ہندوکش یا سیندوکش
لفظ ہندوکش میں دونوں ہجے کیوں ہیں یاتو اسے ہندوکوہ ہونا چاہیے یاسندوکش تو اس کاجواب آسان ہے
ہمارے کئی پڑھنے والے اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ کوہ''ہندوکش'' کن کن علاقوں پر مشتمل ہے یا پھیلا ہوا ہے ، یہ سلسلہ دراصل ہماری کتاب''پشتون اور نسلیات ہندوکش'' سے شروع ہواہے جس پر لگ بھگ تین سال تک تو وائس آف امریکا کے پروگرام ''ڈیوہ'' میں بحث ہوتی رہی ہے۔
کتاب میں دراصل پشتونوں کی تاریخ اوراصل نسل کے وہ تمام نظریات رد کردیے ہیں جو اب تک افغانستان اورپاکستان کے علاوہ متشرقین نے ''اساطیر'' اورداستانی ادب سے نکال کر طبیعات ارضیات بشریات اورآثاریات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ پشتون ، کہیں سے بھی آئے ہوئے نہیں بلکہ تمام ''سفید کاکشی''نسلوں کی جائے پیدائش افزائش اورپھر پھیلاؤ کامقام یہی کوہ ہندوکش ہے۔
باقی ساری مباحث کو ایک طرف کرکے صرف ''ہندوکش '' تک محدود رکھتے ہیں جو درحقیقت لسانی اصولوں کی روشنی میں غلط ہے ، یہ لفظ یا تو ''سیندوکش''ہوناچاہیے اوریا ہندوکوہ ۔
یہ دوالفاظ کامجموعہ ہے ، سیند اورکس ،،اوریہ ہند آریائی زبانوں کی مشرقی شاخ کی زبانوں کے مطابق ہوگا ، لیکن مغربی آریائی شاخ میں یہ اختلاف قدیم زمانوں سے رہاہے کہ جو ہند آریائی شاخوں میں (س) سے بولا جاتاہے وہ ایرانی شاخ میں (ہ) سے بولا جاتاہے جیسے دیس کو دیہہ دس کو دہ ، ماس کو ماہ سپت کو ہپت سوما کو ہوما، اسورکو اہور ، اسی اصل کے تحت ''کس''کو فارسی میں کوہ یا کہہ کہاجاتاہے اورسند کو ہند۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ''کس ''کس زبان کالفظ ہے اورکب رکھا گیا کیوں کہ جس وقت یہ سلسلہ کوہ بنا تھا اس وقت نہ تو کسی انسان کاوجود تھا نہ زبان کا چنانچہ ارتقاء کی منازل میں جب انسانوں اور زبانوں کامرحلہ آیاتھا تو اسی دور میں یہ نام بھی رکھا گیا ہوگا۔ جب ہم لفظ ''کس'' کو ڈھونڈنے نکلیں تو جس زبان میں یہ ابھی اپنے بینادی مفہوم میں موجود ہے وہ پشتو ہے۔
پشتو میں ''کس'' اب بھی ایسی اونچی زمین کو کہتے ہیں جہاں سے پانی بہہ جاتاہے چنانچہ اس مفہوم میں بہت ساری آبادیوںاوردیہات میںیہ ''کس'' کالاحقہ پایاجاتا ہے ''کس کلے'' کس کورنہ کس ناکہ ، کسی پہاڑی نالوں کو کہاجاتاہے ، ہری پور اوراٹک کے درمیان ایسے ہی ایک نالے کو ''جاری کس'' کہاجاتاہے کیوکہ اب سیم کاپانی اس میں ہمیشہ بہتاہے، مردان کا لگ بھگ آدھا شہر ''کس کورونہ ''کہلاتاہے کیوں کہ یہ آبادی ایک اونچے ٹیلے پر ہے۔
سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسی پہاڑی کے مشرقی سرے پر بھی کھاسی پہاڑ (برہم پترا کے قریب) اورکھائی لوگ آباد ہیں اور ادھر بلوچستان میں بھی ''کسی پہاڑ'' اور ''کاسی'' لوگ آبادہے اوریہ لفظ یہیں پر ٹھہرا نہیں ہے بلکہ ہم جب تاریخ اورجغرافیہ کامطالعہ کرتے ہیں تو تاریخ کے ہرصفحے اورجغرافیہ کے ہرچپے میں ہمیں کاسی اورکاسی ملتے ہیں یہاں سابق روس کی ریاست ''کاسکستان'' موجود ہے اوروہیں پر بحیرہ کاس پتن (کاسکوی کاپانی) حالانکہ اس کاایک نام ''بحیرہ حزر'' بھی ہے ۔
