عالمی معیشت کو درپیش چیلنجز اور پاکستان

نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے

نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ فوٹو: فائل

عالمی مالیاتی فنڈ نے کہا ہے کہ عالمی معیشت ترقی کر رہی ہے لیکن ابھی مسائل ختم نہیں ہوئے۔

آئی ایم ایف نے اپنے ایک بلاگ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی معیشت '' کورونا '' وبا اور یوکرین جنگ کے منفی اثرات سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم ابھیتک عالمی معیشت کو مختلف مسائل درپیش ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے مزید کہا کہ رواں سال اور آیندہ سال بین الاقوامی معیشت کی شرح نمو 3فیصد رہنے کا امکان ہے جب کہ قبل ازیں اس حوالے سے 3.5فیصد شر ح نمو کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی طرح افراط زر کی عالمی شرح گزشتہ سال کی 8.7فیصد کے مقابلے میں رواں سال کے دوران 6.8 فیصد تک کم ہونے کا امکان ہے جب کہ 2024میں افراط زر کی عالمی شرح 5.2 فیصد تک کم ہونے کا امکان ہے۔

عالمی معیشت کو بدستور خطرات لاحق ہیں اور گزشتہ کئی سال سے جاری مختلف بحرانوں کے ہاتھوں عالمی معیشت مشکلات سے دوچار ہے۔ پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور کوئی بھی ملک عالمی کساد بازاری اور سست روی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

کساد بازاری اور معاشی سستی کی وجہ سود کی بھاری شرح، یوکرین پر روس کے حملے کے اثرات اور کورونا وبا کے وہ طول پکڑتے اثرات ہیں جنھوں نے دنیا کے بیشتر ملکوں کی معیشتوں کو بری طرح تباہ کردیا تھا اور زیادہ تر ممالک ابھی تک اپنی معیشتوں کو بحال نہیں کر سکے ہیں۔ دوسری جانب ورلڈ بینک کی یہ بھی پیش گوئی ہے کہ دو ہزار چوبیس میں یہ شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ جائے گی۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت دو ہزار تئیس میں پانچ اعشاریہ چھ فیصد شرح نمو حاصل کر لے گی، ورلڈ بینک کے مطابق عالمی تجارت خاصی سست روی کا شکار رہے گی جب کہ توانائی اور دوسری اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بڑی کمی آئے گی۔

ایسے حالات میں کہ ورلڈ بینک کی طرف سے مزید معاشی سستی اور کساد بازاری کی پیش گوئی کی جارہی ہے عوام کو ذہنی طور پر مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔

2023 اقتصادی بحالی کا سال ہونا چاہیے۔ ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقعوں و انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔

اس لیے ہم ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان1947کی بہ نسبت آگے اور ایک مضبوط ایٹمی ملک ہے، اگر سیاسی قیادت لوگوں کی صحیح رہنمائی کرے تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے لیکن اصل چیز یہ ہے، کہ سیاستدان کب ملک کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گے، ویسے بھی کہتے ہیں کہ ملک سیاستدانوں نے بنایا تھا، سیاستدان ہی اُس کو چلا سکتے ہیں اور اگر سیاستدان ہی اُس کے مسائل کی جڑ ہیں تو مسائل کا حل بھی وہی نکال سکتے ہیں کیونکہ ٹیکنو کریٹ یا اِس طرز کا نظام حکومت پاکستان کو کبھی موافق نہیں آیا۔

میثاق معیشت کے لیے ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کے روادار سیاست دان اکٹھے ہو گئے تو یقینا پاکستان نہ صرف مشکلات سے نکل جائے گا بلکہ پاکستان کو کسی کی شرائط بھی نہیں ماننا پڑیں گی۔

پاکستان میں جاری معاشی بے ضابطگیوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ توانائی کے شعبے کا خسارہ 2500 ارب روپے گردشی قرضے سے تجاوز کر چکا ہے۔ پاکستان میں حکومت کا خاطر خواہ ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ کرنے کے پیچھے غیر موثر ٹیکس اصلاحات ہیں۔

