کشمیر بھارتی سپریم کورٹ کے کٹہرے میں
دلی سرکار نے کشمیریوں کو معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی ضمانت دینے والے تیس سے زائد قوانین کو منسوخ کیا
مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے پانچ اگست دو ہزار انیس کے خاتمے کے چار سال بعد بالٓاخر بھارتی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی اجتماعی سماعت شروع کر ہی دی۔
مودی حکومت نے عدالت کے روبرو بیانِ حلفی میں دعویٰ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد خطے میں بے مثال تعمیر و ترقی کے کاموں کے علاوہ احساسِ تحفظ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
البتہ فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر نامی تھنک ٹینک نے مودی حکومت کے اس دعوی کو اعداد و شمار کے ذریعے چیلنج کر کے کچا چٹھہ کھول دیا۔ یہ انیس رکنی تھنک ٹینک پانچ ریٹائرڈ سینئر ججوں، چار سابق سینئر بیوروکریٹس کے علاوہ کشمیر میں خدمات انجام دینے والے فوج کے سابق اعلیٰ فوجی افسروں اور ایک سرکردہ مورخ پر مشتمل ہے۔
اس تھنک ٹینک نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کشمیر میں حکومت کا امن و امان کی بحالی کا دعویٰ درست ہے، تو پھر یہاں پچھلے پانچ برس میں ریاستی انتخابات کیوں منعقد نہیں ہو پائے ؟
اس عرصے میں دلی سرکار نے کشمیریوں کو معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی ضمانت دینے والے تیس سے زائد قوانین کو منسوخ کیا۔مقامی آبادی کے املاکی حقوق کی پامالی، گرفتاریوں، مواصلات و نقل و حرکت پرپابندیوں اور ذرایع ابلاغ کی ہراسانی میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔
الٹا حکومت نے اس سال جنوری میں اسلحہ لائسنس کے اجرا پر چھ سال سے عائد پابندی ختم کر کے من پسند افراد کو پہلے چھ ماہ میں تقریباً ایک لاکھ اکتیس ہزار نئے لائسنس جاری کیے۔
انیس سو اٹھانوے میں بالخصوص جموں کے اضلاع میں گاؤں کی سطح پر جو دفاعی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان میں صرف ہندو شہریوں کو ہی بھرتی کیا گیا اور ان کمیٹیوں کی لاقانونیت سے تنگ آ کے انھیں دو ہزار چار میں خود مرکزی حکومت نے غیر مسلح کر کے تحلیل کر دیا۔ اب یہی تجربہ پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور شہری کارکنوں سمیت پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے سخت قوانین لاگو کر کے لگ بھگ سات ہزار گرفتاریاں ہوئیں اور اس قانون کا آج بھی بے دریغ استعمال جاری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی چودہ جیلوں میں مجموعی طور پر چھتیس سو قیدیوں کی گنجائش ہے، لیکن وہاں اس وقت تقریباً ساڑھے پانچ ہزار قیدی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انتخابی حلقہ بندی ایسے کی جا رہی ہے جس کے ذریعے اس واحد مسلم اکثریتی ریاست کی سیاسی و انتخابی ہئیت تبدیل ہو سکے۔
اسمبلی کی نشستوں کی تعداد ایک سو سات سے بڑھا کر ایک سو چودہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے مگرسات نئی نشستوں میں سے چھ ہندو اکثریتی جموں کو اور صرف ایک مسلم اکثریتی وادی کو دی گئی۔
حالانکہ وادی کشمیر میں ریاست کی کل آبادی کا سوا چھپن فیصد حصہ رہتا ہے مگر اس کے لیے اسمبلی میں محض سینتالیس نشستیں مختص کی گئیں، جب کہ ہندو اکثریتی جموں ڈویژن جہاں ریاست کی چوالیس فیصد آبادی رہتی ہے، اسے تینتالیس نشستیں دی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دو ہزار انیس سے پہلے بھارتی آئین کے آرٹیکل پینتیس اے اور جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ایک سو چالیس کے تحت ریاست کے صرف مستقل باشندوں کو ووٹ دینے اور جائیداد رکھنے کا حق تھا۔
غیر مستقل رہائشی مرکزی پارلیمانی انتخابات میں ہی ووٹ دینے کے اہل تھے اور ان کی غیر مستقل ووٹر کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی۔ نئے قوانین کی رو سے یہ فرق ختم کر دیا گیا ہے۔
یعنی کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں پندرہ سال سے زائد عرصے سے مقیم ہے یا ریاست میں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہے، یا بطور مہاجر بحالی کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہے، ووٹ ڈالنے یا غیر منقولہ جائیداد خریدنے کا حقدار ہوگا۔ چنانچہ ووٹر لسٹوں میں سات لاکھ ستر ہزار نئے غیر مستقل ووٹر وں کا اندراج کیا گیا ہے۔
