مضاربت بے روزگاری ختم کرنے کا بہترین ذریعہ

’’حلال روزگار تلاش کرنا دیگر فرائض کے بعد ایک فرض ہے۔‘‘ (روا البیہقی)

فوٹو : فائل

شریعت اسلامیہ نے حلال روزی کمانے کے جو طریقے جائز قرار دیے ہیں ان میں سے ایک مضاربت بھی ہے۔

شریعت اسلامی میں مضاربت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کا مال ہو اور دوسرا شخص محنت کرے اور منافع دونوں کے درمیان تقسیم ہو جائے۔


لفظ مضاربت اصل میں لفظ ضرب سے بنا ہے جس کا معنی ہے سفر کرنا۔ چوں کہ تجارتی معاملات میں عموماً سفر کرنا پڑتا ہے اس لیے اس کا نام مضاربت رکھ دیا گیا۔مضاربت کا معاملہ عہد جاہلیت میں بھی جانا پہچانا تھا۔ اسلام نے اسے جاری رکھا کیوں کہ اس طریقے سے معاملات کو اچھے طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے۔

اسلام ہمیشہ ہر کام میں اصلاح سے کام لیتا رہا ہے، اگر کسی معاملہ میں بُرائی ہے تو اسلام نے اس سے منع کیا اور اگر تجارت کا کوئی طریقہ زمانہ اسلام سے پہلے جاری تھا تو اسلام نے صرف اس لیے اس معاملہ سے منع نہیں کیا کہ یہ زمانہ جاہلیت کا طریقہ تھا بل کہ اسلام نے ایسے معاملات کو اس طرح پرکھا کہ کیا لوگ اس سے برائی میں مبتلا تو نہیں ہو جائیں گے۔

کیا اس طریقہ سے لوگوں کے درمیان معاملات کی خرابیاں تو پیدا نہیں ہوں گی، کیا یہ طریقہ احکام اسلام کے خلاف تو نہیں، اگر اس قسم کی برائیاں اس معاملے میں موجود نہ ہوں تو اسلام نے کھلے دل سے اس کی اجازت دی۔

مضاربت یعنی ایک کا مال دوسرے کی محنت اور منافع دونوں میں تقسیم ہو جائے۔ اس معاملہ کا ثبوت اجماع سے ملتا ہے۔ درحقیقت مضاربت کے جائز ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔

پہلی مثال حضرت عمرؓ کے دو صاحب زادوں عبداﷲ اور عبیداﷲ کا واقعہ ہے۔ علامہ عبدالرحمن الجزیری نے کتاب الفقہ جلد دوم میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبداﷲ اور ان کے بھائی عراقی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان دنوں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بصرہ کے گورنر تھے۔

یہ دونوں بھائی ان کے پاس ٹھہرے ابوموسیٰ اشعریؓ نے ان سے کہا کہ میں کچھ مال امیرالمؤمنین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، تم یہ مال لے لو اور عراق سے مال تجارت خرید کر مدینہ میں جا کر فروخت کر دینا اور منافع تقسیم کر لینا۔ چناں چہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ نے اسے قبول کر لیا۔

اگر آج بھی ہمارے معاشرہ میں مضاربت عام ہو جائے تو پھر چُھپا ہوا سرمایہ بھی گردش کرنے لگے گا اور بے روز گاری پر قابو پا یا جا سکے گا۔


اور وہ اس طرح کہ ہم اپنے معاشرے میں بہت سے لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے پاس تعلیم کا زیور ہے یا تجارتی تجربہ خوب ہے لیکن سرمائے کے نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں مبتلا ہیں، اب ایسے لوگ سامنے آئیں جن کے پاس پیسا تو ہے لیکن ان کے پاس کام کرنے کا وقت نہیں یا انہیں تجربہ نہیں۔ تو پھر ایسے لوگ اپنا پیسا باہر نکالیں اور کام کریں اور اس طرح منافع بھی ملے گا اور دوسرے مسلمان بھائی کی بے روزگاری بھی دور ہو جائے گی۔ لیکن اس معاملۂ مضاربت کے بھی چند آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک آدمی صرف مال دے گا اور دوسرا آدمی صرف محنت کرے گا۔ اور دونوں آپس میں منافع طے کریں کہ کل منافع کا کتنا مالکِ مال کو ملے گا اور کتنا محنت کرنے والے کو۔ اب اگر کاروبار میں نقصان ہوا تو نقصان صرف مال کے مالک کا ہوگا۔

محنت کرنے والا نقصان کا ذمے دار نہ ہوگا۔ اس لیے مضاربت کرنے کے لیے محنت کرنے والا بااعتماد اور دیانت دار ہونا چاہیے۔ اور منافع بھی اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پہلے اصل مال کو الگ کر کے باقی جو بچے گا وہ منافع ہوگا۔

منافع کی تقسیم میں شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ چاہے دونوں شخص آدھا آدھا منافع کر لیں اور چاہے مالک مال کم منافع اپنے لیے طے کرے اور زیادہ محنت کرنے والے کے لیے یا کم طے کرے۔ یہ تو دونوں کی آپس میں رضا مندی سے پہلے ہی سے طے کرنا ہوگا۔

معاملہ مضاربت کے لیے بہت بڑی رقم یا بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت نہیں اور نہ اس کے لیے کسی بہت بڑے تجارتی ادارے کی ضرورت ہے آپ اپنی تن خواہ میں سے ہر ماہ کچھ بچا لیا کریں۔ جب چند ہزار جمع ہو جائیں تو دیکھیے آپ کے محلہ میں کوئی غریب بیوہ عورت رہتی ہے تو اسے یہ رقم دے دیجیے اور اس سے کہیں کہ وہ ایک سلائی مشین خریدلے اور کپڑے سینا شروع کر دے اور جتنا منافع ہو اس میں سے آدھا تمہارا آدھا میرا یا زیادہ منافع بیوہ کو دینا طے کر لیں اور کم اپنے لیے اسی طرح آپ نے کچھ رقم بچت کر کے جمع کر لی۔

آپ اپنے احباب میں اپنے محلہ میں نگاہ ڈالیں اگر کوئی بے روزگار ہے یا عیال دار ہے گھریلو حالت بیچارے کی بہت گئی گزری ہے آپ اپنی رقم اسے دے دیں اور اسے کہیں کہ چھوٹی سی دکان ڈال لے اور جو منافع ہوگا، وہ آپس میں طے کر لیں آپ کی اصل رقم بھی محفوظ رہے گی اور منافع بھی ملتا رہے گا۔ لیکن اب یہ کام آپ کا ہے کہ آپ کسی بااعتماد شخص کو تلاش کریں اور خوب چھان بین کر کے اسے رقم دیں۔

اور باقاعدہ قانونی طور پر رسید لیں کیوں کہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے اختیار کرنے کا حکم اﷲ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کے انتالیسویں رکوع میں دیا اور فرمایا کہ ایسے معاملات کو باقاعدہ لکھ لینا چاہیے اور دو گواہ بھی اس معاملہ پر لینے چاہییں۔

اگر واقعی ہم اپنے معاملات کو اتنے عمدہ طریقوں سے انجام دیں خصوصاً اپنے معاشرے میں مضاربت کو رائج کریں تو ایک طرف سرمایہ بے کار پڑا نہیں رہے گا۔ دوسری طرف ہمیں بچت کی عادت پڑے گی اور سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوگا کہ مضاربت کے ذریعہ بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے گا۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال روزی کمانے اور اس پر قناعت کی توفیق عطا فرمائے۔
Load Next Story