پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی 16ماہ کی حکومت
حکمران اتحاد کو لگتا ہے کہ بروقت انتخابات میں ان کو سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
پی ڈی ایم اور ان کے اتحادیوں کی 16ماہ کی حکومتی کارکردگی پر بنیادی نوعیت کا یہ سوال اہمیت رکھتا ہے اور تجزیہ طلب ہے کہ کیا بطور ریاست ہم سیاسی ، جمہوری ، آئینی ، قانونی اور معاشی طور پر آگے بڑھے ہیں یا ان تمام معالات میں ہماری کارکردگی وہ نہیں جو ہونی چاہیے تھی ۔رجیم چینج کے بعد کا سیاسی اور حکومتی منظرنامہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی بیانیہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے ۔
پی ڈی ایم کا حکومت سنبھالنے سے قبل بیانیہ تھا کہ کپتان کی حکومت تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے ۔ حکومت سنبھالتے ہی پی ڈی ایم اور ان کی اتحادی حکومت کا موقف تھا کہ ہم میں کیونکہ حکمرانی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اورہمیں سیاست، معیشت اور گورننس سمیت ملکی معاملات کو چلانے کا تجربہ اور صلاحیت دونوں موجود ہیں ۔اسی بنیاد پر پی ڈی ایم اور ان کی اتحادی جماعتوں کا موقف تھا کہ ہم چھ ماہ میں ایسی تبدیلیاں لائیں گے جو شفاف بھی ہونگی اور سیاسی ومعاشی بنیادوں پر بنیادی نوعیت پر مبنی اہم اصلاحات سب کو نظر آئیں گی، مگر یہ سب کچھ ممکن نہ ہوسکا ۔
سب سے اہم مسئلہ یا ناکامی، جمہوری عمل یا آئینی و قانون حکمرانی کی سیاسی پسپائی کا ہے ۔ سیاسی ، جمہوری ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی آزادی یا پارلیمانی سیاست سمیت پارلیمنٹ کی بالادستی کے سوالات پیچھے رہ گئے ہیں ۔
اس حکومت نے بڑی دیدہ دلیری یا سمجھوتوں کی سیاست یا اپنی داخلی سطح کی کمزوریوں کے باعث جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کی بجائے غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط بنایا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب ان حالات میں فیصلہ سازی کا بڑا اختیار سیاسی قوتوں کے پاس کم اور غیر سیاسی قوتوں کے پاس زیادہ چلا گیا ہے ۔
حکومتی اتحادی جماعتوں نے خود سے اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ کر جمہوری پسپائی کا ماحول پیدا کیا ہے ۔اگر کپتان کی حکومت اسکرپٹ کے تحت آئی تھی اور اسے ہر محاذ پر اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اور ان ہی کے مرہون منت کھڑی تھی تو آج کا سیاسی منظر نامہ کیا ہے اور یہ جمہوری عمل کن کے سہاروں کی بنیاد پر کھڑا ہے اور کون اس نظام کی پشت پناہی کررہا ہے و ہ بھی سب پر واضح ہے کہ جمہوری عمل کی یہ سیاسی ٹرین کس پلیٹ فارم پر اور کس کے سہارے کھڑی ہے۔
پارلیمنٹ کی بے توقیری اور جس عجلت میں غیر جمہوری اور آئین شکنی پر مبنی قانون سازی کی گئی ہے وہ بھی پارلیمانی بالادستی پر سوالیہ نشان ہے ۔سیاسی ، جمہوری آزادیاں ، فکری آزادیاں یا میڈیا یا سول سوسائٹی کی آزادیوں سمیت انسانی حقوق کا مقدمہ اور اقدامات کمزور سیاسی نظام کی نشاندہی کرتا ہے ۔
مسئلہ محض معیشت یا سیاست کی بحالی کا ہی نہیں بلکہ ادارہ جاتی محاذ پر ہم کئی طرح کے پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ بگاڑ یا شدت کو دیکھ رہے ہیں۔
سب سے اہم بات اس موجودہ حکومت کی مدت کے ختم ہونے اور نگران حکومت بننے کے بعد ملک میں ایک ہیجانی اور سیاسی ابہام کی کہانی غالب ہے ۔ نگران حکومت کے بننے کے باوجود عام انتخابات مقررہ وقت یعنی 90دن میں ممکن ہوسکیں گے یا نہیں اس پر بھی کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں ۔
نئی مردم شماری کے نتائج کو بنیاد بنا کر حکمران اتحاد نے بروقت انتخابات پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول انتخابات کسی بھی صورت میں اب مقررہ وقت پر نہیں ہونگے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ نگران حکومت جلد ہی ایک عبوری حکومت میں تبدیل کردی جائے گی جو لمبی مدت کے لیے ہوگی ۔