نئی اسمبلی میں وادی سے ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو اور انیس سو پینسٹھ تک پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے ایک نشست مختص کی گئی ہے۔
مگر ان نشتوں پر نامزدگی گورنر کریگا۔ یعنی اگر نئی اسمبلی میں بی جے پی یا اس کی حمایت یافتہ جماعتیں ووٹوں کے ذریعے مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کر پائیں تو ان نامزد امیدواروں کے ذریعے عددی برتری بڑھائی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح تئیس فیصد جب کہ بھارت میں اوسطاً سات اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چار سالوں میں خطے میں سرمایہ کاری میں پچاس فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کو صنعتی ترقی کے لیے زمین مختص کرنے کی کل ڈھائی ہزار درخواستوں میں سے صرف پانچ چھ درخواستیں باہر سے موصول ہوئی ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر پیش کی جانے والی مراعات کے باوجود باہر کے لوگ خطے میں سرمایہ کاری کرنے سے بوجوہ گریزاں ہیں۔
اگرچہ ریاست میں سرکاری آنکڑوں کے مطابق بے زمین افراد کی تعداد انیس ہزار ہے مگر بے زمین غریبوں کے نام پر دو لاکھ مکانات کی تعمیر کا منصوبہ مقامی آبادی میں اطمینان کے بجائے شکوک و شبہات جنم دے رہا ہے خدشہ ہے کہ غیر رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ڈومیسائل کا حق حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔
ایک اور نئے قانون یعنی لینڈ گرانٹ قانون نے انیس سو ساٹھ کے زمینی گرانٹ قانون کی جگہ لے لی، جس کے تحت زمین ننانوے سال کی قابلِ تجدید لیز پر لی جاسکتی تھی۔ نئے قانون کے تحت سبھی پرانی لیزوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔
کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اس قانون سے سری نگر میں تقریباً نصف کاروبار متاثر ہوں گے۔ لیز کی تجدید نہیں ہو گی اور مالکان کو یہ املاک خالی کرنا پڑیں گی۔
ان املاک کو آن لائن نیلام کیا جائے گا جس میں بھارت کا کوئی بھی شہری حصہ لے سکے گا۔یعنی یہ مقامی آبادی کی معاشی ناکہ بندی کی ایک نئی شکل ہے۔اس رپورٹ اور دیگر اعداد و شمار کو سپریم کورٹ کتنا سنجیدگی سے لیتی ہے۔یہ بھی انصاف کا امتحان ہے۔
( اس مضمون کا بنیادی ماخذ آن لائن نیوز ویب سائٹ دی وائر میں شایع ہونے والی صحافی افتخار گیلانی کی رپورٹ ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مودی حکومت نے عدالت کے روبرو بیانِ حلفی میں دعویٰ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد خطے میں بے مثال تعمیر و ترقی کے کاموں کے علاوہ احساسِ تحفظ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
البتہ فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر نامی تھنک ٹینک نے مودی حکومت کے اس دعوی کو اعداد و شمار کے ذریعے چیلنج کر کے کچا چٹھہ کھول دیا۔ یہ انیس رکنی تھنک ٹینک پانچ ریٹائرڈ سینئر ججوں، چار سابق سینئر بیوروکریٹس کے علاوہ کشمیر میں خدمات انجام دینے والے فوج کے سابق اعلیٰ فوجی افسروں اور ایک سرکردہ مورخ پر مشتمل ہے۔
اس تھنک ٹینک نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کشمیر میں حکومت کا امن و امان کی بحالی کا دعویٰ درست ہے، تو پھر یہاں پچھلے پانچ برس میں ریاستی انتخابات کیوں منعقد نہیں ہو پائے ؟
اس عرصے میں دلی سرکار نے کشمیریوں کو معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی ضمانت دینے والے تیس سے زائد قوانین کو منسوخ کیا۔مقامی آبادی کے املاکی حقوق کی پامالی، گرفتاریوں، مواصلات و نقل و حرکت پرپابندیوں اور ذرایع ابلاغ کی ہراسانی میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔
الٹا حکومت نے اس سال جنوری میں اسلحہ لائسنس کے اجرا پر چھ سال سے عائد پابندی ختم کر کے من پسند افراد کو پہلے چھ ماہ میں تقریباً ایک لاکھ اکتیس ہزار نئے لائسنس جاری کیے۔
انیس سو اٹھانوے میں بالخصوص جموں کے اضلاع میں گاؤں کی سطح پر جو دفاعی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان میں صرف ہندو شہریوں کو ہی بھرتی کیا گیا اور ان کمیٹیوں کی لاقانونیت سے تنگ آ کے انھیں دو ہزار چار میں خود مرکزی حکومت نے غیر مسلح کر کے تحلیل کر دیا۔ اب یہی تجربہ پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور شہری کارکنوں سمیت پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے سخت قوانین لاگو کر کے لگ بھگ سات ہزار گرفتاریاں ہوئیں اور اس قانون کا آج بھی بے دریغ استعمال جاری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی چودہ جیلوں میں مجموعی طور پر چھتیس سو قیدیوں کی گنجائش ہے، لیکن وہاں اس وقت تقریباً ساڑھے پانچ ہزار قیدی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انتخابی حلقہ بندی ایسے کی جا رہی ہے جس کے ذریعے اس واحد مسلم اکثریتی ریاست کی سیاسی و انتخابی ہئیت تبدیل ہو سکے۔