ہندوستان میں بھی کاشی شہرتھا جو آج بنارس یا واراناسی کہلاتاہے ، کاش میر یاکشیر بھی اسی پہاڑی سلسلے کاایک حصہ ہے ، کاشغر تو باقاعدہ کاش غر ہے ، بنیادی لفظ''کس'' ہے ، کش کوش کاش وغیرہ اس کی مختلف شکلیں ہیں ، فارسی میں قاعدے کے مطابق یہ کہہ یاقہہ تو ہوگیاہے اس سے آگے چل کر یہ قف قفقاز، قوکاز اورایرانی داستانوں کا قاف یاکوہ قاف بھی ہو گیا بلکہ اس سے آگے یونان میں کوکاشی کے نام سے داستائی ادب کاحصہ ہے۔
مشہورہیرو (ہرکولیس )کی زیادہ مہمات کامقام بھی یہی قفقاز یاکوہ کاشیہ یاقوقازیہ ہے ۔سکندرنے اپنے نام سے جو آٹھ سکندرئیے یاکوکازئیے آباد کیے تھے ان میں سے ایک کابل کے قریب جبل سراج کے دامن میں تھا ، الیگزینڈیاقوقازیہ۔
''کس '' کے معنی بتاچکاہوں جہاں پانی نہ ٹھہرتا ہو یاجہاں سے پانی بہہ کر آتاہو اسی رعایت سے چونکہ یہ پانی اورانسانوں حیوانوں کامخزن اورسرچشمہ تھا اس لیے اس میں جمع یاذخیرے یامعدن کے معنی بھی شامل ہے۔
معروف پشتو اردو لفظ ''کاسہ'' تو ظاہرہے ''کسوڑہ' تھیلی کوکہتے ہیں اس مفہوم میں جیب کو فارسی میں ''کسیہ'' کہتے ہیں ، جیب تراش کسیہ برد ہوتا یہی کس آگے چل کر انگریزی میں ''کیس'' ہو گیا، سوٹ کیس ، بریف کیس ایٹیچی کیس وغیرہ، سنسکرت میں سرکے بالوں کو کیش کہاجاتاہے جو فارسی میں جاکر ''گیسو'' ہوگیاہے۔
اب اس کے دوسرے حصے ہند یاہندو کو لیتے ہیں ، سیند یاسین ، پشتو میں دریا کوکہتے ہیں بلکہ اوربھی کئی زبانوں اور(س) کو (ہ) میں بدلنے کی بات ہوچکی ہے ، سیند کے اصل معنی قطروں کے ہوتے ہیں ان پانی کے قطروں ، غلے کے بیچوں اورکسی بڑی چیز کے چھوٹے حصے کو کہتے ہیں چنانچہ ہندو کے پارس کادیوتا اندرہے قطرے دینے والا۔
سین یاسیند تو عام دریاہوا ، اباسین کامطلب بھی بڑا دریایادریاؤں کاباپ ہے، پشتو میں دریائے سندھ کو اباسین کہاجاتاہے،مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزی میں چھوٹے سمندرکو سی کہتے ہیں اوربڑاسمندر اوشین کہلاتاہے جو آگے عربی میں اوقیانوس ہوگیا۔
یونانی دیومالامیں اووشین ایک بہت بڑا دریاہے جو ساری دنیا پرمحیط ہے اوردیوتا بھی ہے اوواشین ، اوشین اور اباسین، ایک ہی مادے سے ہیں، یہی لفظ سیند ہی دوسرے لہجے میں پہنچ کر سیندوکس کاحصہ بنا، لفظ ہندوکش دراصل اس پورے سلسلہ کوہ کانام ہے جو سیندوں یادریاؤں کامعدن ومخزن یاکیسہ یاکیس یاکسوڑہ۔
آخر میں حدود کی بات یوں ہے کہ ویسے تو اس پورے سلسلہ کوہ کانام کس ہے لیکن اس خاص حصے سے بے شمار دریانکلتے ہیں اس لیے سیندو کش یاہندوکش یاہندوکوہ یہی حصہ ہے جو ہمالیہ دھرم میں سورگ یعنی جنت کی ساری نشانیاں بھی اسی حصے کی ہیں ۔
یہاں ذہنوں میں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ لفظ ہندوکش میں دونوں ہجے کیوں ہیں یاتو اسے ہندوکوہ ہونا چاہیے یاسندوکش تو اس کاجواب آسان ہے، ہندوستان پر لگ بھگ ایک ہزار سال ہی جتنی حکومتیں آتی ہیں۔
