خواب قرآن و حدیث کی روشنی میں
اچھا خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے
اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کا علم عطا کیا تھا، یعنی انہیں لاشعوری حواس کا پورا علم تھا۔ لاشعوری حواس کے علوم انسان کو ٹائم اور اسپیس کی حد بندیوں سے آزاد کر دیتے ہیں اور خواب کے علوم جاننے والے پر الگ عالم کی دنیا روشن ہو جاتی ہے۔
قرآن حکیم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو بیان کر کے ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ خواب صرف خیالات نہیں ہیں، بل کہ اس کی تعبیر علومِ انبیاء میں سے ہے، یعنی خواب کی کچھ خاص اہمیت ہے۔
مفہوم: ''اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں (نبوت کے لیے) منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا۔'' (جس میں خوابوں کی تعبیر کا علم بھی داخل ہے) (سورہِ یوسف) انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو جاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
خلاصۃ التفاسیر میں ہے کہ خواب میں روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیر کرتی ہے جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ کچھ دیکھتی ہے۔ اس لیے خواب میں ایسے احوال و کیفیات مشاہدے میں آ تے ہیں جن سے خود خواب دیکھنے والے کو بڑی حیرت ہوتی ہے، کبھی مسرت انگیز اور کبھی خوف ناک تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں اور بیداری کے ساتھ ہی یہ تمام کہانی یک لخت مٹ جاتی ہے۔
قرآن کے متعدد مقامات میں مختلف نوعیتوں سے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اور احادیث میں بھی رسول اکرم ﷺ نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ انبیائے کرامؑ کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان اور برکات نبوت سے ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اس سے مراد علم نبوت ہے یعنی رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جزو حصہ ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
غور کیا جائے تو اس حدیث میں آپ ﷺ نے اچھے اور بہتر خواب کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔
خواب کی اقسام:
پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اور اس کے دل و دماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں مثلاً ایک شخص اپنے پیشے و روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن و خیال ان ہی باتوں کی فکر اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشے و روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، غرض کہ عالمِ بیداری میں جس شخص کے ذہن و خیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔
دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ جب ہم ڈراونا خواب دیکھتے ہیں تو طبعیت پر ایک بوجھ محسوس کرتے ہیں، کیا شان ہے ہمارے نبی ﷺ کی کہ ان کی احادیثِ مبارکہ کے ذریعے ہر بات کی راہ نمائی ملتی ہے، حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرا سر کاٹ دیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ مسکرا دیے اور فرمایا: ''جب شیطان کسی سے اس کی نیند میں کھیلے تو وہ لوگوں کو نہ بتائے۔'' (رواہ مسلم)
شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گم راہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چناں چہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اور ڈرانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔
کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل و صورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوف زدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ۔
تیسری قسم وہ ہے جس کو من جانب اﷲ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں اور ہمارے پاس ابن طاب کی کھجوریں لائی گئیں، میں نے یہ تاویل کی کہ دنیا میں ہمارے لیے رفعت ہے اور آخرت میں نیک عاقبت ہمارے لیے ہے، اور ہمارا دین یقیناً کامل و احسن ہے۔'' (رواہ مسلم)
''حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اور اس کے قلب کے آئینے میں بہ طورِ اشارات و علامات ان چیزوں کو دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہیں یا جن کا تعلق مومن کی روحانی و قلبی بالیدگی و طمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اور جس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔'' (بہ حوالہ: مظاہر حق جدید)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے اچھے اور بہتر خواب کی درج ذیل صورتیں بیان کی ہیں: ''نبی اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھنا۔ جنت یا جہنم کو خواب میں دیکھنا۔ نیک بندوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کو خواب میں دیکھنا۔ مقاماتِ متبرکہ جیسے بیت اﷲ کو خواب میں دیکھنا۔ آئندہ پیش آنے والے واقعات کو خواب میں دیکھنا، پھر وہ واقعہ ویسا ہی رونما ہو جیسا اس نے دیکھا ہے۔ کھانوں کو خواب میں دیکھنا مثلاً دودھ، شہد اور گھی کا پینا۔ ملائکہ کو خواب میں دیکھنا۔'' (بہ حوالہ: حجۃ اﷲ البالغہ)
خواب کے آداب
آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندے کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے۔'' (مشکوٰۃ)
رات کے آخری حصے کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی)
پچھلا پہر عام طور پر دل و دماغ کے سکون کا وقت ہوتا ہے، اس وقت ناصرف یہ کہ خاطر جمعی حاصل رہتی ہے بل کہ وہ نزول ملائکہ، سعادت اور قبولیت دعا کا بھی وقت ہے۔ اس لیے اس وقت کا دیکھا ہوا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے تاہم کسی خواب کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے اور اس کا وقوع یقینی ہے۔ اس لیے کہ اچھا خواب اﷲ کی طرف سے محض ایک راہ نمائی اور بشارت ہوتی ہے کوئی حجت شرعی نہیں۔
خواب کی تعبیر:
مفہوم: (یہ اس وقت کی بات ہے) جب یوسفؑ نے اپنے والد (یعقوبؑ) سے کہا تھا: ابا جان! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: بیٹا! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، ورنہ وہ چلیں گے تیرے ساتھ کوئی چال ،کیوں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (سورہ یوسف)
علمائے کرام ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ کو معلوم تھا کہ یوسفؑ نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ یوسفؑ کو اتنا اونچا مقام ملنے والا ہے کہ سب کسی وقت ان کے مطیع اور فرماں بردار ہوجائیں گے، دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ حضرت یعقوبؑ کے کل بارہ بیٹے تھے۔
ان میں سے دو بیٹے یعنی حضرت یوسفؑ اور بنیامین ایک والدہ سے تھے اور باقی بیٹے ان کی دوسری اہلیہ سے تھے، حضرت یعقوبؑ کو اندیشہ ہوا کہ دوسرے سوتیلے بھائیوں کو اس خواب کی وجہ سے حسد نہ ہو، اور شیطان کے بہکائے میں آکر یوسفؑ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر بیٹھیں۔ یعنی خواب حسد کا باعث بھی ہوتا ہے۔
نبی ﷺ کا یہ فرمان ہمیں اس شر سے بچنے کی راہ دکھاتا ہے، مفہوم: ''اچھا خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسند نہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہیے اور (اپنی بائیں طرف) تین مرتبہ تھتکار دے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا۔ (بہ حوالہ: بخاری، کتاب التعبیر)
خواب کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ مبارک معمول تھا کہ جب صبح کی نماز آپؐ پڑھا لیتے تو صحابہؓ کی طرف چہرہ اقدس پھیر کر تشریف فرما ہوتے اور پوچھتے، مفہوم: ''تم میں سے کس نے پچھلی رات کوئی خواب دیکھا ہے۔'' (صحیح مسلم،، کتاب الرؤیا)
انسان کی نصف زندگی خواب ہے اور نصف زندگی بیداری ہے۔ غور کیا جائے تو خواب ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، اکثر لوگ خواب کو مذاق سمجھتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں، قرآن اور حدیث میں اس کی اہمیت وضاحت سے ہے۔