مسئلے کا حل ویلفیئر اسٹیٹ
وقت نے ثابت کیا ہے کہ ملک کا مستقبل سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے ویلفیئر اسٹیٹ بنانے میں ہے
آزادی کے 75سال بعد پھر ایک اور سابق وزیر اعظم کو بدعنوانی کے مقدمہ میں عدالت نے سزا دے دی، یوں سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اورچیئرمین پی ٹی آئی بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے۔
ملک کی تاریخ پر گہری نظر ڈالی جائے تو کچھ یوں حقائق ابھرتے ہیں۔ دو وزراء اعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کیے گئے۔
ایک وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ حسین شہید سہروردی، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور شاہد خاقان عباسی کو اسی طرح احتساب کی عدالتوں سے شکایت پیدا ہوئی۔ ان رہنماؤں کو دفاع کے حق سے محروم کیا گیا۔
ان رہنماؤں کے خلاف سرکاری گواہ کھڑے کیے گئے اور غیر مصدقہ دستاویزات پیش کی گئیں جیسے شکایت چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے وکلاء کو ہوئی۔ معروف وکیل خواجہ حارث کو نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی کا عدالتوں میں دفاع کرتے ہوئے ایسی ہی صورتحال سے گزرنا پڑا جیسی صورتحال سے میاں محمود علی قصوری، یحییٰ بختیار، بیرسٹر اعتزاز احسن، فاروق ایچ نائیک، اعجاز بٹالوی اور خواجہ سلطان وغیرہ کوگزرنا پڑا تھا۔
تاریخ کے صفحات ایک اور حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جنرل ایوب خان نے 1956 کا آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کیا۔ ان کے دور ِاقتدار میں اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان کے عوام میں احساسِ محرومی پیدا ہوگیا۔
جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے تحت اقتدار سنبھالا، اپنی مرضی کا 1962کا آئین نافذ کیا۔ اس آئین میں سارے اختیارات صدرکے گرد گھومتے تھے۔ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلہ میں انتخاب میں حصہ لیا تو انھیں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا اور ایک منظم منصوبہ کے تحت انتخابات میں ہرا دیا گیا۔
1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئی تو جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور عوامی لیگ کی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لیے آپریشن کیا۔ بعض سیاسی اور مذہبی و سیاسی جماعتوں نے آپریشن کی حمایت کی۔
جنرل یحییٰ خان کے دور میں ملک دولخت ہوا۔ سیاست دانوں نے متفقہ طور پر 1973میں ایک آئین بنایا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کے نفاذ کے فوراً بعد آئین کے انسانی حقوق کے باب کو معطل کیا۔ بلوچستان کی منتخب حکومت کو توڑ کر ملک کی دوسری بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔
جنرل ضیاء الحق نے 1977میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کے نتائج آج بھی ملک بھگت رہا ہے۔ ملک کے ان رہنماؤں کے خلاف کسی عدالت میں کوئی مقدمہ نہ چلا۔ جنرل پرویز مشرف کو ایک خصوصی عدالت نے آئین توڑنے پر سزائے موت دی۔
اس ملک میں ایک صرف یہی نہیں ہوا، گزشتہ 75 برسوں میں ایک خاص منصوبہ کے تحت شہری آزادیوں پر قدغن لگائی گئی اور ہر حکومت کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو اقتدار پر قبضہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلی تقریر میں 90 دن میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا، پھر اس وعدہ کو بھول گئے۔ یوں ریاست نے انتہا پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کر کے خطہ میں تباہی مچادی۔
1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو دو دفعہ اقتدار میں آئیں مگر دونوں جماعتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا، پرویز مشرف ایک طرف طالبان حکومت کے خلاف اتحادی بن گئے تو دوسری طرف طالبان کی مزاحمتی تحریک کو منظم ہونے میں اہم کردار ادا کیا گیا۔ یوں دہشت گردی کابل سے پشاور اور کوئٹہ کے راستہ کراچی تک پہنچ گئی۔
میثاق جمہوریت کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی مگر دونوں حکومتوں کے وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف عدالتی ایکٹو ازم کا شکار ہوئے۔ ملک سیاسی استحکام کی منزل حاصل نہ کرسکا۔ حقیقی معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہ ہوسکا، اگرچہ 1999 میں ایٹم بم بنالیا گیا مگر ملک میں بجلی کی کمی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔
ہر سال بجلی مہنگی ہوتی ہے اور برسر اقتدار حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر گیس کے ذخائر ختم ہوگئے۔ ملک میں صنعتی ڈھانچہ کو بڑھاوا نہیں مل سکا۔
دوسری طرف زرعی پیداوار میں اضافہ کے لیے جدید سائنسی طریقے نافذ نہ ہوئے، یوں ایک زرعی ملک اجناس کی درآمد کرنے پر مجبور ہوا۔ صنعتیں نہ لگنے سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی۔ روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کو تقویت ملی جس کے نتیجہ میں سیکڑوں افراد اپنی جانیں کھو بیٹھے۔
مقتدرہ کے بعض کرداروں نے مذہبی دہشت گردی کو برآمد کرنے کی پالیسی اختیارکی جس کے نتیجہ میں ایک طرف ملک کا نام بدنام ہوا تو دوسری طرف ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں عائد ہوئیں۔
غیر ملکی مالیاتی اداروں نے قرضے دینے کے لیے سخت شرائط لگا دیں۔ موجودہ حکومت نے ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے ریاستی اداروں کا انفرا اسٹرکچر کم کرنے کے بجائے سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا۔ پاکستانی اقتصادیات کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ اس سال سعودی عرب نے پاکستان کے لیے حج کا جوکوٹہ دیا تھا معاشی صورتحال کی بناء پر پہلی دفعہ کم لوگوں نے حج پر جانے کا فیصلہ کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ سکڑ گیا ہے۔
عجب المیہ ہے کہ ملک میں ایک ہی بجلی کی لائن ہے، بجلی کی لائن کے نیشنل گرڈ کے کسی حصہ میں کوئی خرابی ہوجائے تو کراچی سے پشاور تک اندھیرا ہوجاتا ہے۔ ریلوے کا نظام انتہائی بوسیدہ ہے کہ ہر مہینہ دو ماہ بعد ملک میں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے جس کے بعد کراچی سے راولپنڈی تک کئی کئی دن تک ریلوے ٹریفک معطل رہتی ہے۔
ترقی کے سارے اعشاریے منفی رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انسانی ترقی کے اعشاریہ HDI میں 192 ممالک میں 161ویں نمبر پر ہے۔
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے 37 فیصد بچے اسکول میں داخلہ نہیں لے پاتے۔ غربت کی سطح کے بین الاقوامی انڈکس کے مطابق 121ممالک میں پاکستان کا نمبر 99 ہے۔ یوں آبادی کا 40 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
ایک طرف سیاسی اور معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے تو دوسری طرف انتہا پسندی رک نہیں رہی ہے۔ انتہا پسندی معاشرہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو کچل رہی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ فلم ساز سرمد کھوسٹ کی معرکتہ الآراء فلم ''زندگی تماشا'' کی سنسر سرٹیفکیٹ کے باوجود ملک میں نمائش نہ ہونے سے لگایا جاسکتا ہے۔
وقت نے ثابت کیا ہے کہ ملک کا مستقبل سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے ویلفیئر اسٹیٹ بنانے میں ہے۔ پڑوسی ممالک سے معمول کے تعلقات ڈیپ اسٹیٹ کے خاتمہ اور بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کو 11اگست 1947کی تقریر کی رو کے مطابق جدید سیکولر ریاست کے قیام میں مضمر ہیں۔