ان سب کی سرکاری تعلیمی ادبی اور کاروباری زبان فارسی رہی ہے اسی لیے اس نام میں بھی دونوں ہجوں کااشتراک موجود ہے ، آخری بات یہ کہ دنیا کی تین بڑی نسلوں ،زرد ،سفید اورسیاہ میں سب سے بڑی نسل ''سفید کاکیشن'' نسل کاسرچشمہ اورمخزن بھی یہی ہندوکش ہے ۔
کتاب میں دراصل پشتونوں کی تاریخ اوراصل نسل کے وہ تمام نظریات رد کردیے ہیں جو اب تک افغانستان اورپاکستان کے علاوہ متشرقین نے ''اساطیر'' اورداستانی ادب سے نکال کر طبیعات ارضیات بشریات اورآثاریات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ پشتون ، کہیں سے بھی آئے ہوئے نہیں بلکہ تمام ''سفید کاکشی''نسلوں کی جائے پیدائش افزائش اورپھر پھیلاؤ کامقام یہی کوہ ہندوکش ہے۔
باقی ساری مباحث کو ایک طرف کرکے صرف ''ہندوکش '' تک محدود رکھتے ہیں جو درحقیقت لسانی اصولوں کی روشنی میں غلط ہے ، یہ لفظ یا تو ''سیندوکش''ہوناچاہیے اوریا ہندوکوہ ۔
یہ دوالفاظ کامجموعہ ہے ، سیند اورکس ،،اوریہ ہند آریائی زبانوں کی مشرقی شاخ کی زبانوں کے مطابق ہوگا ، لیکن مغربی آریائی شاخ میں یہ اختلاف قدیم زمانوں سے رہاہے کہ جو ہند آریائی شاخوں میں (س) سے بولا جاتاہے وہ ایرانی شاخ میں (ہ) سے بولا جاتاہے جیسے دیس کو دیہہ دس کو دہ ، ماس کو ماہ سپت کو ہپت سوما کو ہوما، اسورکو اہور ، اسی اصل کے تحت ''کس''کو فارسی میں کوہ یا کہہ کہاجاتاہے اورسند کو ہند۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ''کس ''کس زبان کالفظ ہے اورکب رکھا گیا کیوں کہ جس وقت یہ سلسلہ کوہ بنا تھا اس وقت نہ تو کسی انسان کاوجود تھا نہ زبان کا چنانچہ ارتقاء کی منازل میں جب انسانوں اور زبانوں کامرحلہ آیاتھا تو اسی دور میں یہ نام بھی رکھا گیا ہوگا۔ جب ہم لفظ ''کس'' کو ڈھونڈنے نکلیں تو جس زبان میں یہ ابھی اپنے بینادی مفہوم میں موجود ہے وہ پشتو ہے۔
پشتو میں ''کس'' اب بھی ایسی اونچی زمین کو کہتے ہیں جہاں سے پانی بہہ جاتاہے چنانچہ اس مفہوم میں بہت ساری آبادیوںاوردیہات میںیہ ''کس'' کالاحقہ پایاجاتا ہے ''کس کلے'' کس کورنہ کس ناکہ ، کسی پہاڑی نالوں کو کہاجاتاہے ، ہری پور اوراٹک کے درمیان ایسے ہی ایک نالے کو ''جاری کس'' کہاجاتاہے کیوکہ اب سیم کاپانی اس میں ہمیشہ بہتاہے، مردان کا لگ بھگ آدھا شہر ''کس کورونہ ''کہلاتاہے کیوں کہ یہ آبادی ایک اونچے ٹیلے پر ہے۔
سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسی پہاڑی کے مشرقی سرے پر بھی کھاسی پہاڑ (برہم پترا کے قریب) اورکھائی لوگ آباد ہیں اور ادھر بلوچستان میں بھی ''کسی پہاڑ'' اور ''کاسی'' لوگ آبادہے اوریہ لفظ یہیں پر ٹھہرا نہیں ہے بلکہ ہم جب تاریخ اورجغرافیہ کامطالعہ کرتے ہیں تو تاریخ کے ہرصفحے اورجغرافیہ کے ہرچپے میں ہمیں کاسی اورکاسی ملتے ہیں یہاں سابق روس کی ریاست ''کاسکستان'' موجود ہے اوروہیں پر بحیرہ کاس پتن (کاسکوی کاپانی) حالانکہ اس کاایک نام ''بحیرہ حزر'' بھی ہے ۔