بہت سے سروس سیکٹرز اور کاروبار آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ آج بھی زرعی آمدن پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا جب کہ ملک میں ایک کثیر تعداد بڑے زمینداروں کی موجود ہے، ہمیں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہو گا۔ وہ ملک جو قرضوں پہ چلتا ہو، ادھر ایسے ریفارمز کی سخت ضرورت ہے۔ بہت سے کاروباری حکومت کی جانب سے صارفین سے وصول کیے جانے والے سیلز ٹیکس حکومت کو پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے۔


کاروباری حضرات اور ٹیکس حکام کی ملی بھگت اور سسٹم میں موجود خامیوں کی وجہ سے ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ ٹیکس کے محکمے میں بھی ریفارمز کی شدید ضرورت ہے جس میں نئی بھرتیاں اور ریگولیٹری قوانین سر فہرست ہیں۔

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو اس میں اتنا تیل ہے کہ وہ50سال تک ملکی ضروریات پوری کرسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہے۔

پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، پنجاب کی زمین تقسیم برصغیر سے قبل نہ صرف پورے ہندوستان کو غذائی اجناس فراہم کرتی تھی بلکہ دوسرے ممالک میں بھی بھیجی جاتی تھیں اور اب بھارت اپنی مشرقی پنجاب کی نسبتاً کم زرخیز زمینوں سے جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے اتنی پیداوار حاصل کر رہا ہے جو ہمارے ہاں ہونے والی فی ایکڑ پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔

اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں و کاشت کاروں کو سہولتیں دی جائیں اور انھیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چند برسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔

مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے 5سالوں میں بہتر رجحانات و مارکیٹینگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو 40 ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف بجلی کی شدید قلت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ محفوظ کیے جانے والے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

پھلوں و سبزیوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھنے اور ان کی پروسیسنگ کا وسیع تر بندوبست کرکے انھیں بیرونی ممالک میں بھجوا کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور مقامی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔

تیل و گیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلے اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کے مقابلے ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ موجودہ حالات میں قومی کفایت شعاری اور ایکسپورٹ لیڈ انڈسٹریل گروتھ و ڈویلیپمنٹ پروگرام اہم ہے جو دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔

2008سے 2023 تک معاشی ابتری کے سال رہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت معاشی حوالے سے پاکستان سے آگے نکل گئے۔ اس عرصے کے دوران کرپشن اور منی لانڈرنگ کے میگا اسکینڈلز منظر عام پر آئے۔

معاشی گروتھ کی رفتار سست رہی۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم تشویش ناک حد تک بڑھ گیا۔ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ ٹیکس نیٹ وسیع نہ کیا جا سکا، خاندان امیر ہوگئے اور پاکستان غریب ہو گیا۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی۔ پاکستان کے تمام معاشی اور انتظامی انڈیکیٹرز دنیا کے مقابلے میں بہت نیچے چلے گئے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دس کروڑ شہری غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ احتساب کے ادارے کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔ ریاست تسلسل کے ساتھ عدم استحکام کا شکار رہی۔ بلدیاتی انتخابات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔

پالیسیوں کا تسلسل جاری نہ رکھا جا سکا 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے کے بعد بھی وفاقی حکومت کے محکمے اور اخراجات کم نہ کیے گئے۔

جن ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے سفارشات تیار کی گئیں ان پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔ ہمیں برآمدات میں اضافے کے لیے خصوصی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ مقامی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں بیرونی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا پڑے گا۔

اکنامک سسٹم کو شراکتی بنانا ہوگا، اسمال اور میڈیم سائز کی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی، خارجہ پالیسی کو جیو اکنامکس کے اصول پر آگے بڑھنا ہوگا۔ آبادی میں میں تشویش ناک اضافہ کو روکنے کے لیے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ میثاق معیشت کے لیے تمام سیاسی پارٹیز کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور منصوبہ بندی میں شامل ہونا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔

کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جو ہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔
Load Next Story