اگرچہ اگلے برس مارچ میں انتخابات کا نیا عندیہ دیا جارہا ہے مگر کیا ایسا ممکن ہوسکے گا ، اس پر بھی ابہام ہے ۔ ایک بار انتخابات میں تاخیر سے جو ٹرین پٹری سے اترے گی تو اسے دوبارہ پٹری پر چڑھانا آسان نہیں ہوگا ۔
ایک بنیادی مسئلہ معیشت کی بحالی ، مہنگائی کا خاتمہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ تھا جو لوگوں کو معاشی طور پر ریلیف دیتا مگر جو کچھ معیشت کے نام پر کیا گیا وہ واقعی خوفناک عمل ہے ۔
اس وقت حکمران اتحاد میں یہ بات چل رہی ہے کہ ایسے بدترین معاشی حالات میں بروقت انتخابات کا راستہ سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا جو ان کو کسی بھی صورت قبول نہیں ۔ انتخابات کی بنیادی شرط حکمران اتحاد میں یہ ہی پائی جاتی ہے کہ پہلے پی ٹی آئی اور کپتان کا سیاسی سطح پر بندوبست کیا جائے یا ان کی مقبولیت کو لگام دی جائے یا ان کو سیاسی طور پر نااہل کیا جائے یا گرفتار کیا جائے تو انتخابات کے نتائج ان کے حق میں ہوسکتے ہیں ۔لیول پلینگ فیلڈ کا بنیادی نقطہ ایک جماعت کو پابند کرنا یا ان کو دیوار سے لگانا ہے ۔
انتخابات کے نہ ہونے کی وجہ بھی انتظامی یا قانونی مسائل نہیں بلکہ سیاسی مسائل ہیں جو ایک بڑی جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
حکمران اتحاد کو لگتا ہے کہ بروقت انتخابات میں ان کو سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔پی ٹی آئی سے نمٹنے کی حکمت عملی میں بھی ہمیں سیاسی حکمت عملی کے مقابلے میں انتظامی اور قانونی حکمت عملی کا عمل زیادہ غالب نظر آتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں سیاسی توڑ پھوڑ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے ہم انتخابات سے پہلے ہی انتخابی عمل کو متنازعہ بناکر اس کی ساکھ کو بھی خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔
بنیادی طور پر سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کا نہ ہونا یا ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا اور سیاسی مسائل کا حل سیاسی بنیادوں پر حل نہ کرنے کی روش نے بھی ہمیں جمہوری سیاسی تنہائی دی ہے جو حالات کی سنگینی کے پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے۔
حکومت ہو یا حزب اختلاف سیاسی جماعتوں یا سیاسی قوتوں سمیت ان کی قیادت نے سیاسی سمجھ بوجھ کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جو کیا جانا چاہیے تھا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس سارے عمل کا فائدہ ان قوتوں کو ہوا ہے جو ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔
بھارت، افغانستان سے پاکستان تعلقات ، ٹی ٹی پی ، دہشت گردی جیسے معاملات پر بھی کوئی بڑی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی ۔اگرچہ بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ کئی ممالک کے طوفانی دورے کیے مگر عملی طور پر ہماری سیاسی اور علاقائی تنہائی پر آج بھی سوالیہ نشان ہیں ۔
ایک سوال شہباز حکومت میں یہ بھی بنتا تھا کہ اگر سارے معاملات جن میں معیشت، زراعت، دنیا سے پیسے لانے یا دیگر معاملات میں کسی اور قوت نے ہی اپنا کردار ادا کرنا ہے تو پھر سیاسی حکومت کا سیاسی بوجھ بطور ریاست کیونکر اٹھایا جائے ۔
پی ڈی ایم کی حکومت کا بنیادی نقطہ ہی یہ رہا کہ ہم نے ریاست کو بچا کر اپنی سیاست کی قربانی دی ہے ، مگر عوام کو واقعی ڈیفالٹ کردیا گیا ہے ۔ اصل مقدمہ جمہوریت کی کمزوری کا ہے اور اس مختلف مناظر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبورکرتے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