ہندوستان میں بھی کاشی شہرتھا جو آج بنارس یا واراناسی کہلاتاہے ، کاش میر یاکشیر بھی اسی پہاڑی سلسلے کاایک حصہ ہے ، کاشغر تو باقاعدہ کاش غر ہے ، بنیادی لفظ''کس'' ہے ، کش کوش کاش وغیرہ اس کی مختلف شکلیں ہیں ، فارسی میں قاعدے کے مطابق یہ کہہ یاقہہ تو ہوگیاہے اس سے آگے چل کر یہ قف قفقاز، قوکاز اورایرانی داستانوں کا قاف یاکوہ قاف بھی ہو گیا بلکہ اس سے آگے یونان میں کوکاشی کے نام سے داستائی ادب کاحصہ ہے۔
مشہورہیرو (ہرکولیس )کی زیادہ مہمات کامقام بھی یہی قفقاز یاکوہ کاشیہ یاقوقازیہ ہے ۔سکندرنے اپنے نام سے جو آٹھ سکندرئیے یاکوکازئیے آباد کیے تھے ان میں سے ایک کابل کے قریب جبل سراج کے دامن میں تھا ، الیگزینڈیاقوقازیہ۔
''کس '' کے معنی بتاچکاہوں جہاں پانی نہ ٹھہرتا ہو یاجہاں سے پانی بہہ کر آتاہو اسی رعایت سے چونکہ یہ پانی اورانسانوں حیوانوں کامخزن اورسرچشمہ تھا اس لیے اس میں جمع یاذخیرے یامعدن کے معنی بھی شامل ہے۔
معروف پشتو اردو لفظ ''کاسہ'' تو ظاہرہے ''کسوڑہ' تھیلی کوکہتے ہیں اس مفہوم میں جیب کو فارسی میں ''کسیہ'' کہتے ہیں ، جیب تراش کسیہ برد ہوتا یہی کس آگے چل کر انگریزی میں ''کیس'' ہو گیا، سوٹ کیس ، بریف کیس ایٹیچی کیس وغیرہ، سنسکرت میں سرکے بالوں کو کیش کہاجاتاہے جو فارسی میں جاکر ''گیسو'' ہوگیاہے۔
اب اس کے دوسرے حصے ہند یاہندو کو لیتے ہیں ، سیند یاسین ، پشتو میں دریا کوکہتے ہیں بلکہ اوربھی کئی زبانوں اور(س) کو (ہ) میں بدلنے کی بات ہوچکی ہے ، سیند کے اصل معنی قطروں کے ہوتے ہیں ان پانی کے قطروں ، غلے کے بیچوں اورکسی بڑی چیز کے چھوٹے حصے کو کہتے ہیں چنانچہ ہندو کے پارس کادیوتا اندرہے قطرے دینے والا۔
سین یاسیند تو عام دریاہوا ، اباسین کامطلب بھی بڑا دریایادریاؤں کاباپ ہے، پشتو میں دریائے سندھ کو اباسین کہاجاتاہے،مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزی میں چھوٹے سمندرکو سی کہتے ہیں اوربڑاسمندر اوشین کہلاتاہے جو آگے عربی میں اوقیانوس ہوگیا۔
یونانی دیومالامیں اووشین ایک بہت بڑا دریاہے جو ساری دنیا پرمحیط ہے اوردیوتا بھی ہے اوواشین ، اوشین اور اباسین، ایک ہی مادے سے ہیں، یہی لفظ سیند ہی دوسرے لہجے میں پہنچ کر سیندوکس کاحصہ بنا، لفظ ہندوکش دراصل اس پورے سلسلہ کوہ کانام ہے جو سیندوں یادریاؤں کامعدن ومخزن یاکیسہ یاکیس یاکسوڑہ۔
آخر میں حدود کی بات یوں ہے کہ ویسے تو اس پورے سلسلہ کوہ کانام کس ہے لیکن اس خاص حصے سے بے شمار دریانکلتے ہیں اس لیے سیندو کش یاہندوکش یاہندوکوہ یہی حصہ ہے جو ہمالیہ دھرم میں سورگ یعنی جنت کی ساری نشانیاں بھی اسی حصے کی ہیں ۔
یہاں ذہنوں میں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ لفظ ہندوکش میں دونوں ہجے کیوں ہیں یاتو اسے ہندوکوہ ہونا چاہیے یاسندوکش تو اس کاجواب آسان ہے، ہندوستان پر لگ بھگ ایک ہزار سال ہی جتنی حکومتیں آتی ہیں۔
ان سب کی سرکاری تعلیمی ادبی اور کاروباری زبان فارسی رہی ہے اسی لیے اس نام میں بھی دونوں ہجوں کااشتراک موجود ہے ، آخری بات یہ کہ دنیا کی تین بڑی نسلوں ،زرد ،سفید اورسیاہ میں سب سے بڑی نسل ''سفید کاکیشن'' نسل کاسرچشمہ اورمخزن بھی یہی ہندوکش ہے ۔