اسمبلی کی نشستوں کی تعداد ایک سو سات سے بڑھا کر ایک سو چودہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے مگرسات نئی نشستوں میں سے چھ ہندو اکثریتی جموں کو اور صرف ایک مسلم اکثریتی وادی کو دی گئی۔
حالانکہ وادی کشمیر میں ریاست کی کل آبادی کا سوا چھپن فیصد حصہ رہتا ہے مگر اس کے لیے اسمبلی میں محض سینتالیس نشستیں مختص کی گئیں، جب کہ ہندو اکثریتی جموں ڈویژن جہاں ریاست کی چوالیس فیصد آبادی رہتی ہے، اسے تینتالیس نشستیں دی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دو ہزار انیس سے پہلے بھارتی آئین کے آرٹیکل پینتیس اے اور جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ایک سو چالیس کے تحت ریاست کے صرف مستقل باشندوں کو ووٹ دینے اور جائیداد رکھنے کا حق تھا۔
غیر مستقل رہائشی مرکزی پارلیمانی انتخابات میں ہی ووٹ دینے کے اہل تھے اور ان کی غیر مستقل ووٹر کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی۔ نئے قوانین کی رو سے یہ فرق ختم کر دیا گیا ہے۔
یعنی کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں پندرہ سال سے زائد عرصے سے مقیم ہے یا ریاست میں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہے، یا بطور مہاجر بحالی کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہے، ووٹ ڈالنے یا غیر منقولہ جائیداد خریدنے کا حقدار ہوگا۔ چنانچہ ووٹر لسٹوں میں سات لاکھ ستر ہزار نئے غیر مستقل ووٹر وں کا اندراج کیا گیا ہے۔
نئی اسمبلی میں وادی سے ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو اور انیس سو پینسٹھ تک پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے ایک نشست مختص کی گئی ہے۔
مگر ان نشتوں پر نامزدگی گورنر کریگا۔ یعنی اگر نئی اسمبلی میں بی جے پی یا اس کی حمایت یافتہ جماعتیں ووٹوں کے ذریعے مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کر پائیں تو ان نامزد امیدواروں کے ذریعے عددی برتری بڑھائی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح تئیس فیصد جب کہ بھارت میں اوسطاً سات اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چار سالوں میں خطے میں سرمایہ کاری میں پچاس فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کو صنعتی ترقی کے لیے زمین مختص کرنے کی کل ڈھائی ہزار درخواستوں میں سے صرف پانچ چھ درخواستیں باہر سے موصول ہوئی ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر پیش کی جانے والی مراعات کے باوجود باہر کے لوگ خطے میں سرمایہ کاری کرنے سے بوجوہ گریزاں ہیں۔
اگرچہ ریاست میں سرکاری آنکڑوں کے مطابق بے زمین افراد کی تعداد انیس ہزار ہے مگر بے زمین غریبوں کے نام پر دو لاکھ مکانات کی تعمیر کا منصوبہ مقامی آبادی میں اطمینان کے بجائے شکوک و شبہات جنم دے رہا ہے خدشہ ہے کہ غیر رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ڈومیسائل کا حق حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔
ایک اور نئے قانون یعنی لینڈ گرانٹ قانون نے انیس سو ساٹھ کے زمینی گرانٹ قانون کی جگہ لے لی، جس کے تحت زمین ننانوے سال کی قابلِ تجدید لیز پر لی جاسکتی تھی۔ نئے قانون کے تحت سبھی پرانی لیزوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔
کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اس قانون سے سری نگر میں تقریباً نصف کاروبار متاثر ہوں گے۔ لیز کی تجدید نہیں ہو گی اور مالکان کو یہ املاک خالی کرنا پڑیں گی۔
ان املاک کو آن لائن نیلام کیا جائے گا جس میں بھارت کا کوئی بھی شہری حصہ لے سکے گا۔یعنی یہ مقامی آبادی کی معاشی ناکہ بندی کی ایک نئی شکل ہے۔اس رپورٹ اور دیگر اعداد و شمار کو سپریم کورٹ کتنا سنجیدگی سے لیتی ہے۔یہ بھی انصاف کا امتحان ہے۔
( اس مضمون کا بنیادی ماخذ آن لائن نیوز ویب سائٹ دی وائر میں شایع ہونے والی صحافی افتخار گیلانی کی رپورٹ ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)