پاک ایران اسٹرٹیجک معاہدہ اور سفری سہولیات

پاکستان اور ایران کے درمیان 5 سالہ اسٹرٹیجک معاہدے کا طے پانا خوش آیند ہے



پاکستان اور ایران کے درمیان 5 سالہ اسٹرٹیجک معاہدے کا طے پانا خوش آیند ہے جس میں باہمی تجارت کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا طے کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ گیس منصوبہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے۔

یہ منصوبہ اگر 1980 اور 1990 کی دہائی میں ہی مکمل ہو جاتا تو نئی صدی کے آغاز کے بعد سے جس طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس سے بچت ہو جاتی۔ لیکن ہمارے ہاں معاشی پالیسیوں میں دور اندیشی ، مستقبل کی ضروریات، ان کے لیے منصوبہ بندی کرنا اور طے کردہ امور کو ہر صورت منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے کئی اقسام کی رکاوٹوں کو دورکرنے کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔

صرف گیس پائپ لائن منصوبے کو لے لیجیے، گزشتہ دہائی کے آغاز کے بعد ایران نے گیس پائپ منصوبے کے تحت اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا تھا، لیکن پاکستان عالمی رکاوٹوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس منصوبے پر عمل درآمد سے گریزاں رہا۔ اسی طرح پاکستان تیل کی خریداری سے بھی کنارہ کش رہا، جب کہ بھارت، ترکی وغیرہ ایرانی تیل کے خریدار رہے اور ترکی کو گیس بھی سپلائی کی جاتی ہے، جب کہ ایران اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ پاکستان کی توانائی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیار ہے۔

معاہدے کے مطابق 6 راہداریاں بنائی جا رہی ہیں۔ ایک موقع پر سیستان (ایران) کے گورنر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بے شمار باہمی تجارت کے مواقع موجود ہیں۔ کراچی کے علاوہ بلوچستان میں کئی مارکیٹیں ایسی ہیں جہاں ایرانی مصنوعات کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ ایرانی تیل بھی غیر قانونی طور پر لا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔

اب جب کہ پاک ایران سرحد پر 6 منڈیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ایندھن کی ترسیل کے لیے بھی 6 گزر گاہیں بنائی جا رہی ہیں، ٹڈاپ کے سی ای او زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ بارٹر تجارت کے تحت ایران میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔

صدیوں قبل سے کئی ایسے راستے جنھیں تجارتی راستے کہا جا سکتا ہے جن راستوں کے ذریعے تجارتی قافلے اور زیارتی قافلے برصغیر پاک و ہند سے ایران بھی جایا کرتے تھے، سیستان ایران کے حوالے سے کئی عشرے قبل تک کئی قصے اور کہانیاں زبان زد عام تھیں، اسی طرح پاکستان اور برصغیر اور ارد گرد کے ممالک میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ (اصفہان، نصف جہان) ہے۔

اسی طرح ایران سے تعلق رکھنے والے کئی شخصیات مغل بادشاہوں کے دربار میں نہایت ہی اہم عہدوں پر فائز تھے، اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کے عوام اور ایران کے عوام کے تجارتی تعلقات کے علاوہ باہمی تعلقات آپس میں رشتے داریاں، بعض مذہبی معاملات میں ہم آہنگی موجود تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں پر ایرانی تہذیب و تمدن کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔

1964 میں آر سی ڈی معاہدہ ہوا تھا جس کے ممبر ممالک پاکستان، ایران اور ترکی تھے۔ 1978 تک اس معاہدے میں بڑی گرم جوشی رہی اور کئی پراجیکٹ پر کام بھی ہوا۔ پھر 1990 کے بعد اسے مزید وسعت دیتے ہوئے روس سے آزاد ہونے والے ممالک بھی شامل ہوگئے، لیکن جلد ہی یہ غیر فعال ہوگیا۔ کچھ عرصے سے اسے مزید فعال بنایا جا رہا ہے۔

آر سی ڈی کے حوالے سے پاکستان اور ایران دریکو کے اہم ترین ممبر ممالک ہیں۔ ایران تجارت کے حوالے سے ٹاپ ٹوئنٹی ممالک میں شامل ہے۔ ایران پاکستانی چاول کا بہت ہی بڑا خریدار ہے اور پاکستان کو تیل اور گیس کی انتہائی سخت ترین ضرورت ہے، اس کے علاوہ پاکستان اور ایران ڈی ایٹ کے بھی رکن ہیں۔

یہ ان آٹھ اسلامی ممالک کی تنظیم ہے جن کی آبادی زیادہ ہے، ملائیشیا بھی اس تنظیم کا رکن ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی خاطر ایران پیش پیش رہا تھا، لیکن اب یہ تنظیم بھی غیر فعال ہے ۔ بہرحال طویل عرصے بعد ہونے والے معاہدے کا باہمی حجم 5 ارب ڈالر کا حصول قطعی ناممکن نہیں ہے۔

اس میں باآسانی اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ بارٹر تجارت کے حوالے سے بعض اصلاحی اقدامات کے ذریعے تجارت کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔ ادھر پاکستان کے لیے آسیان ممالک سے تجارت بڑھانے کے بہت سے مواقع موجود ہیں، اس سلسلے میں آسیان کا 50 رکنی تجارتی وفد پاکستان آ چکا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا 50 رکنی غیر ملکی تجارتی وفد ہے اور اس وفد کے ارکان کا تعلق آسیان ممالک سے ہے۔ اس کے علاوہ یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ملائیشیا کا 18 رکنی تجارتی وفد بھی جلد پاکستان پہنچ رہا ہے۔

ملائیشیا D-8 سے جڑا ہوا ایک ملک ہے اور پاکستان بھی اس کا ممبر ملک ہے۔ اس تنظیم میں شامل 8 ممالک کی مجموعی آبادی تقریباً 90 کروڑ تک ہے۔ ان میں سے کئی ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ دنیا کی مجموعی تجارت میں ان ملکوں کا مجموعی حصہ تقریباً 14 فیصد ہے۔ بہرحال ملائیشیا کے تجارتی وفد کی آمد سے پاکستان خاطر خواہ تجارتی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔

صوبہ سندھ کی حکومت کا یہ اقدام خوش آیند ہے کہ عوام کو سفری سہولیات اور کم کرائے کے لیے بسوں کی فراہمی کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی کے لیے مزید روٹس کا اجرا کیا گیا ہے لیکن اب بھی کئی علاقوں کے لوگ حکومتی بسوں کے ذریعے سفر سے محروم ہیں۔

گلستان جوہر سے نئی بس روٹ کا اجرا کرتے وقت گلستان جوہر بلاک 1، بلاک 2 اور بلاک 3 کے عوام کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اس بارے میں اور دیگر علاقوں کے بارے میں غور فرمائیں۔ کیونکہ مہنگائی کے اس عالم میں اگر ہر علاقے کو بہتر سفری سہولیات میسر ہوں تو ایسی صورت میں کئی فوائد حاصل ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں