج بدلتا گیا۔ تجربات اور مشاہدات نئی سمتوں میں لے گئے۔ لکیریں پینٹنگز میں نمایاں ہونے لگیں۔
اِس وقت "Dead Lives" سیریز اُن کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اِس بابت کہتے ہیں،''لوگوں نے گھوڑے بھی پینٹ کیے، کبوتر بھی بنائے، لیکن یہ میرا اپنا آئیدیا ہے، جو منفی انسانی رویوں کے خلاف ہے۔ اِس سیریز کے ذریعے میں نے معاشرتی تضادات کی عکاسی کی۔ ہم زندہ تو ہیں، مگر یہ زندگی موت سے بدتر ہے۔ ہمیں خود کو تبدیل کرنا پڑے گا۔''
فن پاروں کی فروخت کا معاملہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''پینٹنگز کم ہی فروخت ہوتی ہیں۔ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے۔ میرے فن پارے سماج کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اب آئینہ کون دیکھنا چاہے گا؟ صادقین صاحب نے ایک بار کہا تھا؛ لوگ میری پینٹنگز اپنے گھر میں نہیں لگانا چاہتے، کیوں کہ وہ سچ سننے کو تیار نہیں۔ میرا بھی یہی معاملہ ہے۔''
آرٹ کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''فائن آرٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آرٹ بے قیمت ہوگیا ہے۔ اگر اِسے پیسے کے لیے کیا جائے، تو معاملہ کمرشل ہوجائے گا۔ اور کمرشل کام میں فائن آرٹ کی روح مر جاتی ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے ہاں ہے۔ میں ڈیمانڈ پر کام نہیں کرتا۔ اپنی خوشی کے لیے، اپنے نظریے کے تحت پینٹنگ کرتا ہوں۔ اگر اس کے عوض پیسے مل جائیں، تو ٹھیک ہے، ورنہ کوئی بات نہیں۔ جنھیں میرا آرٹ پسند ہے، وہ خریدتے ہیں۔ مگر نوجوانوں کو میں یہی مشورہ دوں گا کہ اِسے پیشہ نہ بنائیں۔''
صلاحیت کی، اُن کے مطابق، ہمارے ہاں کمی نہیں۔ معیاری کام سامنے آرہا ہے، اور سوشل میڈیا اِس کام کی تشہیر میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ ''آرٹسٹ اپنے فن پارے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر 'شیئر' کر رہے ہیں۔ لوکل سے زیادہ انٹرنیشنل مارکیٹ سے اُنھیں ردعمل مل رہا ہے۔ میلان میں ہونے والی میری نمایش بھی سوشل میڈیا ہی کے طفیل ممکن ہوئی۔ 'فیس بک' کے ذریعے میرا کام اس ایگزیبیشن کے منتظمین تک پہنچا۔ انھوں نے اسے پسند کیا۔ یوں میلان کے Torre Branca ٹاور میں میری پینٹنگز آویزاں ہوئیں۔''
اس سفر میں مشکل مراحل بھی آئے۔ نہ صرف نظرانداز، بلکہ رد کیا گیا، مگر رکے نہیں، چلتے رہے۔ بہ قول اُن کے،''آرٹسٹ اُس وقت مایوسی کا شکار ہوتا ہے، جب اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے۔ اس ضمن میں ہماری حکومت اور اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آرٹ ہی معاشرے کا حقیقی عکس ہے۔''
اپنے فنّی سفر سے مطمئن ہیں۔ کہنا ہے، اُنھوں نے معاشی تقاضوں کے باعث کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ تینوں سیریز کا ماخذ اُن کا اپنا ذہن ہے۔ ''یہ میرا اپنا اسٹائل ہے۔ میری شناخت ہے۔ مجھے اپنی پینٹنگز پر دست خط کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور مجھے اِس بات کا اطمینان ہے کہ اگر میں مر بھی گیا، تب بھی میرا کام باقی رہے گا۔''
اُن کی کسی پینٹنگ میں چہرے ہیں، کسی میں کبوتر، کسی میں گھوڑے، مگر ایک عنصر ہر فن پارے میں یک ساں ہے، لکیریں۔ کہیں نمایاں، کہیں مدھم، مگر ہر تصویر میں موجود۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''معاشرے کی جو امیج مجھے ملتی ہے، وہ ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہے۔ کیوں کہ معاشرے انتشار کا شکار ہے۔ یہی انتشار، یہی تضادات میں کینوس پر منتقل ہوتا ہے۔''
یوں تو ہر قسم کے رنگ برتے، مگر Acrylic رنگ زیادہ بھاتے ہیں۔ میلان کے Torre Branca ٹاور میں ہونے والی نمایش سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ والد کے انتقال کے سمے گہرے کرب سے گزرے۔ یہ سانحہ 91ء میں پیش آیا۔
مصوروں میں پکاسو اور صادقین کو سراہتے ہیں۔ "Dead Lives" سیریز میں جب چہرے پینٹ کرنے شروع کیے، تو اُن میں پکاسو کی جھلک نظر آتی تھی، مگر جلد اپنا رنگ دریافت کر لیا۔ جمیل نقش اور مشکور رضا کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ بیش تر آرٹ گیلریز، اُن کے مطابق کمرشل بنیادوں پر کام کررہی ہیں، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں، جو نئے آرٹسٹوں کو پرموٹ کرتی ہیں۔ گھر ہی اُن کا اسٹوڈیو ہے۔ وہیں پینٹنگ کرتے ہیں۔
عامر کھتری پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ لتا اور کشور کی گائیکی اچھی لگی۔ تیز موسیقی کبھی اچھی نہیں لگی۔ فلمیں کم ہی دیکھتے ہیں، البتہ شاہ رخ خان اور کرینہ کپور کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ 2003 میں شادی ہوئی۔ تین بیٹیاں، ایک بیٹا ہے۔ خاصے مصروف رہتے ہیں، دن میں دفتر، شام میں مصوری؛ مگر گھر والوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی۔ بیگم کا بھی اِس ضمن میں تعاون حاصل رہا۔ خواہش ہے کہ مستقبل میں بیوہ اور یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کریں۔